ہوم << گلابی داغ - احسان کوہاٹی

گلابی داغ - احسان کوہاٹی

’’یار یہ کم بخت شرٹ کہاں چلی گئی۔ کہا بھی تھا کہ پریس کر کے رکھ دینا، پریس نہ کرتیں، کم از کم نکال کر تو رکھ دیتیں۔‘‘ سیلانی الماری میں رکھے کپڑوں کو ادھر ادھر کرتے ہوئے بڑبڑائے جا رہا تھا، کپڑوں سے بھری الماری میں کوئی چیز تلاش کرنا گویا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا تھی، اسے وہ شرٹ نہ ملنی تھی نہ ملی لیکن اس بہانے اسے اور بہت سے کپڑے مل گئے، جو اک عرصہ سے نظر التفات کے منتظرتھے، ان ہی میں کاٹن کا ایک سفید جوڑا بھی دکھائی دے گیال۔ سیلانی بڑبڑانے لگا بول بول کے ہونٹ لٹک گئے کہ جمعے کے روز سفید قمیض شلوار پریس کر دیا کریں، لیکن کم بخت جینز شرٹ سے جان ہی نہیں چھوٹتی، یہ سامنے سفید سوٹ پڑا ہوا ہے۔ سیلانی نے منہ بناتے ہوئے کپڑے استری کرنے کے لیے نکالے کہ اس پر پانی چھڑک کر پریس کرنا شروع کرے لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی، سفید قمیض پر بڑے بڑے گلابی داغ کہہ رہے تھے کہ اسے اسی طرح تہہ کرکے سلیقے سے الماری میں رکھ دیا جائے۔
سیلانی نے مسہری پر پڑی قمیض اٹھائی اور ان داغوں کا بغور جائزہ لینے لگا، یہ داغ جانے والے نہ تھے، پکے رنگ کے پکے داغ تھے لیکن یہ لگے کب؟ سیلانی ماتھے پر بل ڈالے سوچ میں پڑ گیا لیکن کچھ یاد ہی نہیں آرہا تھا، پھر دفعتا اسے یاد آگیا کہ یہ داغ اسے سات برس پیچھے کراچی کے پوش کلفٹن میں خوشبوؤں اور رنگوں سے سجی ایک تقریب میں لے گئے، اقلیتی برادری کی اس تقریب میں وہ اس وقت ’’اقلیت‘‘ میں تھا، یہ ہندو برادری کی ہولی کی تقریب تھی۔ ظاہر ہے کہ اس تقریب میں اسے اقلیت ہی میں ہونا تھا بلکہ وہ ہی نہیں وہاں موجود اس کے دیگر صحافی دوست بھی اس وقت اقلیت میں تھے، وہ یہاں ہولی کی تقریب کی کوریج کے لیے مدعو تھے۔
رنگوں بھری مہکتی یاد کیا آئی، اس کے لبوں پر بےساختہ مسکان آگئی اور وہ مسکراتے ہوئے یادوں کی اسکرین پر کراچی کے متمول علاقے کلفٹن کے ایک لان میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے تمتماتے ہوئے چہرے دیکھنے لگا، شرارتی بچے لان میں دوڑتے بھاگتے پھر رہے تھے، ٹین ایجر، منچلے، خوب سج سنور کر فلمی ہیرو بنے دکھائی دے رہے تھے، خواتین مہنگی ساڑھیوں اور بیش قیمت لباس پہنے ایک دوسرے سے سبقت لیے جا رہی تھیں، زلفیں کھولے لڑکیاں بالیاں بھی محفل کی رونق اور منچلوں کے دلوں کی دھڑکن بڑھا رہی تھیں، یہ رنگوں امنگوں اور خوشیوں کی تقریب تھی اور پھر شریک بھی شہر کے متمول لوگ تھے، رنگ تو جمنا ہی تھا اور رنگ ہی جم رہا تھا، اسٹیج پر سے رسمی تقاریر ہو رہی تھیں، جن پر کم ہی لوگ کان دھر رہے تھے، زیادہ تر لوگ اسٹیج کے نیچے لان میں ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ہولی کی مبارک بادیں دے رہے تھے۔
سیلانی کے لیے یہ کسی بھی ہولی کی تقریب میں شرکت کا پہلا موقع تھا۔ وہ بچے کی طرح دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس وقت کا منتظر تھا جب تقریب میں رنگ اڑائے جانے تھے۔ سیلانی گلابی داغوں والی قمیض ہاتھ میں لیے پرانی یادوں سے محظوظ ہو رہا تھا، اسے یاد آیا کہ تقاریر کے طویل سلسلے کے بعد جب مہمانوں کو کھانا کھانے کی دعوت دی گئی تو وہ چمچ اٹھائے بریانی میں گوشت ڈھونڈتا ہی رہ گیا، وہاں میز پر سبزیاں دال بھاجی، کچوریاں اور طرح طرح کے اچار چٹنیاں تو تھیں، مگر گوشت نام کی کوئی چیز دکھائی نہ پڑ رہی تھی کہ ہندو گوشت سے دور ہی رہتے ہیں اور سیلانی کو سبزیاں دالیں ہمیشہ اتنی مرغوب رہی ہیں جتنی کہ رہنی چاہییں۔ مجبوری میں وہ جتنا کھا سکتا تھا، اس نے کھایا البتہ میٹھا خوب تھا، کھانا کھایا ہی جا رہا تھا کہ فضا میں رنگ بکھرنے لگے، نوجوان لڑکے لڑکیاں ہولی ہے کہہ کہہ کر بلاتفریق سب کو رنگوں میں رنگ رہے تھے، سیلانی نے نیا جوڑا پہناہوا تھا اور پہلی بار پہنا تھا، وہ ابھی اس ہولی سے بچنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ پیچھے سے دو ہاتھ آئے اور اس کا چہرہ رنگ گئے، سیلانی نے پلٹ کر دیکھا تو ہندو نوجوانوں کی ایک ٹولی صحافیوں کو رنگنے میں مصروف دکھائی دی، سیلانی کی ان سے نظریں ملیں تو زوردار نعرہ لگا ہولی ہے اور سیلانی کندھے اچکا کر رہ گیا۔
سیلانی کو آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ نجانے وہ کس نسل کا رنگ تھا، دفتر کیا گھر پہنچ کر بھی وہ صابن رگڑ رگڑ کر جلد کے مسام بھر بیٹھا لیکن رنگ نے اترنے کا نام ہی نہیں لیا، کپڑوں کا تو پوچھیے ہی مت، ہولی کی رنگ بھری یادیں اس کے ساتھ زیادہ دیر چھپن چھپائی نہیں کھیل سکیں، سیل فون کی گھنٹی کسی پیغام کی آمد کی اطلاع دینے لگی، سیلانی نے ہاتھ بڑھا کر سیل فون قریب کیا، ایک دوست نے ’’واٹس اپ‘‘ پر دو وڈیو کلپ ارسال کیے تھے، سیلانی نے ڈاؤن لوڈ کیے اور پھر ہولی کے رنگوں کی جگہ خون کے رنگ نے لے لی۔یہ دو بھارتی مسلمان بہنوں کے پیغام تھے، واٹس اپ پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے پہلی بہن بڑھی جذباتی انداز میں کہہ رہی تھی
’’بی جی پی والو تم سے اچھی تو کانگریس تھی، کم سے کم ہمیں اس طرح انکاؤنٹر کر کر کے مارتی تو نہ تھی۔۔ مسلمانوں سب ایک ہوجاؤ اور دکھاؤ کہ پچیس کروڑ ہو۔۔ مسلمانو! نکلو، سڑکوں پر اپنے حق کے لیے ایک ہو جاؤ۔ کہتے ہو کہ مڈبھیڑ ہوگئی مڈبھیڑ ہوگئی، کیسے ہوئی یہ مڈبھیڑ کہ پولیس کو ایک کھرونچ تک نہیں آئی۔‘‘
دوسرا پیغام کار ڈرائیو کرتی ہوئی کسی بہن کا تھا، وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والی معلوم ہوتی تھیں، وہ بہن کہنے لگی، کل کچھ نیوز دیکھے میں نے، دو تین سے نیوز دیکھ رہی ہوں میں، شریعت کے نام پر بہت سی بہنیں باہر نکلیں، مسلمان بہنیں جنہیں میں سلیوٹ کرتی ہوں، اور دلت پنجابی سکھ عیسائی بہنوں سے درخواست کروں گی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے باہر آئیں، اپنے اپنے گھروں سے نکلیں، ہمیں اپنی موجودگی کااحساس دلانا ہوگا، بتانا ہوگا کہ ہم جانور اور چینوٹیاں نہیں ہیں، انسان ہیں۔ دوسری بات میں پرائم منسٹر جی ذرا کان کھول کر سن لیجیے کہ اس بھارت کو آپ کی نہیں آپ کو بھارت والوں کی ضرورت ہے۔۔ بھارت کے پردھان منتری بننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صرف ہندو قوم کے پردھان منتری ہیں‘‘۔
یہ واٹس اپ پیغامات مہاراشٹر میں جیل سے نکال کر جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے مسلمان نوجوانوں کے واقعے کے بعد کے تھے جس نے بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں میں خوف سراسیمگی پھیلا دی ہے، سیلانی سوچنے لگا کہ ایک پاکستان ہے، دہشت گردی کا بالواسطہ اور بلاواسطہ شکار ملک، جس میں ہندو شہریوں کی تعداد بمشکل دو یا ڈھائی فیصد ہے اور یہ شہری اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بھائی بندوں نے بھارت میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، جہاں مسلمان گھر کی چہار دیوار ی میں نہیں خوف کے حصار میں جی رہے ہیں کہ جانے کب کون سی ریاست ’’مودی کی گجرات‘‘ بن جائے جانے، کب کون سا شہر احمد آباد بن جائے اور انہیں گھروں کے دروازے بند کر کے عورتوں بچوں سمیت زندہ جلا دیا جائے۔۔ لیکن اس سب کے باوجود ’’انتہا پسند پاکستان‘‘ میں آج تک کبھی کوئی مندر نہیں جلا، آج تک کسی مندر میں بم دھماکہ نہیں ہوا، آج تک کسی ہندو قیدی کو جیل سے نکال کر گولیاں نہیں ماری گئیں، کسی مندر میں گائے کا سرکاٹ کر نہیں پھینکا گیا۔
یہاں ہندو برادری کم تعداد میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی رہی ہے، سندھ میں تو ہندو رہنما حکومت میں شامل ہیں، ان کے پاس وزارتیں ہیں، وہ جھنڈے والی گاڑیوں میں پولیس اسکواڈ کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں، وہ یہاں جائیدادیں زمینیں رکھتے ہیں، یہاں ان کے ہزار ہزار برس پرانے مندر ہیں، تھرپارکر، اسلام کوٹ، مٹھی میں ہندو برادری کی اکثریت ہے، یہاں السلام علیکم کہنے والے کم اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنے والے زیادہ ملیں گے، اسلام کوٹ میں مساجد سے زیادہ مندر ہیں لیکن آج تک کبھی کسی مندر کے ساتھ بابری مسجد والا سلوک نہیں کیا گیا، اقلیتوں کی دلجوئی میں تو ہمارے لیڈر ان کے مندر میں جا کر پوجا پاٹ تک کر آتے ہیں، اور دوسری طرف بھارت ہے جو اپنے ملک کی سب سے بڑی ااقلیت کے لیے بھیانک خواب بن چکا ہے، اب تو مسلمان نوجوانوں کو جیلوں سے نکال کر مار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پولیس مقابلے میں مارے گئے ۔۔ بھارتیوں کو سب سے زیادہ ڈراؤنے خواب جماعۃ الدعوۃ کے حافظ محمد سعید کے آتے ہیں، بھارتی میڈیا انہیں ہندوؤں کا خونی دشمن بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اسی حافظ محمد سعید کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن تھرپارکر کے ہندؤں کے لئے پانی کے کنویں کھدوا رہی ہے ،اسپتال بنوا رہی ہے ،قحط میں راشن دے رہی ہے ۔
پاکستان میں عیسائی برادری ہندؤں سے زیادہ بڑی ہے، ان کے گرجا گھر بھی زیادہ ہیں، چند ایک واقعات کو چھوڑ کر عیسائیوں کے خلاف کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا، یہ ہمارے معاشرے میں ہمارے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اٹھتے بیٹھتے ہیں، دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، سیلانی کو اپنے ہم جماعت کامران ڈیوڈ، مصدق طاہر چوہدری ابھی تک یاد ہیں،گھنی مونچھوں والا مصدق طاہر آج کراچی کے ایک ہوٹل میں منیجر ہے، اور اس سے آج بھی رابطہ اور ویسا ہی تعلق ہے جیسا برسوں پہلے زمانہ طالب علمی میں تھا،وہ کراٹے کے شوقین ندیم گل کو نہیں بھول سکتاجس کے ساتھ صبح سویرے جاگنگ کرتا تھاگندمی رنگ والا ندیم ایک فوجی کا بیٹا اور عیسائی خاندان سے ہی تعلق رکھنے والا نوجوان تھا۔
بات کڑوی لیکن سچی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں اکثریت سے زیادہ محفوظ ہیں، ہمارے اقلیتی ساتھی اکثر اقلیت ہونے کا ٹھیک ٹھاک فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں، کیا کوئی یقین کرے گا، اگر سیلانی یہ کہے کہ تھرپاکر میں جماعۃ الدعوہ کے اسپتال کے لیے خریدی گئی زمین کے ایک حصے پر با اثر ہندو سیاسی رہنما قبضہ کر چکا ہے، اس قطعہ اراضی کے سامنے ہی اس کی شراب کی فیکٹری ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ یہاں ایک مذہبی مسلمان تنظیم اسپتال بنائے اور جماعۃ الدعوۃ اس لیے خاموش ہے کہ اس سے بھائی چارے کی فضا خراب نہ ہو۔۔ماری پور کراچی میں ایک اقلیت کے کچھ دوست سرکاری اسکول پر قبضہ کرکے دو منزلہ نجی اسکول بنا بیٹھے ہیں اور اکثریت پریشان ہے کہ ہم کس سے بات کریں ۔۔ جتنی آزادی پاکستان میں اقلیتوں کو ہے، اس سے نصف بھی بھارتی مسلمانوں کو مل جائے تو وہ بھارت کے لیے بی جی پی سے آگے کھڑے ہوں لیکن ایسا ہو نہیں سکتا، بی جی پی تنگ نظر انتہا پسندوں کی وہ جماعت ہے جو بھارت میں صرف مندروں کی گھنٹیاں بجتے سننا چاہتی ہے، اسے گرجوں کے گھنٹوں کی آوازیں چبھتی ہیں، مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں بےچین کرتی ہیں، سکھوں کے گوردوارے بےسکون کرتے ہیں اور دلت زہر لگتے ہیں ۔۔ یہی زہر بھارتی سرکار کی زبان سے بھی ٹپک رہا ہے اور یہی زہر کشمیریوں کا مستقبل ڈس رہا ہے، برصغیر کے امن میں سرایت کر رہا ہے، پاکستان کی اقلیتوں کو حقیقت میں پاکستان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے گلابی رنگ سے داغدار قمیض اٹھائی اور اسے ایک طرف اچھال کر پرسوچ نظروں سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔