دوسری شادی ہمارے معاشرے کا ایک سلگتا ہوا موضوع اور خواتین کو آگ بگولا کرنے کیلئے کافی ہے.بہت سے مرد حضرات دل میں دوسری شادی کی خواہش،ضرورت چھپاۓ بیوی اور اپنے سسرال کے ﮈر سے برائی کی طرف چلے جاتے ہیں مگر ایک حلال کام کی طرف راغب نہیں ہوتے اور اگر مضبوط بن کر یہ آگ کا دریا پار کر بھی لیں تو بہت کم ہی عمدہ مثالیں چھوڑ کر جاتے ہیں. عموما معاشرے میں لڑائی جھگڑا، طلاق یا فریقین کے ساتھ ساتھ بچوں کا نفسیاتی مریض بن جانا معمول ہے.
دوسری شادی کا تذکرہ خواتین کو آگ بگولا کردیتا ہے. کوشش کرتے ہیں کہ اس مضمون میں ان وجوہات کا احاطہ کیا جائے.
دراصل خواتین کے غصے میں آنے کی وجوہات بھی وزنی ہیں کیونکہ ہمارا یہ معاشرہ جس پر گہری ہندوانہ چھاپ ہے اس میں خال خال ہی عمدہ مثالیں نظر آتی ہیں، عموما رویہ (دینی بے دینی برابر ہی سمجھیں) پہلی بیوی کے حقوق میں کمی کوتاہی، اسے آثار قدیمہ سمجھ کر سٹور میں پھینک دینا، دوسری کی طرف مائل ہونا وغیرہ (اگرچہ بعض اوقات خاوند کو دوسری کے مکمل حوالے کرنے میں ہم عورتیں برابر کی شریک ہوتی ہیں)
دوسری بات تربیت کی کمی، جب کسی بات کے متعلق علم ہی نہیں کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں تو قبول کرنا مشکل کام ہے. تیسری بات ہندؤوں سے آئی رسم بد جو کہ فلموں ڈراموں اور بیہودہ تحاریر میں بس ایک ہی بیوی پر گزارہ کرنے کے اشتہار ہیں. دوسری تیسری کا تو نام لینا اللہ معافی دے...اللہ معافی دے...
پیاری بہنا! اگر آپ دیکھ رہی ہیں کہ خاوند دوسری تیسری کا ارادہ کر رہا ہے تو کوشش کریں کہ خود آگے بڑھ کر ایسی خاتون ڈھونڈیے جو آپ کی ہم خیال ہو تاکہ گزارا کرنا آسان ہوجائے. ورنہ خاوند اپنی پسند کی لے آیا تو سب کا جینا مشکل ہوجائے گا. ویسے بھی نکاح کی خواہش رکھنے کے نتیجے میں خاوند کی شادی کرانے پر خاوند بھی آپ پر واری واری ہوگا اور ادھر ادھر تانک جھانک کرنے سے گریزاں رہے گا. پھر یہ شکوہ نہیں رہے گا کہ یہ تو ہر لڑکی پر نظریں جمائے رکھتے ہیں.
شادی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے چاہے پہلی ہو یا دوسری. اگر ہم صرف اپنے حلقہ احباب پر ہی نظر دوڑائیں تو بہت سی ایسی خواتین ملیں گی جن کے خاوند اللہ کی راہ میں کام آگئے. یقین مانیے ان خواتین کا سہارا بننا دوہرے دوہرے اجر کا باعث ہے اور ایسی خواتین بخوشی گزارا بھی کر لیتی ہیں. کنواری خواتین کو اپنانے پر ہر کوئی راضی ہوجاتا ہے مگر ایسی خواتین جن کے نکاح میں جلدی کے لیے خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، معاشرے کی بے حسی کی نظر ہو جاتی ہیں اور اعداد پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوگا کہ دین سے دور ایسی خواتین بے راہ روی کی زیادہ بڑی وجہ ہیں.
ویسے بھی مرد حضرات کی کم ہوتی تعداد ابھی کیا مشکل کررہی ہے، کل کو ہماری بچیوں کےلیے بہت مشکل کرے گی اور بےحیائی کے راستے پر چلنے سے روکنا ناممکن ہوگا.
اسی طرح جہاں خواتین ان چیزوں کی ذمہ دار ہیں وہیں مرد حضرات بھی برابر کے شریک ہیں. جو دیندار حضرات ہیں وہ اس حوالے سے بیوی کی تربیت نہیں کرتے، بس لٹھ مارتے ہیں کہ میں دوسری شادی کرنے لگا ہوں. بیوی کے شور ہنگامہ کرنے پر کہا جاتا ہے کہ جب اسلام مجھے دوسری کی اجازت دیتا ہے تو تم کون ہوتی ہو روکنے والی؟ حالانکہ اگر تربیت اور پیار کی زبان ہو تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والی کوئی خاتون بھی اعتراض نہیں کرتی. اگر دوسری شادی کرنی ہے تو پہلی سے پیار محبت کا برتاؤ رکھیے اور اسے اول اہمیت دیجیے تاکہ اسے یقین ہو کہ بعد بھی ایسا رویہ رہے گا.
والد محترم کے دوست جنھیں ہم بچپن میں چار شادیوں والے انکل کہا کرتے تھے، ہر سال مری میں ایک ماہ کے لیے آتے. چاروں بیویوں کی باری لگی ہوئی، بار بار آنے کی کبھی ایسے بھی ہوتا کہ پہلی اور تیسری جبکہ دوسری اور چوتھی اکھٹی آتیں. علیحدہ علیحدہ ان کا رویہ تو دیکھتے تھے لیکن ایک دفعہ سب اکٹھی آئیں تو دیکھ کر (باوجود بچپنے کے) بڑی خوشی ہوئی کہ تینوں پہلی والی کو بہت عزت احترام دے رہی ہیں. والدہ کے پوچھنے پر دوسری فرمانے لگیں کہ ہمارے سب معاملات آپا جی(پہلی اہلیہ) کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، ہمیں کچھ نہیں پتہ، بچے کیا کھاتے پیتے پہنتے اوڑھتے ہیں. ہم تو اپنی اپنی نوکریوں (سکول ٹیچنگ) پر جاتی ہیں، وہیں سے فرصت نہیں ملتی. بس حاجی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی عزت کرو تو ہم کرتے ہیں کیونکہ حاجی صاحب نے آج تک کبھی ظاہرا ناانصافی نہیں کی مثلا اگر ایک گھر والوں کے کپڑے آتے ہیں تو باقی سب کے بھی آئیں گے چاہے ضرورت ہو یا نه ہو. اسی وجہ سے ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارا برا نہیں چاہتے.اور ہم ان کی سب باتیں خوشی خوشی مانتی ہیں.
ہمارا ایک رویہ یہ بھی ہے کہ پہلی سے تنگ ہے جبھی تو دوسری کر رہا ہے. ہماری ایک عزیزہ جو دوسری بیوی ہیں اپنے خاوند کی خواہش پر ان کی خود شادی کرواتی تھیں. یکے بعد دیگرے چھ نکاح ہوئے لیکن نبھاہ کوئی بھی نہ کر سکی. وجہ یہ کہ پہلے سے موجود بیوی اور خاوند میں انتہا درجے کا پیار محبت اور نئی آنے والی بیوی اور اس کے اہل خانہ جلتے کہ جب آپس میں اتنا پیار ہے دوسری شادی کرنے کی تو کیا وجہ تھی؟.
یہ نہ سوچتے تھے جو بیوی پندرہ سولہ سال سے ہر طرح کی قربانی دے رہی اس میں اور دو تین ماہ والی بیوی میں فرق تو ہوگا. مگر یہی مسئلہ کہ پہلی خوش تو دوسری تیسری چہ معنی دادر؟
یعنی یہ سمجھ لیا گیا ہے، دوسری تیسری فقط اس صورت میں ہونی ہے، پہلی والوں سے ناکوں ناک تنگ پڑے ہوں.اس فضول نظریہ سے چڑے دونوں میاں بیوی اتنا تنگ ہیں کہ جو ہمارے حلقہ احباب میں دوسری شادی کا پرزور جوڑا تھا اب ہاتھ جوڑتا ہے کہ واسطہ جے اک توں زائد ویاہ نہ کریو. حالانکہ عزیزہ دین و دنیا کے امتزاج والی سوکن کا انتخاب فرماتی تھی.کنواری بیوہ مطلقہ ہر طرح کی سوکن لا کے دیکھ لی پر...
اپنے اپنے نظریات کو بدلیے. تربیت بہت اہم ہے اور اس حوالے سے یہ تربیت عموما مردوں کی ذمہ داری ہے، بیٹی بہن بیوی سب کو اس حوالے سے رہنمائی کرنا کہ اگر خاوند مزید نکاح کا اراده رکھے تو کیسا برتاؤ کرنا ہے، اسی طرح اگر بچی سوکن بن کے جارہی ہے تو پہلے سے موجود اہل خانہ کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا ہے کیونکہ اہل حوصلہ خواتین خال خال ہیں اور جو ہیں ان بیچاریوں کا کوئی پرسان حال نہیں. (چلیں عورتوں کی تربیت تو مرد حضرات کر لیں گے مگر مرد حضرات کی ایسی حکیمانہ تربیت کون کرے گا جس کی بدولت سب ہنسی خوشی رہیں؟)
ایک بات عام ہے کہ اکثر دوسری کے بعد بریک لگ جاتی ہے جو کہ لگنی نہیں چاہیے. بیویاں تعداد میں زیادہ ہوں گی تو لڑائی جھگڑے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں البتہ صرف دو بیویاں کافی مسئلہ کرتی ہیں.
محترم بھائی! اگر آپ ایک سے زائد شادی کرنے کا ارادہ باندھے ہوئے ہیں تو شادی کے بعد سے ہی آہستہ آہستہ تربیت کیجیے بجائے یہ کہنے کے کہ میں نے اگلے وقتوں میں اور نکاح کرنا ہے (بیوی شروع سے ہی شک و شبہ پال کر بیٹھ جائے، ضرور کسی سے چکر ہے. اور زندگی اجیرن ہو چاہے بعد میں کرنی ہی نہ ہو) زائد نکاح کی افادیت بتائیے. ایک جاننے والے صاحب نے دوسری شادی کی تو پہلی بیوی انتہائی باغی ہوگئی، پردہ وردہ سب اتار پھینکا. انتہائی آزادانہ ماحول اپنا لیا، اپنا بھی اور بچیوں کا بھی. اس حالت کو دیکھ کر والد محترم فرمانے لگے کہ یہ جو بچے ایک سے زیادہ شادی کرتے ہیں، پہلے سے موجود اہل خانہ کے دل میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت تو بٹھاتے نہیں پھر یہی انجام ہوگا. پہلے اہلیہ کو اعتماد میں لیجیے اور کرنی ہے تو بس کر لیں، یہ کیا کہ شادی کرنی بھی نہیں اور محلہ بھی سر پہ اٹھایا ہوتا ہے. اس حوالے سے ایک عرب عالم کی تقریر کے چند جملے کہ ہمارے بھائی شادی تو کرتے نہیں بس شور مچا مچا کر بیوی بیچاری کا خون خشک کیا ہوتا ہے. اللہ کے بندو کرنی ہے تو کرو ورنہ کیوں مخلوق خدا کو تنگ کرتے ہو؟
یاد رکھیں پیار محبت کی زبان ہی ہر کوئی سمجھتا ہے. احسن انداز سے تذکرہ کریں ورنہ جارحانہ، حاکمانہ اور تنگ کرنے والا تذکرہ کرنے سے اچھی بھلی خواتین جو ذہن بنا کے بیٹھی ہوتی ہیں وہ بھی بھپری شیرنیاں بن جاتی ہیں.
تبصرہ لکھیے