ہوم << اقبال کا مرد مؤمن - حیا حریم

اقبال کا مرد مؤمن - حیا حریم

ابتدائی تعلیمی درس گاہ ہوتی یا کسی محفل کی اختتامیہ تقریب ۔۔ وہ اسکول کا اسمبلی ہال ہوتا یا ۔۔۔ یا کھیل کا گراؤنڈ ۔۔۔ ہر جگہ سماعتوں سے اقبال کے مصرعے ٹکرایا کرتے تھے۔
اسکول میں استاد کہا کرتے تھے کہ تم اقبال کے نوجوان ہو ۔۔ تمہاری منزل آسمانوں میں ہے۔
کبھی ہیڈ ماسٹر صاحب اسکول کے استاد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کرتے تھے کہ آپ تو مرد مؤمن ہیں۔
گھر سے مکتب بھیجتے ہوئے ابا کہا کرتے تھے کہ تم شاہین ہو بیٹا!
لاشعوری سے شعور تک اقبال کے تصور کے مطابق جب بھی سوچا ۔۔ جب بھی دیکھا حوصلہ ملتا گیا ۔۔ اقبال نے کہا تھا کہ یہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے ہیں ۔۔ انہیں شمشیر کی بھی ضرورت نہیں ۔۔ ان کی تو خودی صورت فولاد ہے ۔۔
اقبال کی نظر نے انہیں قبیلے کی آنکھوں کا تارا بھی کہا اور ان کے شباب کو بے داغ بھی کہا ۔۔
اقبال کے تصور نے ہمیں ان کی ہزار کوتاہیوں کے بعد بھی یہ کہہ کر حوصلہ دیے رکھا کہ
’’نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے۔‘‘
لیکن کچھ دن قبل اقبال کے نام پر قائم کردہ معروف مکتب میں اس کے شاہینوں نے امتحانی پرچے میں بے باکی سے شرم کو بالائے طاق رکھ کر سوال کرکے یہ ثابت کردیا کہ اقبال کی ان سے وابستہ امیدیں خیال خام ہیں کہ
وہ شاہیں نہیں ۔۔۔ کسے مجرے کے کبوتر ہیں۔
ان کا ذوق کتابیں نہیں جنس مخالف ہے۔
یہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے بجائے صنف نازک کی چادریں کھینچنے والے ہیں۔
اقبال نے کہا تھا ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔
لیکن نہیں۔ یہ مٹی زرخیز نھیں کیچڑ بن چکی ہے۔
یہ شاہیں بھی مرچکا اور قبیلے کی آنکھوں کے تاروں نے قوم کا سر جھکا دیا۔
خبردار! اب جو کسی نے انہیں اقبال کا مرد مؤمن کہا۔

Comments

Click here to post a comment