ہوم << پانچ سال والا یا تین سال والا، صحیح راستہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

پانچ سال والا یا تین سال والا، صحیح راستہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

1096_96255163ان دنوں پاکستاں میں معاملات بظاہر معمول کے مطابق دکھائی دینے کے باوجود سینہ گزٹ کی خبروں ، پیشگوئیوں اور کسی بڑے ارتعاش کے دعووں سے لبا لب ہیں۔ کوئی آرہا ہے کوئی جا رہا ہے ، کوئی بیان جاری فرما رہا ہے اور کوئی بالکل خاموش ۔۔۔۔ اس سب گہما گہمی کے پیچھے دو ممکنہ مقاصد نظر آتے ہیں۔ :
1۔ پانچ سال والے کو تین سال پر ہی سمیٹ دینا
اور
2۔ تین سال والے کو چار یا چھ سال تک لے جانا۔
پاکستانی سیاست کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میری یہ رائے ہے کہ اگر یہ دونوں کام ہو بھی جائیں تو ان کا فائدہ اتنا نہیں کہ اس کے لیے ملک کو بے یقینی اور انتشار کی دلدل سے دو چار کیا جائے، وہ بھی ان حالات میں۔ اگر قرآن سے مثال مستعار لیں، تو ان کا نقصان ان کے فائدے سے بڑا ہے۔
کیسے ۔۔۔۔
اگر پانچ سال والے کو رخصت کر بھی دیا جائے تو موجود "مال" میں سے ہی کوئی آگے آئے گا یا لایا جائے گا۔ یہ سب کہیں نا کہیں حکومت میں ہیں اور "دیکھے بھالے" ہیں۔ کسی کی پرفارمنس بھی ایسی نہیں کہ "آؤٹ آف ٹرن پروموشن" کا حقدار ٹھیرایا جا سکے۔ گمان ہے کہ بمشکل 19/20 کے فرق کے ساتھ ویسا ہی سب رہے گا۔ واحد بڑی تبدیلی صرف شخصیت کے نام کی ہوگی لیکن اس کی خاطر ملک کا آئین اور اس پر عمل کا تسلسل ، دونوں ہی داؤ پر لگ جائیں گے۔ اتنے سے فرق کے لیے یہ بہت بھاری قیمت ہوگی۔
دوسری جانب ، تین سال والے کو چار یا چھ سال کا اس لیے کچھ خاص فائدہ ہونے کا امکان کم ہے کہ جس ادارے سے ان کا تعلق ہے اس میں سیلیکشن، ٹریننگ اور پروموشن کے ایسے کڑے معیار قائم ہیں ہیں کہ امید یہی کی جاتی ہے کہ ان کی جگہ لینے والے 19/20 کے فرق کے ساتھ لگ بھگ ویسے ہی ہوں گے اور واحد بڑی تبدیلی جو محسوس ہو وہ شاید شخصیت کے نام ہی کی ہو۔ اتنے فرق کے لیے ایک ڈسپلنڈ ادارے کے ڈسپلن کا امتحان لینا یا اس میں کسی درجہ کی بھی بد دلی کا موجب اقدام مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
دست بستہ گزارش ۔۔۔۔
1۔ پانچ سال والے سے :
اگر آپ شیر ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ شیر کی جس خاصیت کی وجہ سے اشرف المخلوقات خوشی خوشی ایک حیوان بن جانے پر راضی ہو جاتے ہیں وہ اس کا کچھار میں چھپ کر بیٹھ رہنا نہیں ہوتا۔ یہ وقت لیڈر بننے کا ہے، محض منصب دار رہنے کا نہیں۔ اسلام آباد پہنچیں اور ملک کی کمان سنبھالیں۔
دوم یہ کہ صرف سیاستدان بنے رہنے سے بھی گزارہ نہیں ہوگا۔ یہ وقت ایک مدبر، ایک اسٹیٹس مین بننے کا ہے۔ آپ کو ملکی معاملات دستور کی روشنی میں اور دستوری اداروں کے ساتھ مل کر چلانے ہیں۔ یہ نہیں کہ آپ اپنے ہی اداروں کو "سیدھا" کرنے کی فکر میں رہیں۔ ہر ٹیم کا شعیب اختر منہ زور بھی ہوتا ہے لیکن اچھا کپتان اس کے ساتھ چلتا ہے ، اسے اپنے ساتھ چلاتا ہے اور اسے ٹیم کے بہترین مفاد کے لیے بروئے کار بھی لاتا ہے۔ یہ حکمت، صبر اور وسعت قلبی کا میدان ہے۔ ماضی کی تلخی بھلائیں گے نہیں تو وہ آج بھی کڑواہٹ کا باعث ہی ہو گی۔ پاکستان کے Core Interests کو سمجھیے اور یہ بھی کہ ان کے سلسلہ میں متعلقہ بیوروکریسی اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تجاویز کلیدی کردار رکھتی ہیں کیونکہ وہ ریاست کی نمائندگی کرتی ہیں۔ آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے نظر آنے کے بجائے پاکستان کے حریفوں سے تعلقات بنانے کی فکر میں غلطاں نظر آئیں۔ ہو سکتا ہے یہ محض ایک تاثر ہو ۔ لیکن میڈیا کی اس دنیا میں تاثر حقیقت سے بھی زیادہ مضمرات کا حامل رہتا ہے۔
سوم ، دنیا میں اور ہمارے پڑوس میں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی رفتار غیرمعمولی ہے۔ حکومت اور اس کے معاون اداروں کو تبدیلیوں کی رفتار سے زیادہ سرعت سے ان کے عواقب کا اندازہ لگانا ہو گا ۔ اسی طرح ہم اپنے رد عمل کو متعلق رکھ سکیں گے۔ اس کے لیے میکانزم بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ ملک کے مستقبل کا قریباً مکمل انحصار اسی پر ہے۔
کچھار سے نکلیے اور سب سے پہلے خود کو "سیدھا" کیجیے۔
2۔ تین سال والے سے ۔۔۔۔
کسی سے پوچھا کہ کسی کی عظمت کا فیصلہ اس کے منظر عام سے ہٹنے سے پہلے کیوں صادر نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ۔۔۔۔ اس لیے کہ انسان ہے ، جاتے جاتے کچھ ایسا ویسا نہ کر جائے۔
دو راستے سامنے ہیں ایک جنرل مک آرتھر اور منٹگمری والا اور دوسرا ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا، جنہیں ایک طویل عرصہ کام کرنے کا موقع ملا لیکن ایک ادنی سی ذاتی آزمائش کے سامنے ڈھیر ہو گئے ۔۔۔ ذاتی اور ادارے کی نیک نامی کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا۔فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے

Comments

Click here to post a comment