ہوم << جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

کس کی آستین ، اور کونسا خنجر..ایک گرنیڈ پھینکو نہ رہے گی آستین اورنہ ہی لہو بچے گا، رہیں‌گےتوبس چیتھڑے اس زندہ قوم کے.
باقی رہا خنجرتواس کی قوت گویائی تو ان دھماکوں کی گونج میں‌کب کی سلب ہو چکی، بےچارہ اس دور کے انساں کی جلادی پرمہربلب سہما ہوا خود سے لگی توقعات پر بے وجہ ہی شرمندہ کسی کونے کھدرے میں‌منہ چھپائے بیٹھا ہے.
آرمی پبلک سکول پشاور جسے ہم نے سانحہ اے پی ایس کا نام دے رکھا ہے کی گونج سے ابھی کانوں کے پردوں کی لرزش تھمی نہیں‌تھی کہ کوئٹہ میں قوم کی خدمت کا عزم کرنے والے ماؤں کے لال، جنہوں نے ابھی صرف عزم ہی کیا تھا ،جنہوں نے ابھی اس یزیدی دنیا کے “پریکٹیکل تھپیڑوں” سے آشنائی اورانتہا پسندی کے بھڑکے ہوئے آتش کدے کی تپش کو محسوس ہی نہیں‌کیا تھا بڑے بڑے خواب آنکھوں میں‌سجائے دہشتگردی کے عفریت کا شکار ہو گئے.
لیکن ایسا ہوا کیوں؟ کس کے گناہ کا کفارہ ادا کیا ان پرعزم جوشیلے جوانوں نے. یہ تو اپنی جان دینے ہی نکلے تھے اپنے گھروں سے ان شہیدوں کی مائیں‌بھی یہ جانتی ہوں‌گی کہ ان کے بیٹوں نے جس مقدس پیشے کا انتخاب کیا ہے اس میں ایک نہ ایک دن ایسی خبر بیواؤں کی مانگ اور ماؤں کی نیندیں اجاڑنے آ ہی جاتی ہے تاہم کیا انہوں نے سوچا بھی ہو گا یہ زیرتربیت سپاہی جو ابھی جوبن پر پہنچے ہی نہیں جنہیں‌ابھی خود اپنی حفاظت کے طریقہ کار سے مکمل واقفیت نہیں انہیں‌ یوں بے موت قربان کر دیا جائے گا.
کون ہے اس دہشتگردی کا ذمہ دار، کس کی اتنی ہمت ہےکہ پاکستان کی دنیا کی بہترین افواج کے جاری آپریشن میں‌بھی ہمارے بچوں، بوڑھوں اورجوانوں کو مارنے چلے آتے ہیں، جتنی بھی احتیاطی تدابیر کر لی جائیں جتنے بھی ناکے، چیکنگ پوائینٹز، مورچے یا آپریشن کر لیں لیکن ابھی ایک زخم بھی ٹھیک سے بھرا نہیں‌ ہوتا کہ اسے پھر سے تازہ کر دیا جاتا ہے.
ابلتے لہو کے دھاروں نے پوری قوم کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے. اور اضطراب کیوں نہ ہو؟ جن کے بچے مرتے ہیں ان میں‌تو بس اضطراب ہی زندہ رہ جاتا ہےایک جھوٹی آس ایک امید پر سسکتے زندگی گزارتے ہیں‌کہ شاید کبھی ہمارے بچوں کے خون ناحق کا انصاف ہو سکے شاید کبھی تو اس درد کا مداوا ہو سکے اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو صدمے کی شدت سے سود و زیاں کے احساس سے بھی مبرا ہو جاتے ہیں مرنے والوں کے ساتھ گھر والے بھی مرجاتے ہیں بس ضروریات زندہ رہ جاتی ہیں زندہ لاشیں ایک دوجے کو دیکھتے ایک دوسرے کے لئے جینے کی کوشش میں سسک سسک کر اپنے زندہ لاشے گھسیٹتے رہتے ہیں.
سانحہ کوئٹہ بے شک ایک المیہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا ایک المیہ ہے کہ اس سانحے میں جام شہادت نوش کرنے والوں کو تو ایمبولینسیں‌بھی میسرنہ آ سکیں ان شیر جوانوں کے شہید لاشوں کو مسافر بسوں کی چھتوں پر رکھ کر بھجوایا گیا
protocol
جبکہ دوسری جانب اس سلطنت پاکستان کے بادشاہوں کو جب کوئی خطرہ ہوتا ہے، جو کہ انہیں‌ہمیشہ ہی ہوتا ہےتو ان کے ہمراہ پروٹوکول کے قافلے چلتے ہیں.سرکاری گاڑیوں کی ایک لمبی قطار جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہیں اسی “باشعور” عوام کے راستے روک کر فراٹے بھرتے گزر جاتی ہیں. کیونکہ یہ “بڑے لوگ” ہیں “اہم لوگ” ان کے سر پہ ملک چلتا ہے انہیں کچھ ہو جائے تو شاید ہمارا وطن “یتیم” ہو جائے گا تو پھر ان کا کیا جو اپنی جانوں کو مشقتوں کی بھٹی میں تپا کر فولاد بناتے ہیں اس وطن عزیر کی حفاظت کےلیئے ،ان جوانوں نے اپنے “ڈنڈ” نہیں دکھانے ہوتے اور اگر دکھائیں بھی تو اس طاقت کا مظاہرہ وطن کے دشمنوں کے لئے ہوتا ہے بادشوں کی بادشاہی کے مظاہرے کی طرح نہیں‌جودشمن سے “دیدہ دل فرش راہ کیئے” ملتے ہیں اور دشمن چاہے ملک پر حملہ بھی کر دے لیکن ایک مذمتی بیان جاری کرنے سے پہلے بھی لاکھوں روپے مشورے دینے کی مد میں‌لینے والوں کے تحفظات دور کرنے کے چکر میں‌پڑے رہتے ہیں‌اور”باشعور”عوام نگاہیں جمائے بیٹھی رہتی ہے کہ ابھی بادشاہ سلامت کوئی ایسا فرمان جاری کریں گے کہ جلتے کلیجوں میں‌ٹھنڈک اتر جائے گی .
لیکن یہ جمی ہوئی نگاہیں اسی امید پر جمے جمے پتھرا جاتی ہیں‌ اور بازی کوئی اور مار جاتا ہے. یہ جو سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہلالی پرچم ہے یہ تو ہم نے لہرانے کے لیئے بنایا تھا. پاک سر زمین شاد باد کا ترانہ پڑھتے اس معززپرچم کو فخر بھرا سیلیوٹ کرنے کیلئے لیکن یہ کیا…کہ ہمارا سبز ہلالی پرچم شہیدوں کی لاشوں پر لپیٹ لپیٹ کر اتنا خوں رنگ کر دیا گیا ہے اس کا سفید حصہ ہی نہیں بلکہ سبز بھی ان بچوں کے خون کی لالی میں‌ڈوب گیا ہے .
خون کی یہ لالی ہم سے لہو لہو لہجے میں‌پوچھتی ہے کہ اس پاک وطن پر چھاتے ہوئے سرخ اندھیروں کے بادل کب چھٹیں گے اس پرچم کا لہو اگلتا رنگ کب دھل کر ہلالی ہوگا؟
اس پرچم کے لئے جان دینے والوں‌کو “پروٹوکول” کب ملے گا ؟
یہ “بادشاہ” کب مسافر بسوں میں سفر کریں گے ..
آخر کب ہم جاگیں‌گے..کب تک “سانوں کی ” کی بین بجاتے رہیں گے ؟ “سانوں کی” جی کوئٹہ میں‌ہواجوبھی ہوا، پرہم تو محفوظ ہیں‌..پشاور میں‌ہوا تو “سانوں کی” ہم تو محفوظ ہیں‌،ہمارے بچے محفوظ ہیں ..
آخرمیں‌ دوخبریں آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں‌، دیکھتے ہیں ان خبروں میں‌چھپی شہیدوں کی چیخیں‌آپکے کانوں تک پہنچتی ہیں‌یا پھر وہی”سانوں‌کی” کی گردان کرتے دامن بچا جاتے ہیں.
پہلی خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلی کی توجہ گزشتہ مہینے ہی کوئٹہ کے ٹریننگ سینٹرکی گارے سے بنی بناء‌حفاظتی اقدامات کے پانچ فٹ کی دیواروں کی جانب مبذول کروائی گئی تھی ،جس پر انہوں نے جو ایکشن لیا وہ قوم کے سامنے ہے اور دوسری خبر یہ بھی ہے کہ اسحق ڈارنے “جاتی عمرہ” کے حفاظتی اقدامات کیلئے 75 کڑوڑ روپے کی مانگ کی ہے.
یہ “سانوں کی ” اب اور نہیں‌چلے گی، بے حسی کے اس دلدل سے نکلیئے کہ اس سے پہلے کوئی آپ کے “زندہ لاشے” سے ناک پر رومال رکھے اپنا پاک دامن بچاتے “سانوں کی ” کہتا ہوا گزر جائے

Comments

Click here to post a comment