ہوم << شاہین کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی- احمد حماس

شاہین کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی- احمد حماس

استعمار کے تلاطم میں گھری خلافت عثمانیہ۔۔۔۔۔۔
برصغیر میں آٹھ صدیوں سے قائم حکومت کا سقوط۔۔۔۔۔۔
دانش افرنگ کی چکاچوند سے مرعوب زعمائے ملت۔۔۔۔۔۔
امت و ملت کی بصیرت سے محروم و مایوس نوجواں۔۔۔۔۔۔
روح بلالی سے ناآشنا مساجد و مدارس اور رسم شبیری سے ناواقف خانقاہیں۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف بڑھتے ہوئے افرنگی و یورپی قدم اور وجود ملت کو توڑنے اور امت کا شیرازہ بکھیرنے کی سازشیں ۔۔۔۔۔۔

یہ وہ حالات تھے جب سرزمین برصغیر میں ایک ایسی بابصیرت شخصیت نے جنم لیاکہ گردش دوراں نے جس کے ساز میں امت و ملت کے سوز کو کوٹ کوٹ کر بھردیا اور جس کی آشفتہ سری نے اس امت کے تن مردہ کو حیات نو بخشنے کے لیے اپنے فکر و فن کی تمام توانائیاں صرف کرنے پر مجبور کردیا۔

کسریٰ کے محل کی شان و شوکت کو روند کر اس کے سامنے کلمہ حق کہنے والے صحابی رسول کی بے نیازی، محیط اطلس میں گھوڑے کے قدم ڈال کر سمندر کی مضطرب موجوں کے سامنے کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے زمین کی تنگ دامنی کا گلہ کرتے موسیٰ بن نصیر کا عزم صمیم اور ساحل اندلس پر کشتیاں جلاتے طارق بن زیاد کے یقین محکم نے تاریخ انسانی کے اس عظیم مفکر اور شاعر کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے عرب کے جاہل اور گنوار معاشرے میں جنم لیتے توحید پرست نوجوانوں کو جہاں آرائی کے جنوں سے مالا مال کردیا کہ جنہوں نے دنیا کو تہذیب و تمدن سے متعارف کروادیا اور آج ملت بیضا کے نوجوان جہاں بانی، جہاں آرائی و جہاں گیری کی بصیرت سے بانجھ کیوں ہوچکے ہیں؟

اس راز کو پانے کے بعد انہوں نے اس ملت کو خواب غفلت سے جگانے کا ہی کام نہیں بلکہ اس کی فکر کی عالمگیریت نے دنیا کی بیشتر اقوام کو ''اقبال شناسی'' پر مجبور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں اقبال کے پیغام کو ترجمہ کیا گیا۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ' ہمارا مقصود صرف امت مسلمہ کے نوجوانوں کو حضرت اقبال کی طرف سے دیے گئے پیغام کو آپ کے سامنے رکھنا ہے جس کو اقوام کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

وہ نوجوانان اسلام سے مخاطب ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے شاندار ماضی کا نقشہ سامنے رکھتے ہوئے شباب ملت کو جھنجھوڑتے ہیں، کہ تو ایک ایسے آسماں کا ٹوٹا ہوا ستارہ اور اس ملت کا فرزند ہے کہ جس نے بڑے بڑے تاجوروں کے تخت و تاج کو اپنے پاؤں میں روند ڈالا تھا۔ گو کہ وہ کمزور اور فقر حال تیرے آباؤ تھے، دنیا کے بہت زیادہ وسائل بھی نہیں رکھتے تھے مگر وہ تہذیب و تمدن کی خوبصورتیوں سے بخوبی آگاہ تھے اور آئینِ جہان داری، یعنی دنیا پر حکمرانی کے اصولوں سے خوب واقف تھے۔ یہ ساری منظر کشی اقبال کے الفاظ میں بیان کرنا مناسب ہوگا۔

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا
تمدن آفریں' خلّاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شُتر بانوں کا گہوارا
سماں اَلفَقر فَخْری ' کا رہا شانِ امارت میں
''بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوئے زیبارا''
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ مُنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت راسیا وہ

اقبال نے اپنے کلام میں ''شاہین'' کو نوجوانوں کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شاہین ایک بلند پرواز، تیز نگاہ، غیرت مند اور خودار پرندہ ہے جو اپنا آشیانہ نہیں بناتا بلکہ بلند پوش چوٹیوں پر رہتا ہے، جو کسی کا کیا ہوا شکار نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کرتا ہے، مردہ جانورکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو ہتک محسوس کرتا ہے، جب وہ اپنے شکار پر جھپٹتا ہے تو خالی نہیں لوٹتا، اقبال امت مسلمہ کے جوانوں میں بھی یہی صفات چاہتے ہیں تاکہ وہ ملت کی آبیاری کا کام کرسکیں۔ اسی لیے وہ ان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں.

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں!
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

یعنی تیرے رہنے کی جگہ کسی بادشاہ کی چوکھٹ نہیں، غلامی و محکومی کی زندگی گذارنا تیرا کام نہیںبلکہ تیرے شایان شان تو پہاڑوں کی چٹانیں ہیںاور بلند چوٹیاں ہیں۔ تیری زندگی تو سخت کوشی اور جواں مردی پر مشتمل ہے تو اسی کو اپنی صفت بنا لے۔

اسی طرح اقبال نوجوانان مسلم کے فکر کی وسعت اور دنیا میں ملت کی آبیاری کے کام کو شاہین کی پرواز سے مستعار لیتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو ایک مسلم نوجوان کی زندگی کا اصل مقصد ہے اور اس کے فکر و کردار کی معراج ہے۔ اقبال راستوں میں پڑی ہوئی رکاوٹوںکا پرواہ نہیں کرنی چاہےے کیونکہ ایک مسلم نوجوان جب نان وجو اور آشیاں کی فکر میں مگن ہوجاتا ہے تو گویا اپنی موت کا سامان کرلیتا ہے. جب مسلم حکمران کشکول لے کر کافروں کے سامنے بھیک مانگتے ہیں تو گویا وہ ملت کی غیرت کا سودا کرلیتے ہیں اور پھرذلتیں اور محکومیاں ان کا مقدر بنتی ہیں۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں۔

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

اسلام مومن کو ہر حال میں سربلند کر کے جینے کا ہنر سکھاتا ہے، افراد اور اقوام پر آزمائشیں اور سخت حالات آجاتے ہیں مگر ان میں گھبرانے اور ہتھیار ڈال دینے کی بجائے اللہ کے ساتھ تعلق کو پختہ کرکے اپنے مقصد پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔

وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن۔ (آل عمران:138)
''اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔''

شاہین کبھی پرواز سے تھک کرنہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو تو نہیں ہے خطرہ افتاد

ایک حقیقی مسلمان کی سوچ روٹی، کپڑا اور مکان تک محدود نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آپ کو مادی مفادات کا اسیر نہیں بناتا۔ چھوٹا سا نقصان بھی ہو جائے تو اس میں گھبرا کر پریشان نہیں ہوتا بلکہ یہ ساری چیزیں سچے مسلمان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کی سوچ روٹی، کپڑا، اور مکان کی قید سے نکل کر براعظموں سے ٹکراتی ہے ۔ ایک مومن عالمگیر سوچ کا حامل ہوتا ہے اور دنیا کو اپنے عمل اور کردار سے بدلنے کا سوچتا ہے۔ وہ دنیا سے ظلم، ناانصافی اور کفر و شرک کے اندھیروں کو ختم کر کے اسے دین اسلام کے نور سے روشن کرنے کی فکر سے مالا مال ہوتا ہے۔

نگاہ بلند سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لیے

ایک مسلمان جب اپنے کردار کی تعمیر اس انداز سے کرتا ہے، اپنی ترجیحات کو اس انداز سے ترتیب دیتا ہے، تو وہ حقیقی طور پر ملت کا حصہ بن جاتا ہے، اس کے جسم و جاں پر اللہ سبحان و تعالیٰ کی غلامی اور اس کے نبی کی اطاعت کی حکمرانی ہوتی ہے اور وہ دنیا کو اپنی بصیرت سے روشن کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ جب ایک مومن ایسا کردار پیش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مددگار بن جاتے ہیں ۔

کیونکہ اس کے صالح اور اطاعت گزار بندے ہی اس زمین کے وارث ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس زمین کو اللہ کے نافرمانوں، زمین میں فساد پھیلانے والوں اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں جکڑنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے دور کھنے والوں سے آزاد کروائیں اور اس پر اس کے کلمے کو غالب و نافذ کردیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کردار کی تعمیر کریں۔یہی بصیرت اقبال عصر حاضر کے مسلم نوجوانوں کو دے رہے ہیں:

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلمان کی
ستارے جس کی گرد راہ ہو، وہ کارواں تو ہے
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں

یہ پتھروں اور اینٹوں پر مشتمل دنیا کے گھر مومن کے آشیاں نہیں بلکہ یہ ساری دنیا مومن کا گھر ہے۔ جس کے حالات اور اس کی آرائش و زیبائش بھی ترے ذمے ہے۔

وہی جہاں ہے تیرا جسے خود کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے
مہ و ستارا سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشتِ خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے

اقبال مسلمان نوجواں کو یہ احساس بھی دلاتے ہیں، تو اپنی ذات میں تنہا نہیں بلکہ ایک ملت 'ایک امت کا حصہ ہے۔ یہ امت ہی تیری پہچان ہے۔ تو رنگ و نسل' قبیلے اور کنبے، لسانیت و وطنیت اور فرقہ بندی کے تعصبات کے سارے بتوں کو توڑ کر اس امت کا حصہ بن جا۔ تو ان سارے دائروں سے نکل کر ملت کے بحر بیکراں میں شامل ہوجا۔ یعنی اب تیری سوچ اور فکر اور کام اپنی ذات تک نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہو۔ مشرق و مغرب میں جہاں بھی اس امت کو تیری ضرورت ہو، تو ان کے لیے لبیک کہنے والاہو۔اس کا درد تیرا درد ہو اور اس کی خوشی تیری خوشی ہو۔

تو راز کن فکاں ہے ، اپنی آنکھوںپر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا ، خدا کا ترجمان ہوجا
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زبان ہوجا
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا
یہی ہے مقصود فطرت ، یہی ہے رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری ، محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کو ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

اقبال یہ بات بخوبی سمجھتے تھے کہ دنیا میں اسلام کو غالب کرنے اور عزت و سربلندی سے جینے کے لئے سخت کوشش' جواں ہمتی اور تحرک کی ضرورت ہے اور یہ قدرت کا اصول ہے کہ جو قومیں بلند ہمتی ' محنت اور قوت و توانائی سے دامن چراتی ہیں وہ جلد ہی دوسروں کی غلامی کا شکار ہوجاتی ہیں۔

ہے شباب اپنے لہو کی لاگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگیں
پلٹنا جھپٹنا ' پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

مگر مسلم نوجوان اس سے تہی دامن ہوچکے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کافر آج محض دنیا میں شہرت کے لئے بلند چوٹیاں سر کرتے ہیں۔ اس کے لئے موسم کی سختیوں اور موت کے خطرے سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ امریکہ ' بھارت اور اسرائیل میں کئی سرکاری و غیر سرکاری ادارے نوجوانوں کو سخت کوش زندگی کی تربیت دیتے ہیں جبکہ مسلم نوجوانوں کی حالت یہ ہے :

تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا' شکوہِ خسروی بھی ہوتو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں' نہ استغنائے سلیمانی

آج ہمیں اپنے شباب کی یہی حالت نظر آتی ہے ' وہ شاہین کی وسعت نظری اپنے اندر پیدا نہیں کرسکے اور نتیجہ یہ ہے کہ آج اقوام عالم، مسلمانوں پر غالب اور مسلط ہیں۔

افسوس صد افسوس شاہیں نہ بن سکا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

کافر کی زندگی کا تحرک اور عمل فقط دنیاوی لذت اور فائدے کے لئے ہوتا ہے۔ ایک کافر کی تعلیم کا مقصد اچھی ڈگری' نوکری اور دولت ولذت کا حصول ہوتا ہے یا اس سے بڑھ کر دنیا میں ناموری جبکہ ایک مسلم طالب علم کی تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہےے۔ اسے اپنے علم و ہنر کا مقصد، خود آگاہی و خدا آگاہی' مقصدِ حیات کی پہچان ' اپنی عاقبت کی فکر اور دنیا میں اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے پر مبنی ہونا چاہےے۔ ایسے نوجواں ہی اقبال کی بصیرت کے مطابق زندگی کی شب تاریک کو سحر کرسکتا ہے اور معراجِ انسانیت کو پاسکتا ہے۔ اس امتیاز کو اقبال نوجوانوں کے سامنے یوںرکھتے ہیں:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں ہے شاہیں کا جہاں اور

جبکہ مسلمان ممالک میں نافذ تعلیمی نظام''لارڈ میکالے'' کے نظریے پر مبنی ہے۔ جس میں حصول تعلیم کا مقصد ''نوکری'' کا حصول ہے ۔ اقبال ایسے ہی نظام تعلیم کو سرمایہ امت کے لئے زہر قاتل قرار دے رہے ہیں۔

شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو جو دے رہے ہیں خاکبازی کا

ایسے نوجوان جس کی صلاحیتیں اور علم و ہنر فقط نوکری' ڈگری اور ذاتی مفاد کے لئے ہوتی ہیں، اسے اقبال فریب خوردہ شاہیں قرار دیتے ہیں۔ جس کی آنکھوںسےظاہرہوتی ہے مغرب کی فکر' تہذیب اور تعلیم کی چکاچوند اورجس کے نزدیک تڑپتی ہوئی امت کے غم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ دنیا کے حالات جیسے بھی ہوں اس کی غرض فقط روٹی' کپڑا اور مکان کے گرد گھومتی ہے۔

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلندی پرواز
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسمِ شاہبازی

ہمارے اسلاف کی تاریخ روشن کردار نوجوانوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے دنیا کو اپنی بلندی کردار' وسعت نظری' قوت جہاں بانی اور عدل و مساوات کی بناء پر بدل کر رکھ دیا تھا۔ مگر آج شرق و غرب میں مسلمان اس لئے مبتلائے آزمائش ہیں کہ شباب اسلام اسلاف کی بصیرت سے محروم ہے۔ حکمران تمام تر وسائل اور قوتوں کے باوجود غلامیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ عیش و آسائش اور کرسی و اقتدار کے دلدادہ تو ہیں مگر جہاں بانی کے شعورکے شعورسے محروم ہیں۔ ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری قوم اگر فکر اقبال کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیتی اور ہمارے عوام و حکمران اس پر کھڑے ہوجاتے تو ہم پر زبوں حالی' غلامی' غیروں کے تسلط کی تاریک رات کبھی مسلط نہ ہوتی۔

اقبال نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی، وہاں مسلمان مایوسیوں، غلامانہ رویوں اور تنگ نظری کے آسیب میں گھرے ہوئے تھے۔ مگر آج امیدوں کے بہت سے ہالے روشن ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت بیضا کے نوجواں تنگ نظری کے آسیب سے نکل کر اقبال کی بصیرت اور وسعت نظری کو اپناکر دنیا کو بدل دیں تاکہ دنیا و آخرت کی سرخروئی ان کا مقدر ٹھہرے۔

اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا