اقبال استعارہ ہے امید کا۔آپکی شاعری اور فکر کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ آپ جس صبح ِ نوکی بابت توجہ مبذول کر وا رہے ہیں وہ امید کی کرن امت پر چھائے جمود اور قنوطیت کے گہرے بادلوں کے سائے سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر نمایاں نہیں ہو سکتی .
اس سے بھی قبل انسان کو خودی کی معرفت حاصل کرنا ہوگی مسلمان ہونے کے ناطے خود کو دین اسلام کے تقاضوں پر رکھ کر پرکھنا ہوگا ااور پھر زمانہ ِحاضر کے چیلنجزسے عہدہ برآء ہو نے کے لئے خود کو مستعد اور ہوشیار رکھ کر ہی ہم اقبال ؒ کی صبح روشن کے لئے کوئی چراغ جلانے کے قابل ہوسکیں گے۔ با نظر غائر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسائل کے ایسے دلدل میں پھنسی ہے جس سے صرف نظر ممکن نہیں ، بے شمار مباحث کلام کے متقاضی ہیں محض علمیت کی بنیادوں پر نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر تا کہ ملت کے امراض کی صحیح تشخیص کے بعد مفید اور موٗ ثر علاج تجویز کیا جا سکے۔
اسی میں امت کی حیات مضمر ہے اور اسی میں پاکستان کی بقا کا راز چھپا ہے۔ ماضی قریب میں بھی ہمارے ساتھ یہی صورتحال تھی لیکن ماوں کی کوکھ نے مردان حق کو جنم دینا بند نہ کیا تھا،انہی مردان حق میں سے ایک مثل چراغ روشن اور دانائے راز علامہ اقبال ؒ بھی تھے۔
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار
اقبال ؒ تاریخ کے ایسے موڑ پر سامنے آئے جب امت مجموعی طور پر غلامی ،نو آبادیاتی نظام کی محکومی اور علمی جمود و انحطاط سے گزر رہی تھی ۔اس غلامی نے مسلمانوں کی فکری و عملی صلاحیتوں کو مفلوج کردیا تھا۔ البتہ اسلام بحیثیت ایک فلسفہ حیات انکا سرمایہ تھا ۔زوال شدہ اس معاشرے کو ایک اقبال ہی کی ضرورت تھی بالکل اسطرح جیسے ہمیں فکر اقبال سے رہنمائی لینے کی آج اشد ترین ضرورت ہے۔ یہ فکر مقصدیت کی جانب ابھارتی ہے، اور اقبال خود اپنی آفاقی شاعری کے بارے میں انتہائی عاجزی و انکساری سے کام لیتے ہیں:
" میں نے اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا، فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ، ہاں! بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جس کے بیان کے لئے نظم کا طریقہ اختیارکیا ہے".
اقبال ؒ کے خاص مقاصد خواب خواب غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوںکو جگانا تھا، ان میں خودی کے جزبے کو ابھار کر غلامی کے طوق سے گردنوں کا آزاد کروانا تھا:
معمار ِ حرم باز بہ تعمیر ِ جہاں خیز
از خواب ِ گراں ‘ خوابِ گراں‘خواب گراں خیز
( اے حرم کو تعمیر کرنے والے مسلمان تو ایک بار پھراس تباہ جہاں کو تعمیر کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو، اٹھ گہری نیند سے اٹھ ، بہت گہری نیند سے اٹھ)۔
اقبال امت کو درپیش مسائل کی بنیادی وجہ غلامی کو گردانتے ہیں کہ غلام بندہ حر کے مشاہدات کا فہم حاصل نہیں کر سکتا آزاد کا ہر لمحہ پیغام ابدیت ہے. محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات ہے محکوم پیروں کی کرامات کی تلاش میں سرگرداں ہے. آزاد بذات خودایک زندہ کرامت ہوتا ہے، غلاموں کی زندگی فراغت سے عبارت ہے. آزاد ہر لمحہ نئی زندگی کی تخلیق میں مصروف کار رہتا ہے، زمانہ محکومی میں قومیں شاعروں،عالموں اور دانشوروں سے محروم نہیں ہوتیںلیکن وہ مسائل کی تاویل اس انداز سے کرتے ہیں کہ غلام اپنی زنجیر چومنے لگیں.
سخت با ریک ہیں امراض امم کے اسباب
کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی
چاند ایسی دنیا کا طواف کرنے میں خجالت محسوس کرتا ہے جس کے باشندے غلامی کی لعنت میں گرفتار ہوں ، غلامی سے انسان کا جسم فربہ اور روح مردہ ہوجاتی ہے ، محکومی قوموں کو منتشر کر دیتی ہے ، انکی قومیت کا تصور مٹ جاتا ہے، تخلیق گناہ اور تقلید ضابطہ بن جاتی ہے ،مستقبل غیر اہم اور ماضی زندہ رہتا ہے۔ بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
اقبال ؒ اس مضمرات سے ’پر ہر پہلوئے زندگی پر حاوی غلامی کا حل خودی کی معرفت میں پوشیدہ دیکھتے ہیں۔آج ہم فکری، تہذیبی، معاشرتی، معاشی اور لسانی غلامی کا شکار ہیں اور یہ طوق ہم نے بحیثیت مجموعی اپنی خودی کو فراموش کر کے پہنا ہے ۔اقبال کے تمام افکار کا منبع و محور ایک ہی تصور ہے جسے اقبال خودی کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک نورانی قوت ہے جو زمان و مکان کی حدود سے آزاد ہے جو انسان کو مشکلات پر غالب آنے کی ترغیب دیتی ہے. اسرار خودی کے دیباچے میں اس لفظ کی تشریح میں لکھتے ہیں :
"یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا، اس کا مفہوم محض احساس ِ نفس یا یقین ذات ہے، اس کے اوصاف میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ یہ ہماری ذہنی حالت میں وحدت پیدا کر دیتی ہے،اور اسکی حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا کو چاہتی ہے اور انسان کو مقام حیوانیت سے نکال کر ربوبیت کی جانب مائل کرتی ہے."
علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ خودی ایک طریق عمل ہے. بنیادی طور پر انسان ایک قوت یا قوتوںکا مجموعہ ہے جن کی مخصوص ترکیب کا نام شخصیت یا خودی ہے ۔انسان کا اخلاقی اور مذہبی منتہائے مقصود یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دے یا اپنی خودی فنا کر دے بلکہ یہ کہ وہ اپنی انفرادی ہستی کو قائم رکھے اور اس کے حصول کے لئے اپنے اندر بیش از بیش انفرادیت پیدا کرے۔خودی کی مثال اقبال ایران میں بہنے والے زندہ دریا ’’ زندہ رود ‘‘ ( زدہ کوہ کے مقام سے نکلتا ، اصفہان شہر سے گزرتاہواایک صحرا میں جزب ہو جاتا ہے۔
ایک منفرد دریا جو دوسرے ندی نالوں سے مل کر نہیں بنتابلکہ ایک ہی منبع سے نکلتا ہے پھر اپنے اختتام پر بھی کسی سمندر میں گرنے کے بجائے زمین میں جزب ہونا پسند کرتا ہے)کی پیش کرتے ہیں ۔ اس دریا کی خصوصیت کے باعث آپ نے جاوید نامہ میں مولانا رومیؒ سے خود کو زندہ رود کہلوایا ہے۔کیونکہ اس دریا میں اقبال کو خودی کا جلوہ نظر آتا ہے آپ کا فلسفہ خودی بھی یہ ہے کہ انسان آغاز سے انجام تک اپنی انفرادیت برقرار رکھے اور بالآخر جزب و فنا کو قبول کرلے۔ مولانا روم ؒفلک عطاردپر جمال الدین افغانی ؒ سے ان الفاظ میں اقبال کا تعار ف کر واتے ہیں:
چشم جزبز خویشتن نکشزدہء
دل بکس نادادہء ‘ آزادہء
تند سیر اندر فراخائے وجود
من ز شوخی اور اگویم زندہ رود
(اس اقبال نے اپنے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنا گوارا نہیں کیا ، اپنا آپ کسی کے سپرد نہیں کیا ،آزاد ہے وجود کی وسعتوں میں بڑا تیز ہے اسلئے مزاقا اسے زندہ رود کہتا ہوں)۔
چناچہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی شخصیت کے عرفان اور ادراک کے بعدانسان تسخیر کائنات کے سفر پر روانہ ہو سکتا ہے، اسکو قوت بھی ایسے ہی فراہم ہو سکتی ہے۔ہمیں پہلے اپنی ذات اور پھر امت میں خودی کے لازوال جزبے کو پروان چڑھانا ہے۔
خودی میں گم ہے خدائی ‘ تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لئے اب اصلاح کارکی راہ
جبکہ آج ہماری مجموعی حالت کچھ اسطرح ہے
کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعد نماز
طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام
لیکن اقبال کے ہاں لمبے سجدے کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، بلکہ سجدوں کے ساتھ قوت حاصل کرنا اہم ہے۔کیونکہ بغیر قوت کے ہم اسلام کی کوئی خدمت کرنے سے قاصر ہیں ۔اور آج استعمار کی غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہماری اقتصادی بد حالی ہے،مادی آسائشات کی تو عادتیں ڈال دی گئیں ہیں مگر خود کفیل نہیں بنا گیا۔پیوند لگے کرتے اور مدینہ کی مٹی پر سجدہ ریز ہونے والے عمر بن خطاب نے قیصر و کسری کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا تھا۔مگر آج ہماری مقتدر قوتیں اور انکی وفاداریاں اپنے ہی مفادات سے وابستہ ہیں ۔ہم نے اپناپر عظم ماضی بھلا دیا ہے ۔
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
جب رنگ نسل اور زبان کی بنیاد پر قومی ریاستیں تشکیل پا رہی تھیں ، اس وقت بڑی بڑی جامعات میں معاشیات کو ایک عظیم مضمون کے طور پر پڑھایا کر دنیا کو یہ درس دیا گیا. یہ معیشت ہی ہے جو اخلاق،عزت ،غیرت، طرز زندگی، انصاف اور سیاسی نظام وضع کرتی ہے. بیسوی صدی کے اوئل تک نوآبادیاتی سرمایہ دارانہ نظام اپنے پنجے ہر جگہ گاڑ چکا تھا۔ادھر مشرق کا فرزند جو حکمت کی نعمت سے مالا مال تھا . پکار اٹھا کھل گئے یاجوج ماجوج کے لشکر تمام. اقبال نے کتاب علم الاقتصاد لکھی اور کہا انسانی جماعتوںکے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے.
معیشت کے میدان میں وہ سرمایادارانہ نظام کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے سوشلسٹ یا اشتراکی نظام کے۔اقبال نے اس وقت مسلمانوں سے گلہ کیا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ ہم نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیاورنہ ہمیں معلوم ہوتا کہ اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ اللہ کے نام کی تختی سجائے یہ ملک قیام کے ۲۴ سال بعد تک اپنے ہی وسائل سے چلتا رہا اور دنیا بھر میں مملکت خداد ادکا ذکر معاشی ترقی کے نصاب میں سبز انقلاب کے نام سے کیا جانے لگا۔اس وقت ہمیں سود پرقرض لے کر عیش کرنے کی عادت نہ پڑی تھی ، پھر سود کی لعنت میں ایسا گرفتار ہوئے کہ آج اس کا خمیازہ محنت کش غریب بھگت رہا ہے۔
علم الاقتصاد میں حل کی راہ سجھاتے ہیں:
"میں صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتا ہوں،آزادی کی شرائط میں سب سے بڑی شرط کسی ملک کااقتصادی دوڑ میں سبقت لے جانا ہے."
تو ہماری خودی پر ضرب ہمارے معاشی عدم استحکام نے لگا رکھی ہے،ہمارا طرز زندگی ،ہمارا اخلاق ،ہماری معاشرت سب کچھ وہیں سے برامد کیا جاتا ہے جہاں سے منہ میں ڈالنے کو نوالہ ،اور اسی لئے آج ہم فکری اور تہذیبی غلامی کا لاشعوری طور پر شکار ہیں۔ اقبال اس پہلو سے بھی کبھی غافل نہ رہے
یورپ میں ہے بہترروشنی ِ علم وہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
آپ ؒ یورپ میں تعلیم حاصل کرکے آئے تو وہاں کی زندگی کو قریب سے دیکھا، وہ اس تہذیب کو مسلمانوں کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے جس کی ظاہری چکا چوند سے مسلمان متاثر ہو رہے تھے: تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے
شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
یہ تہذیبی غلبہ بھی اچانک نہیں آیابلکہ اس نظام تعلیم کے زریعے ہماری نسلوں کو اس کا خوگر بنا یا گیا ، تعلیم کا مقصد کردار سازی کی جگہ نوکریوں کا حصول قرار پایا ، تعلیم کی زبان بدل دی گئی ہمارے ہیروز ہم سے چھین لئے گئے ابوبکر ؓ کا صدق، عمر ؓ کا عدل ، عثمان ؓکی سخاوت اورعلی ؓ کی شجاعت نہیں پڑھائی جاتی، صلاح الدین ایوبی اور فاتح قسطنطنیہ محمد فاتح کے کارنامے بھی نہیں شامل نصاب ، بلکہ سنو وہائٹ اور سنڈریلا اور شرلاک ہومز کے ناول پڑھائے جاتے ہیں ۔ تاکہ بچہ اسی ماحول میں زندہ رہے اپنی شناخت سے اسکو دور تک کوئی واسطہ نہ ہو.
مجھ کو معلوم ہیں پیران حرم کے انداز
ہو نہ اخلاص تو دعوائے نظر لاف و گزاف
اور یہ اہل ِ کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف
اقبال نوجوانوں کو اپنی امید کا محور و مرکز بناتے ہیں:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے
نظر آتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نو امید ، نو میدی زوال ِ علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
چناچہ ہمیں آج اپنی کھوئی ہوئی عظمت ہیبت اور دبدبہ چاہئے تو نو جوا نوں کو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر دنیا کے سامنے اقبال کے مرد مومن کی مجسم تصویر بن کر دکھانا ہو گا ، شاہیں کی خصوصیات کو اپنا کر ثابت کرنا ہوگا کہ کوہ و بیاباں میں گزارا کیا جا سکتا لیکن کسی کے در پر سوائے خدا کی ذات کے جھک کر اپنی خودی کا سودا نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال شاعر نہیں پیامبر تھے ، کہتے ہیں کہ تو نے قرآن سے منہ موڑ لیا ہے اسی سبب ذلیل و خوار ہے
در بغل داری کتاب زندہ
( تیری بغل میں وہ کتاب ہے جوتجھے اس ذلت و رسوائی سے نکال سکتی ہے)
قومِ رسول ِ ہاشمیﷺکو اپنی خاص ترکیب پر علم درامد کا پھر سے اعادہ کرنا ہے۔ اصول معیشت، تجارت،معاشرت اور اخلاق سب وہیں موجود ہے بس دیدئہ بینا کی ضرورت ہے۔ قرآن کو تھام لیں گے تو توحید کے نقطے پر بھی جمع ہو ہوجائیں گے ، نسلی و وطنی عصبیت کا بت بھی ٹوٹ جائے گا، یہی اقبال کی فکر ہے اور ہمیں اس کو آگے بڑھانا ہے، اپنی نسلوں کو خودی کی پہچان کروانی ہے، اپنی شناخت بر قرار رکھنے کے لئے اپنے قدم مضبوطی سے اپنی روایات پر جمانے ہیں تاکہ اس صبح امید کا استقبال ہم بھی کر سکیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا.
عصر حاضر خاصہ اقبال گشت
واحدے کز صد ہزار اں بر گزشت
تبصرہ لکھیے