ہوم << چیف جسٹس یہ نوٹس بھی لیں-جاوید چوہدری

چیف جسٹس یہ نوٹس بھی لیں-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
آپ فن لینڈ کا ماڈل ملاحظہ کیجیے‘ فن لینڈ یورپ کے شمال میں چھوٹا سا ملک ہے‘ رقبہ تین لاکھ 38ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 55 لاکھ ہے‘ یہ سکینڈے نیویا کا حصہ ہے‘ موسم شدید سرد ہے‘موسم سرما میں درجہ حرارت منفی 45 ڈگری تک گر جاتا ہے‘ لوگ مہذب‘ صلح جو اور نرم خو ہیں‘ جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں‘ یہ ملک ٹریفک قوانین میں باقی دنیا سے مختلف ہے۔
پوری دنیا میں آپ کی آمدنی میں جوں جوں اضافہ ہوتا جاتا ہے آپ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا رجحان بڑھتا جاتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ آپ قانون شکنی کو جرمانے میں تولنے لگتے ہیں‘ غلط پارکنگ کا جرمانہ پچاس ڈالر‘ کوئی بات نہیں‘ اشارہ ٹوٹ گیا جرمانہ دو سو ڈالر‘ نو پرابلم‘ گاڑی لگ گئی کوئی مسئلہ نہیں انشورنس کمپنی پے کر دے گی اور اسپیڈ زیادہ ہو گئی‘ او کوئی ایشو نہیں میرا دفتر جرمانہ ادا کر دے گا وغیرہ وغیرہ چنانچہ آپ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے چلے جاتے ہیں لیکن فن لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا۔
آپ اس ملک میں جوں جوں امیر ہوتے جاتے ہیں آپ ٹریفک قوانین کے معاملے میں اتنے ہی محتاط اور شریف ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ آپ اگر ارب پتی ہیں تو آپ ذاتی کار چلانا بند کر دیتے ہیں اور آپ ٹیکسی‘ بس‘ ٹرین اور ہوائی جہاز استعمال کرتے ہیں‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں امراء گاڑی چلانا بند کر دیتے ہیں اور یہ گاڑیاں خریدنا بھی چھوڑ دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ فن لینڈ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر آپ کا جرم نہیں دیکھا جاتا‘ آپ کی آمدنی دیکھی جاتی ہے‘ آپ اگر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو ’’اوور اسپیڈنگ‘‘ پر زیادہ سے زیادہ پانچ سو یوروجرمانہ ہو گا لیکن آپ اگر خوش حال‘ امیر یا رئیس ہیں تو آپ کو دس ہزار‘ پچاس ہزار اور ایک لاکھ تین ہزار یورو جرمانہ ہو جائے گا۔
فن لینڈ میں ایسے کیس بھی سامنے آئے جن میں گاڑی چلانے والا اسپیڈ لمٹ سے صرف پندرہ کلومیٹر فی گھنٹہ اوپر گیا اور اسے ایک لاکھ تین ہزار یورو جرمانہ ہو گیا جب کہ پچاس ہزار یورو اور دس ہزار یورو جرمانے کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں‘ ملک میں جس شخص کو پچاس ہزار یا لاکھ یورو جرمانہ ہوجاتا ہے وہ گاڑیاں چلانا بند کر دیتا ہے اور وہ باقی زندگی نہایت شریفانہ گزارتا ہے‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ ذرایع آمدنی ہے‘ فن لینڈ کی حکومت نے 1920ء کی دہائی میں اندازہ لگایا تھا‘ ایک شخص ماہانہ پانچ سو مارکہ کماتا ہے‘ یہ جرم کرتا ہے‘ عدالت اسے پانچ سو مارکہ جرمانہ کر دیتی ہے‘ یہ رقم اس کے لیے بہت بڑی ہے‘ یہ پانچ سو مارکہ حکومت کو دے کر باقی مہینہ شدید مسائل کا شکار رہے گا جب کہ دوسری طرف ایک شخص گھنٹے میں پانچ سو مارکہ کماتا ہے۔
عدالت اسے پانچ ہزار مارکہ جرمانہ کر دے تو بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ یہ جرمانہ ادا کرے گا اور بھول جائے گا لیکن اگر اسے پانچ لاکھ مارکہ جرمانہ کردیا جائے تو یہ مستقبل میں یہ غلطی نہیں دہرائے گا چنانچہ حکومت نے قانون بنا دیا جو شخص سڑک پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرے اسے جرم کی نوعیت پر جرمانہ نہیں ہو گا‘ وہ اپنی آمدنی کے مطابق سزا بھگتے گا‘ آج پولیس کے پاس تمام شہریوں کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے‘ یہ چند سیکنڈ میں شہری کے ذرایع آمدنی دیکھتے ہیں‘ اس کی ٹیکس ریٹرنز‘ پراپرٹیز اور بینک اکاؤنٹس دیکھتے ہیں اور اسے اس کے مطابق جرمانہ ’’ٹھوک‘‘ دیتے ہیں‘ ملزم اعتراض کرے تو پولیس اہلکاروں کے پاس خصوصی اختیارات ہیں۔
یہ اکاؤنٹ سے رقم نکال لیتے ہیں یا پھر اس کی کوئی جائیداد جرمانے کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں‘ وہ شخص جب تک جرمانہ ادا نہ کرے‘ وہ اس وقت تک اپنی پراپرٹی بیچ نہیں سکتا اور اگر اس نے وہ پراپرٹی کرائے پر دے رکھی ہے تو وہ اس کا کرایہ وصول نہیں کر سکے گا‘ حکومت پہلے کرائے سے اپنا جرمانہ وصول کرے گی اور اس کے بعد اسے کرایہ وصول کرنے کی اجازت دے گی چنانچہ یہ اس قانون کا کمال ہے‘ آپ فن لینڈ میں جتنا ترقی کرتے جاتے ہیں آپ اتنا ہی محتاط ہوتے جاتے ہیں‘ آپ اتنا ہی قانون کی پابندی کرتے ہیں‘ آپ جانتے ہیں آپ کی غلطی آپ کی پوری زندگی کی محنت اکارت کر دے گی اور یہ قانون کا وہ خوف ہے جس کی وجہ سے فن لینڈ کے امراء گاڑی چلانے کا رسک نہیں لیتے اور یہ ٹیکسیوں‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔
آپ فن لینڈ سے اب پاکستان میں آئیے‘ ہمارے ملک میں سڑکیں انتہائی غیر محفوظ ہیں‘ آپ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر نکل جائیں‘ آپ جی ٹی روڈ اور موٹر وے پر سفر کر کے دیکھ لیں‘ آپ کے دائیں بائیں سے گاڑیاں ساں ساں کر کے گزریں گی‘ آپ کو کوئی شخص اسپیڈ لمٹ کا خیال رکھتا نظر نہیں آئے گا‘ کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں جرمانے انتہائی کم ہیں‘ آپ اسپیڈ لمٹ سے خواہ پچاس کلو میٹر اوپر چلے جائیں آپ کو اڑھائی سو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ہو گا ‘ یہ رقم قانون شکنوں کے لیے مونگ پھلی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
میں نے موٹر وے پر ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جب ایک شخص قانون توڑتا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے موجود اس کی اضافی گاڑیاں اس کے جرمانے ادا کرتی جا رہی ہیں یہاں تک کہ وہ دو گھنٹے میں اسلام آباد سے لاہور پہنچ گیا‘ میں نے یہ بھی دیکھا موٹروے پولیس نے گاڑی کو زبردستی روکا‘ ڈرائیور چالان کروانے میں مصروف ہو گیا‘ صاحب اترے‘ دوسری گاڑی میں سوار ہوئے اور آگے روانہ ہو گئے‘ آپ کسی روز رات کے وقت اسلام آباد کے سیونتھ ایونیو‘ نائنتھ ایونیو اور مارگلہ روڈ پر سفر کر کے دیکھیں‘ آپ کو لوگ نشے میں دھت اوور اسپیڈنگ کرتے دکھائی دیں گے‘ آپ کو بچے ویلنگ کرتے بھی ملیں گے اور ریس لگاتے بھی‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ملک میں جرمانہ جرم پر کیا جاتا ہے‘ مجرم کی پوزیشن پر نہیں‘ موٹروے پر دو سو روپے سے لے کر ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ہے‘ یہ رقم ہر معمولی خوش حال شخص آسانی سے ادا کر سکتا ہے لہٰذا پھر یہ اوور اسپیڈنگ کیوں نہ کرے؟ یہ قانون کیوں نہ توڑے؟ملک میں ویلنگ اور ریس بھی بڑے جرائم نہیں ہیں‘ نوجوان معمولی جرمانہ ادا کرتے ہیں یا گڑگڑا کر جان چھڑا لیتے ہیں لہٰذا یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے‘ پنجاب 20 دن سموگ کا شکار رہا‘ یہ سموگ پچاس جانیں لے گئی مگر گاڑیوں پر فوگ لائیٹس نہیں لگیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ سرے سے جرم ہی نہیں‘یہ درست ہے ہم غریب ملک ہیں۔
ہماری اکانومی بھی ریکارڈ میں نہیں آئی اور ہم فن لینڈ نہیں بن سکتے لیکن ہم بڑی آسانی سے جرمانوں کو گاڑیوں کی مالیت سے تو نتھی کر سکتے ہیں‘ آپ سائیکل اور موٹر سائیکل سوار سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ وصول کریں لیکن آپ مرسیڈیز‘ بی ایم ڈبلیو‘ لینڈ کروزر‘ اڈوی اور پراڈو کے مالک کو لاکھ روپے جرمانہ کریں‘ ہم دیکھتے ہیں یہ لوگ اس کے بعد کیسے اوور اسپیڈنگ کرتے ہیں‘ یہ کیسے اشارہ توڑتے ہیں اور یہ کیسے غلط لائین سے اوورٹیک کرتے ہیں‘ آپ اسی طرح لائسنس کے بغیر ڈرائیو کرنے والوں کی گاڑیاں ضبط کرلیں‘ آپ یقین کریں ملک میں جس دن دو گاڑیاں آکشن ہوجائیں گی‘ لوگ لائنوں میں لگ کر لائسنس حاصل کریں گے۔
آپ اسی طرح ریس اور ویلنگ کرنے والے نوجوانوں کی فلم بنائیں اور ان کی گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی ضبط کر لیں‘ آپ اگلے دن نتیجہ دیکھ لیجیے اور آپ اسی طرح قانون بنا دیں جو گاڑی پندرہ اکتوبر سے 15 اپریل تک فوگ لائیٹس کے بغیر روڈ پر چڑھے گی اسے لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا‘ آپ اس کے بعد رزلٹ دیکھ لیجیے گا‘ آپ اسی طرح انشورنس اور مینٹیننس کو بھی قانون بنا دیں‘آپ اعلان کریں ملک میں کوئی گاڑی انشورنس اور مینٹیننس کے بغیر سڑک پر نہیں آ ئے گی اور اگر آئی تو اسے ضبط کر لیا جائے گا‘ آپ چند ماہ میں اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیجیے گا‘ ہماری سڑکیں اور سفر دونوں محفوظ ہو جائیں گے۔
خدا کی پناہ ہمارے ملک میں ہر سال سڑکوں پر اتنے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں جتنے دس برسوں میں دہشت گردی سے مارے گئے ‘ ہم من حیث القوم اس قتال کے ذمے دار ہیں‘کیوں؟کیونکہ ہم نے آج تک ٹریفک کے مسائل سے نبٹنے کے لیے کوئی قانون ہی نہیں بنایا اور اگر قانون ہے تو یہ بہت کمزور اور بہت غریب ہے‘ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ یہ نوٹس بھی اپنے نوٹسوں میں شامل کر لیں‘ خلق خدا آپ کو دعائیں دے گی۔