جدید میڈیکل سائنس کی ارتقا کا عمل جاری وساری ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ سفر کہاں جا کر ختم ہوگا یا کبھی ختم ہوگا بھی یا نہیں۔ لیکن جس سطح تک یہ ارتقائی عمل اب تک پہنچ چکا ہے، اُس کی اساس ہمیں بخوبی علمِ نبوت میں نظر آتی ہے اور احادیثِ مبارکہ کا ذخیرہ اس پر شاہدِ عدل ہے۔ انسانی رنگت، شکل و شباہت، اَعضاء کی ساخت، مزاج کے تنوُّع اور نسَب کے جانچنے کے حوالے سے سائنس دانوں نے قانونِ توارُث کو متعارف کیا، اس میں Mandel,LvonPoalov اور Calvin Hall کے نام قابلِ ذکر ہیں اور ڈی این اے بھی اِسی کا تسلسل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بےشک اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو جب پیدا کیا، تو پورے کُرَۂ ارض سے ایک مُشتِ خاک لی، تو مٹی کی جتنی رنگتیں اور قِسمیں ہیں، وہ سب بنی آدم کی رنگتوں اور مزاج میں ڈھل گئیں۔ سو بنی آدم میں سرخ، سفید، سیاہ اور ملی جلی رنگتوں کے افراد موجود ہیں۔ اِسی طرح بعض مٹی نرم ہوتی ہے، بعض سخت، بعض درمیانی خاصیت کی اور اِسی طرح کوئی مٹی اپنی اصل کے اعتبار سے خبیث، کوئی پاکیزہ اور کوئی درمیانی خاصیت کی ہوتی ہے، (طبقات الکبریٰ لابن سعد:30)‘‘۔ سو مٹی کے یہ خواص انسانی مزاج میں ڈھل گئے۔
پس انسانوں میں بھی آپ کو ہر طرح کے مزاج والے ملیں گے، نرم خو بھی ہوتے ہیں، معتدل مزاج بھی ہوتے ہیں، اکھڑ، اَڑیَل اور دُرُشت مزاج بھی ہوتے ہیں۔ اِسی طرح بنی آدم میں بدطینت، اَخلاقِ رذیلہ و خبیثہ کے حامل اور اخلاقِ حمیدہ سے مزیّن ہر طرح کے افراد ملتے ہیں۔ الغرض اصل خِلقتِ آدم تو مٹی سے ہے اور وہ قطرۂ آب جو انسان کے وجود کا نقطۂ آغاز ہے، ان تمام خصوصیات کا حامل ہے اور یہ سب چیزیں انسانوں میں منعکس نظر آتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:
’’ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک وسلم)، میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹے نے جنم لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اُس نے جواب دیا: جی ہاں!، آپ ﷺ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں؟ اُس نے عرض کی: سرخ، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: تو وہ (یعنی سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ) کہاں سے آ گیا؟ اُس نے عرض کی: شاید کسی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قیاس فرماتے تھے اور اس میں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حیوانات میں بعض نسلی خصوصیات پر مبنی قانونِ توارُث جاری ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے، اِسی طرح انسانوں میں بھی یہ قانون ِ فطرت جاری و ساری ہے۔ حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً وہ شخص سفید رنگ کا تھا، تو اُسے اپنے سیاہ فام بیٹے کے بارے میں شُبہ ہوا کہ کہیں اس کا نسب مشتبہ تو نہیں ہے، آپ ﷺ نے اپنی پاکیزہ الہامی بصیرت سے اُس کے شک و شبہے کو دور فرما دیا اور درج ذیل حدیثِ مبارک میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے:
علی بن ابی رباح اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا؟ اُس نے جواب دیا، میرے ہاں جو بھی پیدا ہوگا بیٹا ہوگا یا بیٹی، آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ (صورت میں) کس سے مشابہ ہوگا؟ اُس نے عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک و سلم)، یقینا اپنے باپ یا ماں میں سے کسی کے مشابہ ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو، (بات یہ ہے کہ) جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے) اُس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان تمام رشتوں (یعنی اُن کی صورتوں) کو حاضر فرما دیتا ہے، (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ’’وہ جس صورت میں چاہتا ہے، تمہارے وجود کی تشکیل فرما دیتا ہے. (المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔
غور کا مقام ہے کہ اُس دور میں جسے دورِ جہالت کہا جاتا ہے، نورِ نبوت کے سوا، جو وحیِ الٰہی کا منبع ہے، کسی اور صاحبِ علم و دانش کی بصیرت و فراست کے بارے میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ اتنی گہرائی اور گیرائی کی حامل ہو اور علم کی ایسی کرنیں بکھیر دے کہ جن تک جدید دور کے ذی عقل و ذی شعور انسانوں کی صدیوں بعد جزوی رسائی ہوئی ہو۔ یہ مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ بچے کی صورت نہ باپ کے مشابہ ہے اور نہ ماں کے، اِسی سبب بعض لوگ صحتِ نسب کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے علمِ نبوت کے فیض سے اِس مسئلے کو کم و بیش سوا چودہ سو سال پہلے حل فرما دیا ۔ اس مسئلے کی مزید تصدیق و تصویب اس حدیثِ پاک سے ہوتی ہے. ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کا رُخِ انور مسرّت و شادمانی سے دمک رہا تھا۔آپ ﷺ نے فرمایا: (عائشہ!) تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟ زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید چادریں اوڑھ کر اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ اُن کے سر (اور بدن کا بالائی حصہ) ڈھکا ہواتھا اور پاؤں کھلے تھے۔ اس اثنا میں بنو مُدلِج کاایک قیافہ شناس مُجَزَّزْ مُدْلِجِی آیا، اچانک اُس کی نظر دو لیٹے ہوئے اشخاص پر پڑی (جن کے صرف پاؤں نظر آ رہے تھے)، تو اُس نے کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں، یعنی یہ آپس میں باپ بیٹا ہیں. (صحیح مسلم: 1459)‘‘۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والے چار نفوس میں شامل ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متبنّیٰ تھے، جب آپ ﷺ نے انہیں آزاد کردیا، تو انہوں نے آزاد ہوکر اپنے ماں باپ اور خاندان کے پاس جا کر رہنے کے بجائے، رسول اللہ ﷺ کی دائمی غلامی کو ترجیح دی۔ انہوں نے ایک حبشی عورت بَرَکہ، جن کی کنیت اُمِّ اَیمَن تھی، سے شادی کی اور اُن سے اُن کے فرزند اسامہ پیدا ہوئے۔ حضرت اسامہ کا لقب ’’حِبُّ رسولِ اللّٰہ‘‘یعنی ’’رسول اللہ ﷺ کا محبوب‘‘ تھا۔ رسول اللہ ﷺ آپ کو ایک ہی سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے تھے، عربی میں اونٹ یا گھوڑے پر سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کو ردیف کہتے ہیں۔ وہ رنگت میں سیاہ فام لگتے تھے۔ باپ سے رنگت کے فرق کی وجہ سے کسی بدنیت شخص نے اُن کے نسب پر شک ظاہر کیا، اس سے رسول اللہ ﷺ کو رنج ہوا ۔لہٰذا جب مُجَزَّزْمُدْلِجِی نے قیافے کی بنا پر محض دونوں کے پاؤں دیکھ کر انہیں باپ بیٹا قرار دیا، تو آپ ﷺ کو نہایت مسرت ہوئی۔ شرعاً تو ان کا نسب پہلے ہی ثابت تھا، مگر قرائن کی شہادت سے اس کو تقویت ملی، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ شہادت کا اصل معیار تو شریعت ہی کا رہے گا، تاہم قرائن کی شہادت اس کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہیں۔
موسمیاتی تغیر: آج کل موسمیاتی تغیر کا عالَمی چیلنج درپیش ہے۔ Global Warming یعنی عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں اضافہ ایک خطرے کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔ سو ماحولیاتی حرارت میں کمی یا کم از کم اسے موجودہ حد تک برقرار رکھنے کے لیے ایک مفید حکمت عملی شجرکاری اور جنگلات میں اضافہ ہے۔ عالمی ماہرین کسی بھی ملک کی زمین میں جنگلات کا ایک کم از کم تناسب ضروری سمجھتے ہیں۔ جنگلات اور درخت موسم کو بہتر رکھنے، زلزلوں اور طوفانی بارشوں میں زمین کے کٹاؤ کو روکنے کا باعث بنتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے اس فعل کو نیکی کا درجہ دیا اور اس کے ثمرات کو صدقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
(1) ’’جو شخص کوئی درخت لگائے یا فصل کاشت کرے، پھر اُس سے کوئی انسان یا پرندہ یا درندہ یا چوپایا کھائے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے. (مسند احمد:15201)‘‘۔
(2) ’’جو بھی مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے، تو اُس درخت سے جو کچھ کھایا جائے، وہ اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو اُس سے چوری ہوجائے، اور جو درندے اُس سے کھا لیں، وہ (بھی) اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو پرندے اُس سے کھا لیں، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہے، اور کوئی شخص اُس میں سے کم کرے گا، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہوجائے گا. (مسلم: 1552)‘‘۔
(3) ’’اگر قیامت سر پہ کھڑی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کسی درخت کا کوئی قلم یا پودا ہے، اگر وہ کھڑا ہونے سے پہلے اُسے زمین میں لگا سکتا ہے، تو ضرور لگا لے.(ادب المفرد:479)‘‘۔
یہ انسان کی فطرت ہے اور اس کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کاشت کی ہوئی فصل، لگایا ہوا باغ اور بویا ہوا پودا جب کامل ہوجائے، تواپنی محنت کا سارا ثمر وہ اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا کوئی دانہ، کوئی پھل، کوئی پھول، کوئی سبزی الغرض کوئی بھی چیز ضائع ہوجائے۔ لیکن شجر کاری وہ شعبہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے نیت کے بغیر ہی انسان کو اجر کا حق دار قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے صدقے سے تعبیر فرمایا ہے۔ اُس میں سے کوئی چیزانسان، حیوانات، چرند، پرند، درندے حتیٰ کہ حشراتُ الارض کھائیں یا چوری ہوجائے یا کوئی کمی ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ اُس پر بھی اُسے اجر عطا فرماتا ہے۔ انسان کے لگائے ہوئے درخت کی چھاؤں میں کوئی راحت پالے تو یہ بھی صدقہ ہے، کوئی پرندہ اُس کی شاخوں میں آشیانہ بنا لے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ جو دین اتنا ماحول دوست ہو، انسان نواز ہو، اللہ کی ہر مخلوق کے لیے وسیلۂ رحمت ہو، حتیٰ کہ اللہ کی زمین کی برقراری اور شادابی کے لیے سہارا ہو، اُس کے ماننے والوں کے وطن میں جنگلات تباہ و برباد ہوتے رہیں، زمین درختوں کے سائبان سے بےلباس ہوجائے، اِسے دنیا و آخرت کی محرومی کے سوا اور کس چیز سے تعبیر کیا جائے۔ اس کی اہمیت کا بیان زبانِ نبوت ہی فرما سکتی ہے کہ تمہارے ہاتھ میں قلم یا شاخ ہے اور قیامت سر پہ کھڑی ہے، تب بھی اٹھنے سے پہلے اسے زمین میں لگا سکتے ہو تو لگا لو۔
کلوننگ: کسی جاندار کے وجود کے ایک خَلیے (Cell) سے دوسرے جاندار کے پیدا کیے جانے کے جدید سائنسی نظریے کو کلوننگ کہتے ہیں، جیسا کہ سائنس دانوں نے اپنے دعوے کے مطابق ایک بھیڑ کے خَلیے سے ’’ڈولی‘‘ نامی دوسری بھیڑ پیدا کی۔ الحمدللہ! قرآن کریم نے ماں باپ دونوں کے واسطے کے بغیر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش، عورت کے واسطے کے بغیر حضرت آدم کے وجود سے حضرت حوا کی پیدائش اور مرد کے واسطے کے بغیر حضرت مریم کے وجود سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا حوالہ دے کر روزِ اول سے بتا دیا ہے کہ یہ تمام صورتیں نہ صرف ممکن ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وجود میں آچکی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(1)’’بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم کی سی ہے، جسے اس نے مٹی سے بنایا، پھر (اسے) فرمایا: ہوجا، سو وہ ہوگیا، (آل عمران:59)‘‘۔
(2)’’(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا (الاعراف:189)‘‘۔
(3)’’فرشتے نے کہا: میں تو صرف تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ میں تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا دوں، مریم نے کہا: میرے ہاں بیٹا کیسے ہوسکتا ہے، حالانکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں اور نہ میں بدکار ہوں، فرشتے نے کہا: (مَشِیْئَتِ باری تعالیٰ) اِسی طرح ہے، آپ کے رب نے فرمایا: یہ مجھ پر آسان ہے تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی اور اپنی طرف سے رحمت بنا دیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں طے شدہ امر ہے، (مریم: 19-21)‘‘۔
(4)’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور اُسی سے اس کا جوڑا (Spouce یعنی حواکو) پیدا کیا اور اُن دونوں سے بہ کثرت مَردوں اور عورتوں کو (زمین میں) پھیلا دیا، (النساء:1)‘‘۔
یہی بات حدیث پاک میں بیان کی گئی ہے، فرمایا:’’عورتوں کے ساتھ خیرخواہی کرو، کیونکہ (کائنات کی پہلی) عورت کو (آدم) کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی کی سب سے اوپر والی ہڈی ٹیڑھی ہے، پس اگر تم ان کو (زاویۂ قائمہ کی طرح) سیدھا کرنے لگو گے، تو توڑ دوگے اور اگر تم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہےگی، سو عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو. (صحیح بخاری:3331)‘‘۔
ہماری دینی بہنیں اس حدیث کو سن کر ناگواری محسوس کرتی ہیں کہ انہیں ٹیڑھا کہا گیا ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے طبائع اور مزاجوں کے تفاوت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عورت کو سو فیصد اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ اس کے مزاج کے ساتھ مطابقت (Adjustability) پیدا کرو۔ ظاہر ہے کہ مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہر فریق کو دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہوتی ہے، سو خاندانی نظام کو استوار رکھنے کے لیے مرد کو بھی جھکنا پڑے گا، اکڑ کر رہنے سے ٹکراؤ تو ہو سکتا ہے، مطابقت نہیں ہوسکتی اور خاندان بکھر جاتا ہے، جو منشائے ازدواج کے خلاف ہے۔
کتے کے منہ کے جراثیم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈالے (یعنی زبان سے چاٹے)، تو اُسے پاک کرنے کے لیے سات مرتبہ دھویا جائے، جن میں سے پہلی مرتبہ اُسے مٹی سے مانجھا جائے(بخاری:168)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتے کے منہ سے نکلنے والے جراثیم موذی ہوتے ہیں اور اُن سے بچاؤ کے لیے احتیاط نہایت ضروری ہے، آج کل مٹی کی جگہ کیمیکل یا واشنگ پاؤڈر استعمال کیے جاتے ہیں۔ حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ کتے کے لعاب کا تریاق مٹی میں ہے اور شاید مٹی میں ایسا دافع عفونت (Antiseptec) مادہ ہوتا ہے جو کتے کے جراثیم کے برے اثرات کا خاتمہ کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہائے کرام نے کہا: خشک مٹی پاک ہے اور اُس پر کوئی کپڑا بچھائے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میرے لیے مٹی کو پاک کردیا ہے، (سنن ابودائود:489)‘‘۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ کتا جب فُضلہ خارج کرتا ہے تو اُس کے ذرّات اُس مقام کے اطراف کے بالوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں، پھر اُن میں موذی جراثیم (Viruses) پیدا ہوتے ہیں اور کتا جب اُس مقام کو چاٹتا ہے، تو وہ جراثیم اُس کے لعاب میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کتا جب باؤلا ہوجاتا ہے، تو اُس کے لُعاب (Spittle) میں Lyssaviruses پیدا ہوجاتے ہیں اور اگر اُن کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو اُس سے Rabies کی بیماری پیدا ہوتی ہے، علامات (Symptoms) ظاہر ہونے کے بعد یہ بیماری تقریباً ناقابلِ علاج ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس آخری مرحلے کے بعد اب تک طبی دنیا میں صرف پانچ مریضوں کا شفایاب ہونا ریکارڈ پر ہے۔ اس بیماری کے بعد دماغی اعصاب (Neuro Nerves) متاثر ہوتے ہیں اور Hydrophobia یعنی پانی سے خوف کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور مریض شدید پیاس کے باوجود پانی نہیں پی پاتا۔ ابتدائی مراحل میں اگر زخم کو اچھی طرح Antibiotic سے دھو لیا جائے اور Immunoglobulin کے انجکشن دے دیے جائیں، تو بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ سرِ دست کوئی ایسا میڈیکل ٹیسٹ ایجاد نہیں ہوا کہ اس بیماری کو ابتدا ہی میں Diagnose کیا جاسکے، جدید تحقیق کے مطابق یہ چھ ہفتے سے لے کر چھ ماہ تک کے عرصے میں نمودار ہوسکتی ہے، البتہ پوسٹ مارٹم میں تشخیص ہوسکتی ہے۔
یہ علمِ نبوت ہی کا فیضان ہے کہ آپ ﷺ نے دینی و اَخلاقی تعلیمات کے ذریعے اِن مہلک جسمانی امراض اور اَخلاقی عوارض کے علاج تجویز فرمائے۔
کلمات کی تاثیر: قرآن مجید کی سورہ المائدہ:4 میں تربیت یافتہ اور سِدھائے ہوئے کتوں کے ذریعے حلال جانور کے شکار کے جواز کا حکم بیان فرمایا گیا ہے، کتبِ فقہ میں اس کے تفصیلی احکام اور شرائط موجود ہیں، حدیثِ پاک میں ہے:
حضرت عدی بن ابی حاتم نے نبی ﷺ سے عرض کی: ہم لوگ کتوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں (یعنی اس کا حکم کیا ہے؟)، نبی ﷺ نے فرمایا:’’جب تم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے شکاری کتے کو چھوڑا اور اس نے شکار کو روکے رکھا اور مار ڈالا، تو تم اس کو کھالو اور اگر اُس نے خود کھا لیا تو پھر تم مت کھاؤ، کیونکہ اُس نے اِس جانور کو اپنے لیے شکار کیا ہے۔اور اگر اُس کے ساتھ دوسرے شکاری کتے بھی مل جائیں، جن پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اور انہوں نے اُس شکار کو روکے رکھا اور مار ڈالا، تو تم اس کو نہ کھاؤ، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ُان میں سے کس کتے نے اِس شکار کو مار ڈالا ہے،(بخاری:5484)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے مقدس نام میں ایسی معنوی اور روحانی تاثیر موجود ہے، جس کے سبب اللہ کے نام پر چھوڑے ہوئے اور سِدھائے ہوئے کتے کا شکار حلال ہو جاتا ہے، حالانکہ کتے کے لعاب کا حکم آپ حدیثِ پاک میں پڑھ چکے ہیں کہ اُس کی پاکیزگی میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، لیکن شکاری کتے پر بسم اللہ پڑھنے کی برکت سے شریعت نے کتنی رعایت دی۔ بعض ماہرین نے اس کا حسّی سبب بھی بتایا ہے اور علامہ ابن حجر نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ جب کتا شکار کے پیچھے دوڑتا ہے، تو اُس کے منہ کا لعاب خشک ہوجاتا ہے اور وہ جب شکار کو پکڑتا ہے تو اُس کا لعاب شکار کو آلودہ نہیں کرتا۔ الفاظ کی روحانی تاثیر کو تو سبھی مانتے ہیں، عربی شاعر نے کہا ہے:
جَرَاحَاتُ السَّنَانِ لَھَا الْتِیَامُ وَلَا یَلْتَامُ مَاجَرَحَ اللِّسَانُ
ترجمہ: تیر کے زخم تو وقت گزرنے کے ساتھ مُندَمِل (Recover) ہو جاتے ہیں، لیکن زبان کا لگا ہوا زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ میں تاثیر ہے۔ اچھی نیت سے پیار بھرے الفاظ سن کر انسان کا قلب مسرور ہوجاتا ہے اور روح کو سکون ملتا ہے، جبکہ نفرت انگیز الفاظ سُن کر دل پر چوٹ لگتی ہے اور روح سے ٹِیسیں اٹھتی ہیں۔ سو اگر کوئی شیطانی کلمہ روح کو بےچین کرسکتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کی صداقت میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے؟۔’’سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے، (الرعد:)‘‘۔ اور حدیثِ پاک میں ہے:’’دو کلمے اللہ کو پسند ہیں، جو پڑھنے میں نہایت سہل ہیں اور (قیامت کے دن) میزانِ عمل میں وہ بھاری ہوں گے اور وہ یہ ہیں:’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ‘‘(بخاری:7563)‘‘
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’میں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پست قد کے بارے میں طعن کیا، تو نبی ﷺ نے فرمایا: (اے عائشہ!) تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اُسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے، تو وہ اُسے بھی بدمزہ کردے، (سنن ترمذی: 2502)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اور برے کلمات کی تاثیر ہوتی ہے اور وہ انسان کے ذہن پر مُثبت یا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(1)’’اچھی بات کہنا اور (کسی کی غلطی سے) درگزر کرنا اُس صدقے سے بہتر ہے جسے بعد میں جِتلا کر اذیّت پہنچائی جائے اور اللہ بےنیاز، نہایت حِلم والا ہے اور اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور (ذہنی) اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو. (البقرہ:263-64)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پاکیزہ بات صدقہ ہے (یعنی کسی کو اچھی بات کہنے پر بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اجر ملتا ہے) ، (بخاری:2891)‘‘۔ جب رسول اللہ ﷺ نے بدشگونی کی مذمت فرمائی، تو فرمایا: نیک فال لینا بہتر ہے، سوال ہوا: یارسول اللہ! نیک فال کیا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ پاکیزہ بات جسے کوئی سنے (اور خوش ہو)، (بخاری:5754)‘‘۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ (بےہودہ بات کہنے کے بجائے) چپ رہے. (6018)‘‘۔
تبصرہ لکھیے