یومِ اقبال کی چھٹی ختم کر دی گئی ہے، غالبا اب اقبال ؒ کی چھٹی مقصود ہے۔
ارشادِ تازہ ہے کہ ہمارامستقبل ایک لبرل پاکستان ہے۔حضرت قائدِ اعظم کی ایک عدد تقریر کے ایک پیراگراف سے تو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیکولرزم برآمد فرما لیا گیا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسی کوئی واردات اقبال ؒ کے ساتھ نہیں ہو سکتی، چنانچہ قومی یادداشت سے اقبالؒ کو محو کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ آج چھٹی ختم ہوئی ہے، کل نصاب مشقِ ستم بنے گا، چند سال بعد کہیں اقبالؒ کا ذکر ہوا تو بچے پوچھیں گے: کون سا اقبال؟ ہم جو اس وقت تک خاصے لبرل ہو چکے ہوں گے، کندھے اچکا کر جواب دیں گے، ارے بیٹا! اپنی سوچ کو گلوبلائز کرو، کوئی رابرٹ فراسٹ کی بات کرو، کچھ ڈبلیو بی ییٹس اور ایملی ڈکنسن کو ڈسکس کرو، یہ کیا تم سیالکوٹ کے ایک مقامی شاعر کو لے کر بیٹھ گئے ہو۔
معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ حاکمِ وقت پر اچانک ’ کام کام اور بس کام‘ کی حقانیت آشکار ہوگئی ہو اور اس نے یومِ اقبال کی چھٹی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہو۔ بات کہیں پیچیدہ ہے۔ یہ یومِ اقبا ل کی چھٹی کے خاتمے اعلان نہیں، یہ اقبالؒ کی چھٹی کا اعلان ہے۔
یہ فیصلہ، معلوم یہ ہوتا ہے کہ، مقامی سیاست کی بصیرت سے نہیں پھوٹا، اس کی جڑیں کہیں اور ہیں۔ یہ ان کاوشوں کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے جن کا مقصد پاکستان کی نظریاتی سمت تبدیل کرنا اور ہر اس علامت کو مٹا دینا ہے جسے مذہب سے کوئی نسبت ہے یا جو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہونے کی اہلیت رکھتی ہے۔یہ بدگمانی بے سبب نہیں۔ اگلے روز ایک وزیرِ مملکت کی جانب سے یومِ اقبال پر ایک پروگرام کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہی دن بعد دوسرا پیغام ملا کہ یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے، کیونکہ ایک اہم کام آ گیا ہے۔ میں سکتے کے عالم میں سوچتا رہا: کاش اہم کام کے ساتھ وہ اجناسِ نایاب بھی آ جاتیں جن کا خواجہ آصف صاحب نے ذکر فرمایا تھا۔ یہ اتفاقِ رائے اسی ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتا ہے جس کے تحت اس ملک کو لبرل بنانے کا اعلان فرمایا گیا ہے۔
قومی مشاہیر کے دن منانے کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ آپ یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس دن اور اس فکر سے ہماری وابستگی کا عالم کیا ہے۔ یہ دن مناتے وقت بھلا سیکشن آفیسر وزیر اعظم اور صدرِ محترم کو بتائے بغیر برسوں پرانی فائل جھاڑ کر ان کی طرف سے رسمی بیان ہی کیوں نہ جاری فرمادیا کریں، قومی نفسیات پر اس کا ایک اثر پڑتا ہے۔اس لیے مکرر عرض ہے کہ یہ محض ایک چھٹی کے خاتمے کا اعلان نہیں، یہ پاکستان کی فکری بنیادیں کھود ڈالنے کا اعلان بھی ہے۔
ساری دنیا اپنے مشاہیر کے دن مناتی ہے۔ ہنگری میں 20 اگست کوسینٹ سٹیفن ڈے منایا جاتا ہے اور تعطیل ہوتی ہے، آئرلینڈمیں 17 مارچ کوسینٹ پیٹرک ڈے پر تعطیل ہوتی ہے، یہ دن سکاٹ لینڈ اور ویلز میں بھی منایا جاتا ہے اور چھٹی ہوتی ہے، سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے سینٹ اینڈریو ڈے منانے اور چھٹی کرنے کا بل بھی پاس کیا ہے، جاپان میں شہنشاہ اکیہیٹو کے یوم پیدائش پر 23 دسمبر کو تعطیل ہوتی ہے، ہر جنوری کی تیسرے سوموار کو امریکہ میں مارٹن لوتھر ڈے منایا جاتا ہے اور عام تعطیل ہوتی ہے، اٹلی، آسٹریا، سپین، جرمنی اور فرانس میں 26 دسمبر کو سینٹ سٹیفن ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔ سپین میں 24 جون کو سینٹ جونز ڈے اور 19 مارچ کو سینٹ جوزف ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔ بیلجیم میں تو سینٹ ویلنٹائن ڈے پر بھی چھٹی ہوتی ہے، بھارت میں 2 اکتوبر کو گاندھی جی کے یومِ پیدائش پر تعطیل ہوتی ہے۔ کامن ویلتھ کے کئی ممالک میں ابھی تک ’کوئینز برتھ ڈے‘ منایا جاتا ہے اور چھٹی کی جاتی ہے۔ جب یہ سب اپنے اپنے دن منا سکتے ہیں تو پاکستانی حکومت کو کیا مسئلہ ہے۔ اگر اتنا ہی کام کا شوق ہے تو جناب نواز شریف اورشہباز شریف کیا یکم مئی کی ’یومِ مزدوراں‘ کی چھٹی ختم کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں کر سکتے۔ ختم کرنا تو دور کی بات وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔سارا مسئلہ وہی ہے جس کا ذکر رچرڈ ڈائر نے اپنی کتاب ’وائٹ‘ میں کیا تھا۔ سفید فام تہذیب کے نام انسانیت کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ وہ بات کریں گے تو یہ بات ساری انسانیت سے متعلق ہو گی، تیسری دنیا کے لوگ بات کریں گے تو اس بات پر رنگ، نسل کی چھاپ لگا دی جائے گی۔ چنانچہ لبرلزم کے نام پر جو خوبصورت اصطلاحات استعمال کی جا رہی ہیں، یہ عام آدمی کو الجھن میں ڈال دیتی ہیں، ’ تحمل، برداشت، آزادی، مساوات جیسی اصطلاحات کی کوئی کیسے مخالفت کرے۔ چنانچہ مسلمان بات کرتا بھی ہے تو اسلوب معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ واردات ہوتے دیکھتا ہے لیکن بول نہیں سکتا۔
لبرلزم، تحمل، برداشت، آزادی، مساوات۔ ان کی تشریح پر کیا صرف سفید فام تہذیب کا حق ہے؟ سفید فام تہذیب کسی دوسری تہذیب کے زندہ رہنے کا حق تو تسلیم کر نہیں رہی، مساوات کہاں سے آ ئے گی؟ اُن کی تہذیب کا ’لیبر ڈے‘ منانا ہم پر فرض، ہم لیکن اپنا اقبال ڈے نہیں منا سکتے؟ جنابِ وزیر اعظم یہ کون سا لبرلزم ہے؟ ہماری مبادیات کی توہین کرتے رہو، ہم برداشت کرتے رہیں، کیا یہ لبرلزم ہے؟ ہم اپنی اقدار کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کریں اور ان سے دست بردار نہ ہوں تو ہم شدت پسند؟ اور ساری متاع گنوانے پر رضامند ہو جائیں تو ہم لبرل؟ ہر چیز کا تعین سفید فام تہذیب کرے گی۔ اس کے آگے ’تحمل‘ ، ’برداشت‘ سے سرنڈر کر دو تو لبرل، اپنی شناخت پر اصرار کرو تو شدت پسندی۔ مغرب کی اقدار ہیں ہماری نہیں۔ ہمیں جینے کا حق نہیں؟
کیا ہم یومِ اقبال کی چھٹی کے خاتمے کو وزیر اعظم کے ’لبرل پاکستان‘ کا نقشِ اول سمجھیں؟ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ دستورِ پاکستان اس ریاست کی شناخت کو طے کر چکا ہے۔ وزیر اعظم کے پاس یہ شناخت بدلنے کا کوئی میندیٹ نہیں۔ کیا انہیں معلوم ہے کہ وہ آئین کی مبادیات کا ابطال کر رہے ہیں۔ یہ ابطال کوئی مولوی کرتا تو آئین شکن قرار دیا جا چکا ہوتا۔ کیا انہیں معلوم بھی ہے لبرلزم کیا ہے؟ نہیں معلوم تو کسی پڑھے لکھے آدمی سے پوچھ لیا کریں۔ ہر اصطلاح کا ایک مفہوم ہوتا ہے۔ کیا وزیر اعظم پاکستان حقوقِ انسانی کے بارے میں ہیلری کلنٹن کے اس مؤقف سے متفق ہیں جس کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ سے ایک عہد کی صورت میں یوں کیا کہ: ’’ہم جنس پرستی حقوقِ انسانی ہے اور حقوق انسانی ہم جنس پرستی ہے۔‘‘
یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور رہے گا۔ اور اس کا فکری امام اقبال ہے اور رہے گا۔
’’یہ چمن یونہی رہےگا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے‘‘
تبصرہ لکھیے