گزشتہ صدی کا آغازاس وقت ہوا جب تقریباََ پوری دنیا پر سامراج اپنے استبدادی پنجے پوری طرح گاڑھ چکا تھا۔ فرد کو غلامی سے نکالنے والی انسانیت کی دعوے دار تہذیب، مشرق سے مغرب تک کم و بیش کل اقوام عالم کو اپنی معاشی، تہذیبی، دفاعی اور تعلیمی غلامی میں بری طرح جکڑ چکی تھی۔ اقدار کی تبدیلی سے ذہنی غلامی تک اور تہذیب و ثقافت کی نام نہاد تجدید سے جمہوری سیاسی نظام کی تاسیس تک آسیب زدہ سائے اور مقروض لہجے پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے۔ قوموں کی خرید و فروخت میں غداروں کی پرورش کرنے والے ’’غم خواران انسانیت‘‘ تباہ کن ہتھیاروں کی دوڑ میں اس قدر آگے نکل چکے تھے کہ دو بڑی بڑی جنگیں قبیلہ بنی نوع آدم کے دروازے پر دستک دیا چاہتی تھیں۔ بظاہر چھٹی صدی عیسوی کا منظر نامہ ایک بار پھر پیش نظر تھا اور اب کی بار جہالت ایک نئے روپ میں سامنے تھی۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور بے پناہ علوم و معارف کی حامل دنیا میں کہ جہاں راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو چکی تھیں، اس تہذیبی یلغار کے سامنے بند باندھنے کے لیے کسی نظریہ، کسی فکر اور کسی نظام عمل میں دم خم نہ تھا، حالانکہ ماضی قریب میں مشرق بعید کے ممالک بالشویک انقلاب کا مکروہ چہرہ دیکھ چکے تھے، تاہم یہ انقلاب بھی اقتصادی میدان میں تو سرمایاداری کا مقابلہ کر پایا لیکن تہذیبی میدان میں ہاتھ بلند کر کے مغرب کا حاشیہ بردار ہی ثابت ہوا۔
اسلامی نظام حیات ایک بار پھر اپناحق قیادت لے کر دنیا کے سامنے آیا اور سلام ہوں خاتم النبیین ﷺ پر کہ جن کی امت کی کوکھ دور غلامی میں بھی سرسبز و شاداب رہی۔ ابلیس سے ابوجہل تک جس طرح منبر و محراب سے طاغوت کو للکارا جاتا رہا، اس بارگی بھی اسی وحی الہی کی حقانیت نے مغربی تہذیب کے ایوانوں میں صدائے حق بلند کی اور یہ کارنامہ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کا ہے جو اسلام کے نمائندے کے طور پر مغرب اور اہل مغرب کو ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہے۔ علامہ محمد اقبال دور غلامی میں جنم لینے والے امت مسلمہ کے عظیم فکری و نظریاتی رہنما تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان اہل فکر و عمل تین گروہوں میں تقسیم تھے، ایک گروہ حالات سے مایوسی کا شکار ہو کر مدارس و خانقاہوں میں گوشہ نشینی اختیار کر چکا تھا اور اس گوشہ نشینی میں ہی اپنی اور نسلوں کی بقا کو مضمر سمجھتا تھا، دوسرا گروہ یورپی مغربی سیکولر یلغار سے اس قدر مرعوب ہو چکا تھا کہ ایمان و عقائد کو بھی نہ چھوڑنا چاہتا تھا اور مغرب کے ساتھ بھی قدم ملا کرچلنا چاہتا تھا کیونکہ اس گروہ کو اپنے مفادات بہت عزیز تھے، اہل سیاست کی اکثریت اسی گروہ سے تھی۔ علامہ محمد اقبال ؒ اپنے وقت کے تیسرے گروہ سے تعلق رکھتے تھے جس نے مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، وہ اگرچہ غلام قوم سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کا ذہن کبھی غلام نہیں رہا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی ملت کو آزادی کا درس دیتے رہے اور بار بار بکریوں کے گلے میں پلنے والے شیر کو جو اپنے سینگ نہ ہونے اور پاؤں میں کھروں کے بجائے پنجے ہونے پر افسردہ رہا کرتا تھا، اسے بتاتے رہے کہ ساتھ کی جھیل میں جا کر اپنی شکل دیکھو اور اپنا آپ پہچانو، تم محافظت میں گھاس چرنے اور شکار ہونے کے لیے نہیں ہو بلکہ اس دنیا کی حکمرانی تمہارا طرہ امتیاز ہے جس کا حق تم ایک شاندار ماضی میں تاریخ کے ان مٹ اوراق میں رقم کر چکے ہو۔
علامہ محمد اقبال ؒ نے سوئی ہوئی ملت کو اس اسلوب میں للکارا کہ مشرق سے مغرب تک امت مسلمہ میں بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ ملت جو غیروں کے سامنے ذہنی پسماندگی کا شکار تھی، کلام اقبال کے باعث اعتماد نفسی پانے لگی، جس قوم کا اپنا آپ کہیں کھو گیا تھا، اسے فکر اقبال کے آئینے میں اپنا تابناک ماضی اور روشن مستقبل نظر آ گیا۔ امہ کو دوست اور دشمن کی تمیز مل گئی، اپنے اور غیر کا فرق میسر آ گیا اور نوجوانوں کو اک تازہ ولولہ ملا کہ اندھیرے میں بھٹکنے والے گروہ نے ’’قوم‘‘ کی پہچان پا کر منزل آشنائی اختیار کر لی۔ تہذیبی یلغار جو اپنی پوری قوت سے امت پر حملہ آور تھی، علامہ محمد اقبال ؒ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ خاص طور پر یہ کہ وہ دور سے حملہ کرنے والے سپاہی نہ تھے بلکہ مغرب کے قلب میں بیٹھ کر اور خاص طور پر لندن جیسے شہر میں رہ کر انہوں بنظر غائر ان کی تہذیب کا مطالعہ و مشاہدہ کیا تھا، وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو انگریزی زبان بولنے کو خلاف اسلام سمجھتے تھے بلکہ وہ انگریزوں سے بڑھ کر انگریزی دان تھے، اور اس زمانے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر کے خم ٹھونک کر ان کے سامنے آن کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے برملا اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
علامہ محمد اقبال ؒ کی دور اندیشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو تہذیبی مکالمہ آج کے دانشوروں کو نظر آ رہا ہے، علامہ محمد اقبال ؒ نے کم و بیش ایک صدی قبل اس کا اندازہ لگا لیا تھا اور صرف اندازہ ہی نہیں لگایا تھا بلکہ ایسے پرزور طریقے سے اس تہذیبی کشمکش میں اپنا کردار ادا کیا تھا کہ دیانت دار اہل مغرب آج بھی ان کے دلدادہ ہیں اور جرمنی جیسے یورپی ملک میں ان کے نام سے بعض جگہیں بھی منسوب ہیں اور وہاں کی جامعات نے ’’اقبال چیئر‘‘ کے نام سے ان کے افکار کا مطالعہ بھی شروع کر رکھا ہے۔علامہ اقبال کے نشتر صرف غیروں پر ہی نہ چلے بلکہ انہوں نے اپنوں کی بھی خوب خبر لی۔گزشتہ سطور میں جن دو طبقات کا ذکر ہوا، ایک وہ جو گوشہ نشینی اختیار کر گیا اور دوسرا وہ جو مرعوبیت کا شکار ہو گیا، علامہ محمد اقبال ؒ نے دونوں کو اپنی قلم کی نوک پر رکھا اور امت پر سخت وقت کا انہیں ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے دونوں طبقوں کو نصیحت کی کہ ایک گوشہ نشینی یعنی مدرسوں اور خانقاہوں سے نکلے اور دوسرا ذہنی غلامی سے آزاد ہو اور دونوں مل کر امت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیں کہ ایک کے پاس دینی علوم کی امانت ہے تو دوسرا عصری علوم سے واقفیت رکھتا ہے، علامہ محمد اقبال ؒ دین و دنیا کی تفریق پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
علامہ محمد اقبال ؒ نے مسلمانوں کے ماضی کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے زوال کی بہت ساری وجوہات کو اپنے کلام میں جگہ دی اور اس کے اگرچہ متعدد حل دریافت کیے لیکن آپ نے بہت زیادہ زور ’’اجتہاد‘‘ پر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک زمانے کے عالی دماغوں نے اپنی بہترین ذہنی استعداد کے باعث آنے والی کئی صدیوں میں پیش آمدہ مسائل کا ادراک کر کے تو قبل از وقت ان کا حل پیش کر دیا تھا، اس کے اگرچہ مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن تیار شدہ حل مل جانے کے باعث آنے والی صدیوں کے علماء کی اجتہادی فکر ماند پڑتی گئی اور رہی سہی کسر دور غلامی نے پوری کر دی اوراس طرح گویا صدیوں سے سوکھ جانے والا فکر نو کا یہ چشمہ نہ صرف یہ کہ خشک سے خشک تر ہوتا گیا بلکہ اس پر اتنی گرد بیٹھ گئی کہ نسلوں سے جمے ہوئے پتھروں میں یہ اپنا مقام بھی گم کر بیٹھا، کسی نے اسے تلاش کرنے کی جستجو بھی کی تو وہ پتھر اسی کے گلے پڑ گئے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے اجتہاد کا دروازہ کھولنے پر بہت زور دیا۔ ان کے منظوم کلام میں اس کا ذکر بہت کم ہے یا صرف استعارات کی شکل میں موجود ہے تاہم ان کے خطبات میں اس پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے، انہوں نے اجتہاد پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے طریق کار کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اوریہ بات ثابت کی ہے کہ وحی الہی اور سنت رسول اﷲﷺ نے تازہ ہوا کے لیے جس روشن دان کو وا کیا تھا، اس کو بندکر دینے سے پیدا ہونے والا حبس ہی امت کی غلامی کا سبب ہے اور جب تک اس ہوا دان کو نہ کھولا جائے گا اور کمرے کی سڑاند باہر نہ جائے اور فکر نو کے جھونکے جب تک اندر نہ آئیں گے، تب تک سیاسی آزادی حاصل کر بھی لی تو ذہنی غلامی باقی رہے گی۔
قیادت کے رہنمائی ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبال ؒ نے عوام میں احساس بیداری کی روح پھونکی اور فرد کو اپنی’’خودی‘‘ کی نگہبانی کا درس دیا اور قوم کے ایک ایک فرد کو یہ باور کرایا ’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘۔ ان کا کلام سن کر افراد قوم اپنے اندر ایک نیا انسان جنم لیتے ہو ئے محسوس کرتے اور غلامی کی طویل رات نے ان کے اذہان کو جس طرح زنگ آلود کر دیا تھا اور ان کے رویوں پر جس طرح صدیوں کی میل جم چکی تھی، اور عدم قیادت نے انہیں جس طرح تقسیم در تقسیم کر کے غیروں کی گود میں جا بٹھایا تھا اور کتنے ہی اہل دانش تھے جو اس ناسمجھی میں دشمنوں کے ہاتھوں کھیل کر اپنوں کی ہی پیٹھ میں چھرا گھونپتے چلے آرہے تھے، علامہ محمد اقبال ؒ کی فکر تازہ نے انہیں خوب خوب مانجھنے کا کام کیا اور وہ علامہ کی ایک ایک نظم کے ساتھ چمکتے گئے اور صاف ستھرے ہوتے چلے گئے۔ یہ درست ہے کہ علامہ محمد اقبال ؒ نے قوم میں جذباتی فضا پیدا کر دی تھی، اگرچہ یہ بھی ایک مشکل کام تھا جو ہر کسی کے بس میں نہ تھا لیکن علامہ نے جذبات میں آگ لگا کر قوم کو محض چھوڑ نہیں دیا تھا بلکہ خطبہ الہ آباد میں ایک نئی ریاست کا تصور دے کران کے جذبات کی سمت بھی متعین کر دی تھی۔ پھر کتنا بڑا احسان کیا انہوں نے مسلمانان ہندوستان پر کہ مایوس ہو کر انگلستان جا بیٹھنے والے محمد علی جناح ؒ کو خصوصی خط لکھ کر واپس بلایا اور یہ علامہ محمد اقبال ؒ کا خلوص اور مردم شناسی تھی کہ ان کی مساعی سے قوم کوکھوٹے سکوں کے درمیان سے ایک ’’قائداعظم‘‘ میسر آ گیا، اور اﷲ تعالی نے ایک مرد قلندر کا خواب دوسرے مرد قلندر کے ہاتھوں پورا کر دیا۔ علامہ محمد اقبال ؒ زندہ رہتے تو قائداعظم کبھی تنہائی کا درد محسوس نہ کرتے لیکن یہ خدائی فیصلے ہیں، اور انہیں چیلنج کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی روکا جاسکتا ہے کہ بار الہ اپنے رازوں سے خود ہی آگاہ ہے اور بہتر جانتا ہے اور بہتر ہی کرتا ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے تحریک پاکستان کو ایسی چابک لگائی تھی کہ پھر یہ تحریک گویا آج تک زندہ ہے اور مجاہدین کشمیر اسی تحریک کی باقیات ہیں جو تخلیق پاکستان کے بعد سے آج تک تکمیل پاکستان کے لیے سرگرم عمل ہیں، کوئی قیادت ان کا ساتھ دے یا نہ دے، ملک و قوم ان کی دستگیری کریں یا نہ کریں، وسائل اور حالات موافق ہوں کہ مخالف، علامہ محمد اقبال ؒ سے شروع ہونے والا یہ قافلہ سخت جاں اﷲ نے چاہا تو منزل پر پہنچ کر ہی دم لے گا۔
جس طرح علامہ کی فکر کی ہم رکابی میں یہ ملک آزاد ہوا اور بچھڑے ہوئے مسلمان یک جان قوم بنے،اسی طرح علامہ کی فکر میں ہی ہماری بقا ہے۔ علامہ کے افکار کو پس پشت ڈال کر ہم ایک بار پھر غلامی کی اندھیر غار میں جا پڑیں گے،دوسروں کے محتاج ہو جائیں گے اورہماری قوم غداروں کی پرورش میں خود کفیل رہے گی۔ فکراقبال کو اپنانے کے نتیجے میں ہم اپنا وجود دنیا سے منوائیں گے، سخت کوشی اور خودی کی نگہبانی سے مشرق سے ایک بار پھر طلوع ہو کر تو دنیا بھر کو اپنی کرنوں سے منور کر دیں گے، ایک بار پھر حرم کی نگہبانی مسلمانوں کا مقدر بنے گی، اتحاد و یگانگت اور پیار و محبت کے پھولوں سے یہ گلشن آشنائے بہار ہوگا، مسجد قرطبہ ایک بار پھر مسلمانوں کی جبینوں سے آباد ہو گی اور انسانیت کو مادیت اور جنسیت سے نجات میسرآئے گی، اور کچھ بعید نہیں کہ تاریخ کا یہ سفر ایک بار پھر ماضی کی شاندار روشوں میں امت مسلمہ کا ہم رکاب بن جائے اور دنیا کی امامت کا تاج حاملین قرآن کے ماتھے کا جھومر بنے، ان شاء اﷲ تعالی۔
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
تبصرہ لکھیے