ہوم << چائے کی تاریخ اور استعمال - عامر احمد عثمانی

چائے کی تاریخ اور استعمال - عامر احمد عثمانی

*چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی۔
*مختلف ممالک میں چائے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سبز چائے مقبول ترین قسم شمار کی جاتی ہے۔
*دنیا میں سبز چائے کی اتنی اقسام وانواع پائی جاتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔
*یہ چائے کولیسٹرول کم کرنے، امراض قلب وجگر سے حفاظت اور ہاضمے کی درستگی کا اہم ذریعہ ہے۔
چائے ہماری روز مرہ زندگی کا اہم جزو بن چکی ہے۔ دن کا کھانا ہو یا رات کا دسترخوان، مہمان کی خاطر مدارت کرنی ہو یا یارانِ محفل کی دلجوئی ولجمعی کا لحاظ رکھنا ہو، کوئی خوشی کی تقریب ہو یا غم کا موقع چائے پیش کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔ ناشتہ تو چائے کے بغیر ایسا ہی لگتا ہے جیسے گاڑی ہو اور اس میں پیٹرول نہ ہو۔ یہ توچولی دامن کے ساتھی ہیں۔ امیر ہو یا غریب سب آپ کو اس روایت کی پیروی کرتے نظر آئیں گے۔ پاکستان میں اس مشروبِ گرم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرمی ہو یا سردی چائے نوشی کا تسلسل بدستور جاری رہتا ہے اور اس کے پینے میں کوئی ناغہ ہرگز برداشت نہیں کیاجاتا۔ ایک سروے کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ مزدور طبقہ چائے کا زیادہ شوقین ہوتا ہے۔ کیوں کہ چائے میں ایسے مادے پائے جاتے ہیں جو وقتی طور چستی، پھرتی اور نشاط پیدا کرتے ہیں۔ لیکن کثرتِ استعمال کی وجہ سے ہمارے ذہن اس کے اتنے عادی بن چکے ہیں کہ اگر وقت پر چائے نہ ملے تو جسم تھکن محسوس کرنے لگتا ہے اور اعصاب ٹھوٹے پھوٹنے لگتے ہیں۔ برصغیر میں چائے کا چسکہ انگریز کی مرہونِ منت ہے۔ اس نے سب سے پہلے ہندوستانی لوگوں کو مفت چائے پلاکرانہیں اس کا عادی بنایا۔ پھر اس کی تھوڑی سی قیمت مقرر کرکے تجارت شروع کی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ قیمت بڑھتی چلی گئی اور برصغیر کے لوگو ں کی عادت بنتی چلی گئی۔
چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی۔ اور اس دریافت کا سہرا ایک چینی بادشاہ کے سر جاتا ہے جس نے علاج کی غرض سے جڑی بوٹیوں کے ساتھ چائے کے پودے کی بھی دریافت کی۔ چائے کا پودا ایک ایسی جھاڑی پر مشتمل ہوتا ہے جو سدا بہار ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں اس جھاڑی کے پتے کو ایک ٹکیہ کی شکل دی جاتی اور اس ٹکیہ کو پیس کرادرک اور مالٹے کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس چورے کو نمک کے ساتھ استعمال کیا جانے لگااور پھر چین سے ہوتا ہوا یہ مشروب ترکی اور ہندوستان تک پہنچا۔ چائے میں سب سے پہلے دودھ کا استعمال چنگیز خان نے کیاجس نے چائے کو پہلی مرتبہ بطورِ پتی استعمال کیا۔
چائے کی ایک اور قسم جسے ’’سبز چائے‘‘ کہا جاتا ہے، بعض قوموں اور قبیلوں کے نزدیک اس سبز چائے کا شمار اہم ترین مشروبات میں ہوتاہے۔ لیکن ہر قوم و قبیلہ کے قہوہ پیش کرنے کا انداز دوسرے سے مختلف اور جدا ہے۔ بعض تاریخی روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قہوہ چائے کی ابتداء حبشہ (موجودہ ایتھوپیا واقع براعظم افریقہ) کے’’ کافا‘‘ نامی علاقے سے ہوئی۔ اس کے بعد میلاد کے نویں سال قہوہ چائے رفتہ رفتہ حبشہ سے یمن کی طرف منتقل ہونے لگی۔ یمن منتقل ہونے کے بعد قہوہ چائے دھیرے دھیرے دنیا کے مشرقی ممالک میں مقبول ہوتی چلی گئی اور مشرقی ممالک میں قہوہ خانے قائم ہونا شروع ہوئے۔ یمنی شہر ’’بندقیہ‘‘ کے تاجروں نے قہوہ چائے کا کاروباروسیع کرتے ہوئے اسے جنوبی یورپ کے علاقوں میں میں بھیجنا شروع کیا اور پہلی مرتبہ سال 1615ء میں قہوہ یمن سے یورپ کی طرف منتقل ہوا ۔ چلتے چلاتے یورپ کے شمال وجنوب میں قہوہ چائے کا ڈنکا بجتا چلا گیا اور قہوہ چائے پھیلتی چلی گئی۔ یورپ کے بعد قہوہ چائے امریکا اور دوسرے ممالک میں میں بھی کاشت کی جانے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی پیداوار ا پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی اور چائے کی مختلف اور متعدد اقسام کی کاشت کا عمل شروع ہوگیا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ البیان کی رپورٹ کے مطابق اگر پوری دنیا میں پھیلے قہوہ چائے کی اقسام اور اس کی تیاری کے مختلف طریقوں اور پیش کش کے مختلف سلیقوں کو شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا۔
محمد غسان جو ملک یمن کے علاقے ’’شارقہ ‘‘ کے ’’لوید‘‘ نامی مشہور قہوہ خانے میں کام کرنے والا ہے، وہ کہتا ہے: ہمارے ہاں ترکی اور مختلف عربی قسم کی قہوہ چائے بنائی جاتی ہے لیکن لوگوں کا سب سے زیادہ شوق سے عربی قہوہ پیتے ہیں۔ اس کی بہ نسبت ترکی ودیگر قہوہ جات کے کی طرف لوگ بہت کم مائل ہوپاتے ہیں۔ محمد غسان کا مزید کہنا ہے کہ عربی قہوہ کا معاملہ اب ہمارے ہاں بالکل ایسا ہی بن چکا ہے جیسا ابتداء میں سادہ قہوہ کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے یہاںیہ ثقافت چل پڑی ہے کہ بڑے سے بڑے مہمان کے لئے اچھے سے اچھا عربی قہوہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رواج قاہرہ، استنبول اور مختلف عرب سوسائیٹیز اور صحراوں میں رائج ہے۔براعظم افریقہ کے شمالی شہر الجزائر کی ثقافت سبز قہوہ پیش کرنے کی ہے جو مہمانوں کے سامنے تازہ تر کھجوروں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ، معمر اور بزرگ حضرات کے سامنے سب سے پہلے گرم گرم قہوہ پیش کیا جاتا ہے، جو انتہائی مقبول روایت ہے۔
چینی سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو ایل ڈی ایل یعنی برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کو بڑھاتا ہے ۔ پنگ ٹم چان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے ہیمسٹرز لے کر ان کو زیادہ چکنائی والی خوراک کھلائی جب ان میں ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح بہت اونچی ہوگئی تو ان کو تین کپ سبز چائے چار پانچ ہفتے پلائی جس سے ان کی ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح نیچے آگئی ۔ جن ہیمسٹرز کو 15 کپ روزانہ پلائے گئے ان کی کولیسٹرال کی سطح ۔ کل کا تیسرا حصہ کم ہو گئی اس کے علاوہ ایپوبی پروٹین جو کہ انتہائی ضرر رساں ہے کوئی آدھی کے لگ بھگ کم ہو گئی ۔ میں نے صرف چائینیز کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے ۔
سبز چائے میں پولی فینالز کی کافی مقدار ہوتی ہے جو نہائت طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ یہ ان آزاد ریڈیکلز کو نیوٹریلائز کرتے ہیں جو الٹراوائلٹ لائٹ ۔ ریڈی ایشن ۔ سگریٹ کے دھوئیں یا ہوا کی پولیوشن کی وجہ سے خطرناک بن جاتے ہیں اور کینسر یا امراض قلب کا باعث بنتے ہیں ۔ سبز چائے انسانی جسم کے مندرجہ ذیل حصّوں کے سرطان یا کینسر کو جو کہ بہت خطرناک بیماری ہے روکتی ہے:مثانہ ۔ چھاتی یا پستان ۔ بڑی آنت ۔ رگ یا شریان ۔ پھیپھڑے ۔ لبلہ ۔ غدود مثانہ یا پروسٹیٹ ۔ جِلد ۔ معدہ ۔
سبز چائے ہاضمہ ٹھیک کرنے کا بھی عمدہ نسخہ ہے ۔ سبز چائے اتھیروسکلیروسیس ۔ انفلیمیٹری باویل ۔ السریٹڈ کولائیٹس ۔ ذیابیطس ۔ جگر کی بیماریوں میں بھی مفید ہے ۔ ریح یا ابھراؤ کو کم کرتی ہے اور بطور ڈائی یورَیٹِک استعمال ہوتی ہے ۔ بلیڈنگ کنٹرول کرنے اور زخموں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دارچینی ڈال کر بنائی جائے تو ذیابیطس کو کنٹرول کرتی ہے ۔ سبز چائے اتھروسلروسس بالخصوص کورونری آرٹری کے مرض کو روکتی ہے ۔

Comments

Click here to post a comment