ہوم << کیا عمران خان کو شکست ہوئی ہے؟ محمد عامر خاکوانی

کیا عمران خان کو شکست ہوئی ہے؟ محمد عامر خاکوانی

منگل کی سہ پہر فیس بک کھولی تو ہر جگہ یہی سوال بکھرا نظر آیا۔ کہیں اعلانیہ لفظوں میں اظہار، کہیں پر شاکڈ اور سیڈ کے علامات والے سٹیٹس، کہیں بغیر الفاظ کے حزن برستا نظر آیا۔ ناصر کاظمی کی زبان میں ”اداسی بال کھولے سو رہی تھی“۔ مسلم لیگ ن کے حمایتی جو رات تک گھبرائے ہوئے، چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے تھے، آج ان کی خوشی سمائے نہیں سما رہی تھی۔ پرجوش، خوشی سے سرشار سٹیٹس۔ کہیں پر انصافیوں کو چٹکیاں لی جارہی ہیں تو کسی جگہ طنز کے تیر برسا کر اگلے پچھلے حساب چکائے جا رہے ہیں۔
صاحبو! مسلم لیگ ن کے متوالوں پر تو کوئی حیرت نہیں کہ وہ اپنی خوشی اور غم میاں صاحب بلکہ زیادہ درست یہ کہہ لیں کہ شاہی خانوادے سے وابستہ کر بیٹھے ہیں۔ میاں صاحب کی مسکراہٹ سے ان کے متوالے پرستار کھل اٹھتے ہیں، میاں کے جگمگاتا چہرہ غبار آلود ہوجائے، پیشانی پر پسینہ اور مسکراہٹ غائب ہو تو مسلم لیگی متوالوں کے لیے وہ روز ماتم بن جاتا ہے۔ حیرت تو مجھے تحریک انصاف کے کارکنوں، حمایتیوں پر ہے کہ وہ کس بات پر اداس، فرسٹریشن کا شکار اور خود کو لوزر سمجھ رہے ہیں؟
جہاں تک میں پچھلے دو ہفتوں کے اخباری بیانات، ٹی وی انٹرویوز اور فیس بک سٹیٹس سے سمجھا ہوں، تحریک انصاف کے قائد، رہنما، کارکن اور حامی اپنی احتجاجی تحریک دو تین نکات کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہی ہے کہ پاناما لیکس کے بعد جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے جو وزیراعظم نوازشریف اور دیگر لوگوں کے خلاف تحقیقات کرے، جن کے نام پاناما لیکس میں آئے ہیں۔ تحریک انصاف کا شروع دن سے یہی مطالبہ رہا کہ فوری طور پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے جس کے ٹی او آرز ایسے ہوں کہ وزیراعظم کا نام تحقیقات کرنے والوں میں لازمی شامل ہو۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا یہی جواب اور دلیل تھی کہ چونکہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے بچوں کے نام آئے ہیں، وزیراعظم کا نہیں، اس لیے ان کے خلاف تحقیقات کا کوئی جواز نہیں، مسلم لیگ ن کمیشن بنانے پر تو رضامند تھی، مگر اس کے لیے وہ مطلوبہ قانون سازی کرنے کو تیار نہیں تھی اور وہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کو دانستہ اس قدر پھیلانے پر اصرار کر رہی تھی کہ تحقیقات کے بعد نتیجہ جلدی نہ نکل سکے اور وزیراعظم کے خلاف کچھ فائنڈنگ نہ ہوسکے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مسلم لیگ ن اپنے اتحادیوں اور پیپلزپارٹی جیسی فرینڈلی اپوزیشن پارٹی کے ساتھ مل کر ٹی ا و آرز کا معاملہ ہی اس قدر لمبا کھینچ گئی کہ دو تین ماہ اسی میں ضائع ہوگئے، پلاننگ غالباً یہی لگ رہی تھی کہ اس معاملے کو جتنا لمبا کھینچا جا سکے، کھینچا جائے، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی مدت ہی ختم ہوجائے۔
تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں ٹی او آرز ڈرامے میں ڈھائی تین ماہ ضائع کیے، جب اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ یہ سب ڈرامہ بازی ہے، جس میں پیپلزپارٹی بھی کھل کر شامل ہے اور متحدہ اپوزیشن کی چھتری دراصل میاں صاحب کو سپورٹ فراہم کرنے کے لیے ہے تو پھر عمران خان الگ ہوگئے۔ رائے ونڈ میں عمران خا نے ایک الگ جلسہ کیا۔ مزے کی بات ہے کہ اسی روز عمران خان کی خیبر پختون خوا میں اتحادی جماعت اسلامی نے فیصل آباد میں جلسہ رکھا اور تقریروں کا وقت کم وبیش بھی تحریک انصاف کے جلسے والا رکھا۔ عمران کا شو کامیاب رہا اور پھر اس نے اسلام آباد جانے اور شہر بند کرنے کی دھمکی دی اور پھر اس جانب عملی اقدامات بھی کیے۔
عمران خان اور تحریک انصاف پچھلے کئی روز سے ایک ہی بات کہتی رہی کہ میاں صاحب یا تو استعفا دیں یا پھر تلاشی دیں۔ تلاشی کی اصطلاح تحریک انصاف نے خاص طور سے گھڑی، مطلب اس کا یہی تھا کہ میاں صاحب جوڈیشل کمیشن بننے دیں اور اس کی تحقیقات کا سامنا کریں، سپریم کورٹ میں بھی تحریک انصاف اسی لیے گئی تھی، تاہم رائیونڈ جلسے کے بعد اس نے عوامی احتجاج کی پالیسی پر زیادہ فوکس کر دیا۔
اب یہ دیکھا جائے کہ آج ہوا کیا ہے؟ آج تین کام ہوئے۔
سپریم کورٹ نے ایک بڑے خوفناک ٹکراؤ کو روک دیا، حکومت کو کنٹینر وغیرہ ہٹانے کا کہہ دیا، تحریک انصاف کو ایک جگہ دے دی کہ وہاں اپنا احتجاج یا جو بھی کرنا ہے کرو، تیسرا اور سب سے اہم نکتہ یہ کہ پانامہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا مطالبہ مان لیا بلکہ اس کیس کی تیز رفتار سماعت کا عندیہ بھی دے دیا۔ کمیشن کے لیے حکومت وکیل کو صرف دو دن کا وقت دیا گیا، تین نومبر کو اگلی سماعت ہے اور توقع ہے کہ تیزرفتاری سے ایک بااختیار کمیشن بن جائے گا۔ اب وہ کمیشن کیا تحقیقات کرتا ہے، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے، نہیں ہوتا ہے، یہ ایک الگ ایشو ہے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اسی ایشو کو لے کر نہیں کھڑی ہوئی تھی کہ وزیراعظم تلاشی دیں یعنی پانامہ کے لیے کمیشن بنایا جائے۔ عدالت نے ان کا وہ مطالبہ مکمل کر دیا، ان کے لیے پرامن احتجاج کا بھی راستہ نکال دیا، حکومت اور انتظامیہ کو بھی تشدد اور جبر سے روک دیا۔ تو اس کے علاوہ تحریک انصاف اور کیا چاہتی تھی؟ یا عمران خا ن کو یو ٹرن خان کہنے والے کس حوالے سے تنقید کر رہے ہیں؟
یہ درست ہے کہ دباﺅ بڑھانے کے لئے عمران خان نے کئی سخت بیانات دیے، اسلام آباد لاک ڈاﺅن کرنے کی بات بار بار کی، جو کہ قطعی طور پر غلط تھا اور اس فقرے کی وجہ سے عمران خان پر تنقید بھی ہوتی رہی۔ میرے جیسے اس کے نیم ہمدرد بھی لاک ڈاﺅن یعنی شہر بند کرنے، انتظامیہ مفلوج کرنے کے زبانی بیانات کی مذمت اور اس پر تنقید کرتے رہے۔ ہمارا کہنا یہ تھا کہ عمران خان کو صرف جوڈیشل کمیشن کے لیے دباؤ پیدا کرنا چاہیے اور ایسا کچھ نہ کیا جائے، جس سے یہ سسٹم ڈی ریل ہوجائے۔
اگر عمران خان نے عقلمندی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتی مداخلت پر ہولناک ٹکراؤ کو روک دیا اور کل کے احتجاج کو یوم تشکر میں بدل دیا تو اس پر ناراضی کیسی؟ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ملک ایک بڑے ٹکراؤ سے بچ گیا اورایک پرامن، جائز، قانونی حل نکل آیا۔ اس پر تحریک انصاف کے حامیوں اور کارکنوں کو بھی خوش ہونا، سجدہ شکر بجا لانا چاہیے اور ن لیگی متوالوں کو بھی خوش ہونا چاہیے کہ کوئی بڑا ٹکراؤ، نقصان نہ ہوا اور پرامن حل نکل آیا۔
یہ یاد رہے کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ پانامہ کمیشن بنوانے والا معاملہ نہیں تھا اور وہ ہر صورت میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کا متمنی تھا تو پھر یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ ایسا صرف اس صورت میں ہوسکتا تھا جب کچھ لاشیں گرتیں، خون خرابہ ہوتا اور فوج مداخلت کر کے یا تو کھلا مارشل لا لگا دیتی یا پھر کوئی غیر آئینی کردار ادا کر تے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو باہر نکال باہر پھینکتی۔ اس کے سوا کوئی بھی قانونی، آئینی، جائز آپشن موجود نہیں۔
اس لیے عمران خا ن کو یو ٹرن کہنے والے، احتجاج ختم کرنے کے اعلان پر مایوس ہونے والے، تنقید کرنے والے کھل کر یہ بتائیں کہ وہ دراصل ملک میں خون خرابے، لاشیں گرنے اور مارشل لا کی خواہش رکھتے تھے۔ میاں نواز شریف سے ان کی نفرت اور بیزاری اس قدر پہنچ چکی ہے کہ وہ میاں صاحب کی حکومت ہٹانے کے لیے یہ سب کشت وخون اور پورا سسٹم ڈی ریل ہوجانا بھی قبول کرنے کو تیار تھے۔
ایسا شخص اگر کوئی ہے تو وہ سامنے آ کر بات کرے۔ خاکسار کی تو کبھی یہ رائے نہیں تھی، اسی لیے ہم عمران خان کے ضرورت سے زیادہ جارحانہ رویے پر تنقید کرتے رہے، دھرنے، شہر بند کرنے کی دھمکی کو غلط کہتے رہے اور اسے پرامن احتجاج کے لیے ہی کہتے رہے۔ عدالت کی مداخلت پر عمران خان کی طرف سے احتجاج ختم کر دینا میرے نزدیک تو بہت اچھا، مثبت اقدام ہے۔
جہاں تک اس پورے معاملے میں تحریک انصاف، حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، انہوں نے کیا کھویا، کیا پایا؟ یہ الگ سوال ہے، اس پر الگ سے بات ہوگی۔ سردست تو پاکستانیوں کو مبارک ہو۔ اللہ نے رحمت کی اور ملک بڑے ٹکراؤ سے بچ گیا۔ اس میں کسی کی فتح وشکست نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔ ویسے اگر اس میں شکست ڈھونڈنی ہی ہے تو وہ تمام فریقوں کو ہوئی ہے۔ فتح البتہ ملک کی ہوئی، آئین، عدلیہ اور جمہوریت کی ہوئی۔ اب آگے بڑھناچاہیے۔ کمیشن والے معاملے میں معمولی سی بھی تاخیر نہ کی جائے اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔