ہوم << خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک - جمال عبداللہ عثمان

خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک - جمال عبداللہ عثمان

جمال عبداللہ عثمان ’’ک ک‘‘ کی شادی اپنے تایا زاد سے ہوئی۔ جس وقت ’’ک ک‘‘ کی شادی ہو رہی تھی، وہ پانچ جماعتیں پڑھی تھیں۔ شادی کے بعد شوہر نے انہیں گھر پر بارھویں جماعت تک پڑھایا۔ اللہ نے تین بچوں کی نعمت سے بھی نوازا، لیکن ان کی زندگی میں تلاطم آگیا۔ شوہر کا رویہ یکدم بدلنے لگا۔ ہر وقت مارنے پیٹنے لگا۔ ایک دن ’’ک ک‘‘ نے تنگ آ کر ان سے طلاق مانگی۔ شوہر نے غصے میں آ کر تین بار ’’طلاق‘‘ کہہ ڈالی۔ ’’ک ک‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان فساد کھڑا کرنے والا ہمارا قریبی رشتہ دار تھا۔ اس نے عملیات کے ذریعے ہمارے درمیان تفریق کر ڈالی، جبکہ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ شاید شوہر کو اپنی بیوی سے متعلق کچھ شبہات پیدا ہوگئے تھے۔ اس نے اس سلسلے میں اپنی بیوی سے بات کرنا مناسب نہ سمجھی اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا اور یہی کڑھن طلاق کا سبب بنی۔ خوشگوار زندگی سے خوفناک علیحدگی تک کی دردناک تفصیل ملاحظہ کیجیے۔
٭
’’آپ اپنا نام اور ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟‘‘
’’میرا نام ’’ک ک‘‘ ہے۔ تاریخ پیدائش 1975ء ہے۔ میرے والد اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ دونوں بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں، جبکہ بہنیں بھی اپنے گھروں میں خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ میں نے پانچویں جماعت تک پڑھا تھا۔ پھر میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ ہم لوگ اپنے تایا کے گھر میں رہے۔ مجھے پڑھنے کا زیادہ شوق بھی نہیں تھا اور والدہ نے کبھی توجہ نہیں دی، اس لیے اس وقت پانچ جماعتوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکی۔ بارھویں جماعت تک شادی کے بعد پڑھا۔ وہ بھی میرے سابق شوہر کی کوششوں سے ممکن ہوسکا۔‘‘
’’آپ کی شادی کہاں اور کن کے ساتھ ہوئی؟‘‘
’’جیسا کہ میں نے بتایا جس وقت میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی، میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میرے تایا کا ایک ہی بیٹا تھا۔ تائی کا انتقال پہلے ہی ہوگیا تھا۔ اس لیے تایا کو سہارے کی ضرورت تھی، لہٰذا وہ ہمیں اپنے گھر لے آئے۔ اللہ انہیں خوش رکھے، انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہمیں رکھا۔ اس وقت میرے بڑے بھائی کی عمر تقریباً 20 سال تھی۔ میرے تایا نے دو سال بعد ان کے لیے باہر کا انتظام کیا۔ جب ہمارے بھائی باہر گئے، حالات کافی بہتر ہوگئے۔
میرے تایا نے اس وقت کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی اس کے ساتھ کراؤں گا۔ جن کے ساتھ میری نسبت ہوئی، وہ بہت ذہین تھے۔ جب انہوں نے ماسٹر مکمل کیا، میرے چچا نے اس کی شادی سے متعلق میری امی کو یاد دہانی کرائی۔ امی نے انہیں کہا: ’’آپ کے ہمارے اوپر بےپناہ احسانات ہیں۔ میں بیٹی کے رشتے کا انکار نہیں کرسکتی، لیکن بات یہ ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے اور میری بیٹی صرف پانچ جماعتیں پڑھی ہیں۔ کل کو ایسا نہ ہو، ان دونوں کا گزارا نہ ہوسکے۔‘‘ میرے تایا نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا۔ اس نے رشتے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس طرح میری شادی ان کے ساتھ ہوگئی۔‘‘
’’آپ کی عمر اس وقت کتنی تھی؟‘‘
’’میں اس وقت تقریباً 19 سال کی تھی، جبکہ تایا کا لڑکا مجھ سے چار سال بڑا تھا۔‘‘
’’آپ کے ہاں پہلا تنازع کب شروع ہوا؟‘‘
’’ہماری شادی تقریباً 11 سال تک چلی۔ اس دوران مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے درمیان کبھی ایسی تلخ کلامی ہوئی ہو جسے یاد رکھا جاسکے۔ مجھے زندگی کی تمام سہولیات میسر تھیں، بلکہ میں اپنی زندگی پر رشک کرتی تھی۔ میری سہیلیاں بھی آتیں تو وہ بھی میری خوش قسمتی پر حیران ہوجاتیں۔ میرے شوہر نے مجھے دنیا کی ہر نعمت دی۔ یہاں تک کہ جب میری شادی ہوئی، میرے شوہر نے مجھے کہا کہ تمہیں مزید پڑھنا چاہیے۔ میں نے انکار کیا کہ میرے لیے اب پڑھنا ممکن نہیں، مگر وہ میرے لیے گھر پر کتابیں لائے اور خود پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ کئی کئی گھنٹے مجھے پڑھاتے اور چند مہینوں میں ایک اسکول سے آٹھویں کا امتحان بھی پاس کرا لیا۔ مجھے مزید پڑھنے کا شوق ہوا تو اس وقت ان کی مصروفیات زیادہ ہوگئی تھیں۔ میں نے محلے میں ایک خاتون سے بات کی، وہ میرے پاس آنے لگیں اور اس طرح میں نے چند سالوں میں 12 جماعتیں پرائیویٹ پاس کرلیں۔ اس عرصے میں اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے بھی نوازا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میری زندگی ہر لحاظ سے قابل رشک تھی۔‘‘
’’پھر کیا ایسی بات ہوئی جس کی وجہ سے آپ کے درمیان علیحدگی ہوئی؟‘‘
’’دراصل انہی دنوں ہمارا ایک رشتہ دار ملازمت کے لیے کراچی آ گیا۔ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس کے دوبچے بھی تھے۔ وہ مالی طور پر کافی کمزور تھا۔ میرے شوہر نے اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا۔ ہمارے گھر میں تین کمرے تھے۔ اسے کہا کہ کرائے پر کوارٹر لینے کی ضرورت نہیں، ایک کمرہ آپ استعمال کریں۔ میرے شوہر نے رشتہ دار کو جو کمرہ دیا، وہ بطورِ بیٹھک استعمال ہوتا تھا۔ اس کا دروازہ بھی باہر گلی کی طرف تھا، مگر ایک دروازہ گھر کی طرف بھی کھلتا تھا۔ وہ ہمارا رشتہ دار تھا۔ گاؤں میں بھی ہمارے گھر آنا جانا ہوتا تھا۔ یہاں بھی ایسے ہی آزادانہ آتا جاتا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا، کھانے کے لیے آجاتا۔ وہ بظاہر اچھا تھا۔ میرا بہت احترام کرتا۔ میرے شوہر نے بھی مجھے کہہ رکھا تھا کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے مہمان ہیں، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ہمارے لیے تباہی کا پیغام لے کر آ رہا ہے۔‘‘
آپ ذرا وضاحت کریں گی کس طرح؟‘‘
’’دراصل اس کے آنے کے بعد میرے شوہر کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور کچھ عرصے بعد وہ ایسا بدلے جس کا تصور میرے لیے مشکل تھا۔ ان کے ساتھ میرے تقریباً 10 سال گزر چکے تھے۔ کبھی انہوں نے تیز آواز میں میرے ساتھ بات نہیں کی تھی، لیکن اب وہ ایسے بدلے کہ ڈانٹ ڈپٹ ان کی عادت بن گئی۔ صبح دفتر جاتے، تب بھی کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے۔ شام کو آفس سے آتے تب بھی کوئی بہانہ تیار ہوتا۔‘‘
’’انہیں آپ کے حوالے سے کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوگئی تھی؟‘‘
’’مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ اس رویے کے نتیجے میں میرا بھی دل اُچاٹ ہوگیا تھا، مگر میں ان کے احسانات یاد کرتی تو میرا دل ان کے لیے نرم پڑجاتا۔ ایک دن جب میں بہت پریشان ہوئی، میں نے اپنی پڑوس کی ایک خاتون سے ان کے رویے کا تذکرہ کیا۔ میری پڑوسن نے بتایا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے شوہر پر کسی نے ”کچھ“ کر لیا ہو۔ میں ان چیزوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی، لیکن جب انسان پریشان ہوتا ہے، وہ ایسی ہر بات پر یقین کرلیتا ہے۔ ایک دن صبح سویرے میرے شوہر نے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد مجھے مارا پیٹا۔ میں بہت روئی۔ میرا برا حال ہونے لگا۔ دوپہر کے وقت ہمارا رشتہ دار آیا۔ اس نے میری سرخ آنکھیں دیکھیں تو وجہ پوچھنے لگا۔ میں پریشان تھی۔ میں اپنے دل کا حال کسی کو بتانا چاہتی تھی۔ لہٰذا اس کے سامنے اپنے دُکھ رکھ دیے۔ پھر میں نے اسے پڑوسی خاتون کی بات بتائی۔ ہمارے رشتہ دار نے کہا آپ پریشان نہ ہوں، میرا ایک عامل دوست ہے، میں اس سے آپ کے لیے ایسا تعویذ لاکر دوں گا کہ آپ کے شوہر کا رویہ پہلے جیسا ہوجائے گا، بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہوجائے گا۔‘‘
’’کبھی آپ نے شوہر کے بدلتے رویے پر ان کے ساتھ کوئی بات کی؟‘‘
’’میں نے ایک دو بار بات کرنے کی کوشش کی، مگر مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں نے ان سے کئی بار کہا کہ آپ مجھے میرا قصور بتادیں۔ اگر مجھ میں کوئی کمی ہے، میں اسے دور کرنے کی کوشش کروں گی۔ وہ ہر بار یہی کہتے کہ تم اپنا کردار ٹھیک کرو۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتے تھے اور اگر کچھ چاہتے تھے تو اس کا کھل کر اظہار کیوں نہیں کیا؟ جب بہت سوچا، پھر ذہن میں آیا کہ شاید میرے شوہر کو کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اس لیے ہمارے گھر میں جو رشتہ دار رہتا تھا، میں نے ایک دن اس سے درخواست کی کہ وہ یہاں سے کہیں اور چلا جائے۔ جب اس سے بات کی، وہ خاصا پریشان ہوا، مگر بالآخر بوریا بستر اُٹھا کر قریب میں کہیں اور کوارٹر کرائے پر لے لیا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ شاید اب میرے شوہر کا رویہ کچھ بہتر ہوجائے، لیکن تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘
’’آپ کے رشتے دار تب بھی آپ کے گھر آتے جاتے رہے یا بالکل ہی رشتہ ناتا توڑ دیا؟‘‘
’’جی! وہ آتا تھا، خصوصاً جب میرے شوہر گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس کا آنا اچھا نہیں لگتا تھا، مگر میں کیا کرتی۔ یہاں اور کوئی میرا نہیں تھا۔ جب وہ آتا، میں اس کے سامنے اپنا دُکھ بیان کرتی۔ اس طرح میں سمجھتی تھی کوئی تو ہے جو میرا دکھ درد سن رہا ہے۔ ایک دن وہ آیا تو بڑا خوش تھا۔ کہنے لگا کہ تمہارے لیے ایسے تعویذ لے کر آ رہا ہوں کہ تمہارا شوہر تمہارا غلام بن جائے۔ میں بھی بڑی خوش ہوئی اور اس سے تعویذ لے کر اس کی ہدایات کے مطابق رکھ لیے۔‘‘
’’تعویذ کے بعد ان کا رویہ ٹھیک ہوگیا؟‘‘
’’اس دن جب وہ شام کو آ رہے تھے، میں بڑی خوش تھی۔ میرے ذہن میں تھا کہ تعویذ نے اپنا اثر دکھایا ہوگا، لیکن اس دن وہ پہلے سے بھی زیادہ بھڑکے ہوئے تھے۔ مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی جب چند دن بعد وہ ایسے ہوگئے جیسے میں نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو۔ وہ میری شکل دیکھتے ہی آگ بگولا ہوجاتے۔ گالیاں دیتے، اگر میں کوئی بات کرتی، مجھ پر تشدد کرنے لگ جاتے۔ میں اتنی پریشان ہوئی جس کی انتہا نہیں۔ ایک دن میں بہت اُداس تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہمارا وہ رشتہ دار آگیا۔ میں نے اسے تازہ حالات بتائے۔ کہنے لگا: ’’تم کیوں اپنی زندگی برباد کر رہی ہو؟ اس سے سیدھی سیدھی بات کرو۔ اسے بولو کہ تم نے مجھے خریدا نہیں ہے۔ اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔ آپ دیکھیں گی وہ یقیناً بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگا۔“
میں بے وقوف تھی، اس کی باتوں میں آگئی۔ شام کو میرے شوہر گھر آئے۔ حسبِ معمول غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔ میں کھانا رکھ رہی تھی۔ انہوں نے گالیاں دینا شروع کردیں۔ میں خاموش رہی۔ ان کا پارہ مزید چڑھنے لگا۔ جب میں تنگ ہوگئی، میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھ سے تنگ ہوگئے ہیں تو مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ وہ غصے میں تھے، مگر میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر میرا منہ دیکھنے لگے۔‘‘
’’کیا آپ کو یقین تھا کہ آپ کے شوہر اس پر عملدرآمد نہیں کریں گے؟‘‘
’’جی! میں یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ محض انہیں چپ کرانے کا ایک ہتھیار ہے جس میں مجھے کامیابی ملی۔ اب انہوں نے جب بھی مجھے گالیاں دیں، میں نے انہیں یہی کہا ’’اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔‘‘ اور وہ خاموش ہوجاتے، میرا منہ تکنے لگ جاتے۔ ایک دن اسی طرح وہ آفس سے آئے۔ میں کھانا لگارہی تھی، انہوں نے حسبِ عادت گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جب وہ آخری حد تک چلے گئے اور میری پٹائی شروع کردی، میں نے ایک بار پھر وہی بات دُہرائی، لیکن اب شاید وہ ذہنی طورپر اس کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھے نہیں رکھ سکتے، مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’طلاق دے دوں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں طلاق دے دو۔‘‘ انہوں نے پھر پوچھا، میں نے پھر اپنی بات دُہرائی۔ میں نے تیسری بار وہی بات کہی۔ انہوں نے تین بار وہ لفظ دُہرایا جس سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ شاید انہیں بھی اندازہ ہوگیا تھا، اس لیے وہ گھر سے نکل گئے۔ میں اپنا سر پیٹ رہی ہوں اور بچے مجھ دیکھ کر رو رہے ہیں۔ میں ساری رات روتی رہی، وہ نہیں آئے۔ اگلی صبح ہوئی، تب بھی نہیں آئے۔ دوپہر کے وقت ہمارا وہ رشتہ دار آیا۔ اس نے مجھے تسلی دی اور ایک ایسی بات کہہ دی جس نے میرے تن بدن میں آگ لگادی۔ اس نے کہا تم پریشان نہ ہونا، میں تمہارے ساتھ شادی کرنے کو تیار ہوں۔ اس وقت میرا غم کی شدت سے سینہ پھٹ رہا تھا۔ میں نے اسے گالیاں دے کر گھر سے نکالا۔‘‘
’’مختصراً بتادیں کہ وہ رشتہ دار کہاں گیا اور آپ کے سابق شوہر کا کیا بنا؟‘‘
’’میں نے گاؤں میں اپنے بھائیوں کو فون کیا، انہیں مختصر طور پر یہ خوفناک داستان سنائی۔ ایک بھائی فوری کراچی آئے۔ میں نے شروع سے آخر تک ساری صورتِ حال ان کے سامنے رکھی۔ میں نے انہیں رشتہ دار کا بھی بتایا۔ تعویذ کا بھی ذکر کیا۔ میرے بھائیوں نے مجھ سے وہ تعویذ منگوائے اور کسی عامل کے پاس لے گئے۔ جب ان تعویذوں کی جانچ پڑتال ہوئی، پتا چلا سارا فساد اسی شخص نے کھڑا کیا ہے۔ اسی نے ہمارے درمیان تفریق پیدا کی ہے۔ میرا بھائی اس کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے قسم کھائی تھی، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس رشتے دار کو جب معلوم ہوا، وہ فرار ہوگیا۔ آج کئی سال ہوچکے ہیں، اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ میرے سابق شوہر نے بعد میں مکان میرے نام کرایا۔ وہ گاؤں چلے گئے۔ ذہنی اذیتوں سے گزرتے رہے اور اب سنا ہے کہ ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ آج مجھے کسی چیز کی کمی نہیں۔ بھائیوں کی طرف سے مکمل سپورٹ ہے۔ اپنا مکان کرائے پر دے رکھا ہے، لیکن جب اپنا وہ وقت یاد کرتی ہوں، دل بہت اُداس ہوجاتا ہے۔ سوچتی ہوں کاش! میں ایسا نہ کرتی۔ اب اس اُمید پر جی رہی ہوں کہ بچوں کا اچھا مستقبل دیکھ سکوں۔‘‘