سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پرامن سیاسی تبدیلی ممکن ہے؟
جی بالکل ممکن ہے..
لیکن اس کے لیے تبدیلی پسند جماعتوں کو اس اقتداری مافیہ کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی جو سیاستدانوں، سرمایہ داروں، بیوروکریٹس، جرنیلوں، علمائے سو، رانگ نمبر پیروں وغیرہ پر مشتمل ہے. یہی وہ استعماری گٹھ جوڑ ہے جو ہمارے ووٹر کو آزادانہ فیصلہ کرنے نہیں دیتا اور ہونے والے ہر الیکشن کے نتائج کو اپنے حق میں کر لیتا ہے.
تبدیلی پسند جماعتوں کو اس استعماری گٹھ جوڑ پر کاری وار کرنے کے لیے”متناسب نمائندگی“ کے انتخابی نظام کو رائج کرنے کے لیے اسمبلیوں سے لے کر عدالت عالیہ تک، اور عدالت عالیہ سے لے کر عوامی عدالت تک مسلسل اور بھرپور تحریک چلانی ہوگی.
احتساب کے بچگانہ نعرے کو ترک کرنا ہوگا، زمانہ جہالت کی ہر کرپشن اور زیادتی کو خلوص دل سے بھولنا ہوگا، سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا ہوگا تاکہ اقتداری، استعماری اور استحصالی طبقات میں موجود ”تائب تبدیلی پسند“ آپ کے کاروان انقلاب کا حصہ بن سکیں۔
اگر ہم ان تمام خرابیوں کے باوجود ہونے والے الیکشنوں میں تمام جماعتوں کو ملنے والے مجموعی ووٹوں کو مد نظر رکھتے ہوئے متناسب نمائندگی کے نظام پر غور کریں تو بڑی آسانی کے ساتھ اس مروجہ جمہوری نظام سے مسلسل مستفید ہونے والے استحصالی و استعماری طبقے کو شکست دی جا سکتی ہے.
مروجہ جمہوری نظام میں بہت سی اچھی جماعتیں اپنے سیاسی وجود کو بچانے کے لیے واضع اور دو ٹوک پالیسی اپنانے سےگریزاں نظر آتی ہیں، اور لگڑ بگڑ بنی پھرتی ہیں، اور دن بدن تبدیلی پسند سنجیدہ طبقے میں اپنی ساکھ کو مجروح کر رہی ہیں.
متناسب نمائندگی کے نظام کے فوری طور پر دو فوائد..
1- سیاسی جماعتیں سیٹ جیتنے والے لوٹوں کی خوشامد سے آزاد ہو جائیں گی۔
2- کافی حد تک ہمارا ووٹر اقتداری مافیہ کے گٹھ جوڑ سے آزاد ہو جائے گا اور اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کر سکے گا۔
تبصرہ لکھیے