آج کل ہر ایک ناصح برائے دیگراں بنا ہوا ہے، لوگ خود تو نیک عمل کرتے نہیں، البتہ دوسروں کو نصیحت کرنے میں تیزی دکھاتے رہتے ہیں. زبانی تبلیغ کار بےخیر ہے کیونکہ صرف قول مؤثرنہیں ہوتا، کردار اصل اور مؤثر قوت ہے، لہذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اسلامی معاشرت، اسلامی عقائد اور اسلامی افکار کا علم حاصل کرے اور پھر اس کا عملی نمونہ بن جائے۔
اسلام کی بنیاد علم پر ہے، اس لیے پہلی اور فوری ضرور علم حاصل کرنا ہے اور یہ ایک مسلمان کے لیے فریضہ ہے.
علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ بنیادی دینی علوم جو انسان کی روزمرہ کی زندگی کے لیے ضروری ہیں، ان کو اتنا عام اور سہل الحصول بنا دیاجائے کہ کوئی بھی مسلمان دین سے نا آشنا نہ رہے. ضروری نہیں کہ ہر مسلمان کو بھر پور معلومات ہونی چاہیے، صرف اتنا علم جس سے اس کی زندگی اسلام کے مطابق ڈھل جائے، اگر کوئی کسی دینی معاملےمیں مشکل کا شکار ہے تو اس کو چاہیے کہ علمائے دین سے رابطہ کرے۔
اس کے ساتھ ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں دین کے علم کی لگن پیدا کی جائے تاکہ وہ دینی علوم کو سیکھیں. دور حاضر میں والدین بچوں کو دنیاوی علوم کی بلندیوں پر تو پہنچا رہے ہیں، اگرچہ کسی حد تک یہ بھی ضروری ہیں، لیکن وہ دینی علوم جو انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناتے ہیں، عموما والدین خود بھی ان سے ناآشنا ہوتے ہیں اور اولاد بھی ناآشنا رہتی ہے.
ہم حیران ہوتے ہیں کہ مسلمان دن بدن پستی کی طرف جار ہا ہے اور سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ زندگی گزارنے کا جو نظام اس کو اسلام نے دیا ہے، وہ اس کو جانتا ہی نہیں۔ اگر والدین ہیں تو کما حقہ اولاد کے حقوق نہیں جانتے، اوراگر اولاد ہے تو اسے والدین کے حقوق معلوم نہیں۔ الغرض معاشرے کے افراد اسلامی نظام زندگی سے بےخبر اور مقصد سے عاری ہیں۔ خدارا اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پیش کریں اور دل کے اندر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے لگن پیدا کریں۔ جب دل میں یہ لگن پیدا ہو جائے گی تو یقینا آپ علمائے دین سے رجوع کریں گے، جب ایک مسلمان دینی تقاضوں سے آگاہ ہو جائے گا تو اس کا اطلاق وہ اپنی عملی زندگی پر کرنے کے قابل ہوگا، اس طرح سے ماحول اور معاشرے میں خود بخود اصلاح کے رجحانات پیدا ہو جائیں گے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے جب تک ماحول ٹھیک نہیں کیا جائےگا اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہیں، اور ماحول اسی صورت میں سنور سکتا ہے جب پوری قوت اور فرض شناسی سے کام لیا جائے اور اس کی ابتداء سب سے پہلے اپنے گھر سے اور خود سے کی جائے. ہر مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ اپنے گھر کے امور اور معاملات کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالے۔ حلال رزق کو اپنی زندگی کے لیے لازم جانےاور حرام کی کمائی سے دور بھاگے۔
جب امت کا ہر فرد اس پر عمل کرے گا تو اس طرح سے اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ اپنے آپ ہی ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ جب مسلمان اچھی طرح دینی رنگ میں ڈھل جائیں گے تو پھر حکومت کا کام معمولی رہ جائے گا۔ اس لیے اسلامی نظام کا نفاذ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
تبصرہ لکھیے