بہت افسوس سے یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے جاہلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ ان پڑھ جاہلوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، اور بد تہذیبی سے باز نہیں آتے ہیں. یوں تو گھروں سے حصولِ علم کے لیے نکلتے ہیں مگر نکلتے ہی عوامی املاک کا نقصان کرنا شروع کر دیتے ہیں، مثال کے طور پر اگر ڈرائیور نے بس نہ روکی تو اس کے شیشے توڑ دیے تو کبھی ڈرائیور پیٹ ڈالا. یہ کہاں کا انصاف ہے. زیادہ مسئلہ ہے تو اپنا بندوبست کر کے گھروں سے نکلیں، بسیں اور ڈرائیور حضرات آپ کی جاگیر تو نہیں ہے. آج اجتماع پر جانے کے لیے نکلے تو راستے میں دو دفعہ یہ واقعہ پیش آیا. پڑھنے جانے والے ”جاہلوں“ نے بس غنڈہ گردی سے روکنے کی کوشش کی حالانکہ بس پر تبلیغی اجتماع کا بینر بھی آویزاں تھا. عقل کے کوروں نے بس پر پتھر بھی جڑ دیا.
روز اخبارات میں ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ آج طالب علموں نے بس پر بیٹھنے نہ دینے کی وجہ سے بس میں توڑ پھوڑ کی. جہاں ڈرائیور کا داؤ لگتا ہے، وہاں وہ کام دکھا دیتے ہیں. یوں جھگڑے بڑھتے جاتے ہیں.
بعض اوقات تو طلبہ سڑک کے درمیان میں آ جاتے ہیں اور حادثات کا سبب بن جاتے ہیں اور سارے کا سارا قصور غریب ڈرائیور کا بن جاتا ہے کہ وہ تیز چلا رہا تھا. بندہ پوچھے سڑک کے درمیان آخر آتے کیوں ہیں.
اس سوچ کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسے طلبہ ملک کی ترقی کا کیسے حصہ بنیں گے؟ اچھے طریقے سے علم حاصل کریں اور اس ملک کی شان بڑھائیں. اپنی حالت نہیں بدلیں گے تو ملک کی کیسے بدلے گی.
حکومت سے التماس ہے کہ میٹرو اور موٹرویز سے کچھ توجہ ہٹا کر ان پر بھی نظر کرم کر دیجیے. ان کے لیے الگ روٹ اور بسوں کا سسٹم چلا دیجیے، آپ کو ادھر سے بھی ٹھیکوں اور بسوں کی خریداری میں سے کچھ بچ ہی جائے گا. فارن کنٹریز میں طالب علموں کو طرح طرح کی سہولیات میسر ہیں اور وطن عزیز میں ٹرانسپورٹ کا ہی کوئی پراپر نظام موجود نہیں ہے. حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینی چاہیے.
تبصرہ لکھیے