مشہور مقولہ ہے کہ وہم کی بیماری کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ یہ سولہ آنے درست بات ہے!
کوئی بھائی کسی وہم میں مبتلا ہو جائے تو سمجھئے بڑی مصیبت میں مبتلا ہو گیا… ایک ہفتے قبل ایک خاتون کا فون آیا کہ ان کا بیٹا صفائی کے خبط میں مبتلا ہے… اسے گندگی اور ناپاکی کا وہم ہو گیا ہے… یہ وہم اتنا تکلیف دہ ہے کہ صاحبزادے کے بار بار ہاتھ دھونے کی وجہ سے ہاتھوں کی کھال اترنے لگی ہے…
مختلف اوہام میں مبتلا مریض آپ احباب نے بھی دیکھے ہوں گے۔ اکثر لوگ ان کا مذاق اڑانے لگتے ہیں… مگر یہ بہت بری بات ہے۔ یہ ایک بڑی مصیبت ہے جس کا مذاق اڑانے کی بجائے اس میں مبتلا شدہ پر رحم کھایاکیجیے۔ انہیں ایک بیمار سمجھ کر ان کے لیے دعا کیا کیجیے، جیسے کسی اور جسمانی بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے کیا کرتے ہیں۔
فون سن کر ہمارے ہی محلے کا ہی ایک باریش نوجوان ذہن میں آ گیا، جوبے چارہ بھی وہم کا مریض تھا ۔ اسے وضو ٹوٹ جانے اور پھر وضو میں اعضائے وضو خشک رہ جانے کا وہم تھا۔ وہ بے چارہ ایسی تکلیف میں مبتلا تھا کہ دیکھ کر بے اختیار مصیبت زدہ کو دیکھ کر پڑھنے والی مسنون دعا لبوں پر آ جاتی۔ پہلے تو اس کا وضو ہی ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ جماعت کھڑی ہونے سے15 منٹ قبل اس کا وضو شروع ہوتا… دس پندرہ بار خوب مل مل کر چہرہ اس طرح دھویا جاتا کہ اوپر آدھے سر سے نیچے پوری گردن اور دائیں بائیں سے کان تو کہیں بہت پیچھے رہ جاتے، تقریباً گولائی میں سر دھل جاتا… دونوں ہاتھ کہنیوں تک نہیں بلکہ بلامبالغہ کندھوں کے قریب قریب تک دھوئے جاتے… پاؤں آدھی پنڈلی تک دھوئے جاتے اورمسنون طریقے سے تین تین بار نہیں، بلکہ دس دس بار دھوئے جاتے… کیوں؟…تا کہ بال برابر جگہ خشک نہ رہ جائے… بال برابر جگہ خشک تو کیا رہتی… اعضائے وضو کے اطراف کے سارے اعضاء کا بال بال بھیگ جاتا، کپڑے شرابور ہو جاتے اور یوں اللہ اللہ کر کے کم وبیش پندرہ آدمیوں کے وضو کرنے کے برابر پانی خرچ کر کے اس نوجوان کا وضو پورا ہوتا…
سارے نمازی تاسف سے یہ تماشا دیکھتے مگر وہ نوجوان اپنے میں مگن رہتا… شروع میں کچھ لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر تکرار ہو گئی تو امام صاحب کے کہنے پر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، کیوں کہ یہ بڑی بات تھی کہ ایسی مصیبت میں مبتلا ہونے کے باوجودنوجوان نماز باجماعت نہیں چھوڑتا تھا…!
اب آگے کی سنیے… وہم وہ بیماری ہے جس کا مناسب وقت پر، مناسب طریقے سے سدباب نہ کیا جائے تو وہ بڑھتی چلی جاتی ہے… سو وہ نوجوان پہلے وضو کرتے ہوئے مشقت اٹھاتا، پھر وضو کر کے جب مسجد میں داخل ہوتا تو جماعت کی آخری رکعت ہی مل پاتی… مگر یہاں سے اس بے چارے کا ایک نیا امتحان شروع ہو جاتا…اور وہ تھا وضو ٹوٹنے کا وہم…
وضو ٹوٹنے کا وہم ہوا اور وہ بھاگا وضو خانے میں… پھر وہی طویل تکلیف دہ سلسلہ شروع… اگر وضو ٹوٹنے کے وہم سے بچت ہو جاتی تو انفرادی نماز پڑھنے کی صورت میں نماز کے ارکان پورے ہونے نہ ہونے کے وہم اس بے چارے کو گھیر لیتے… بار بار تکبیر کے لیے ہاتھ اٹھانا،رکوع کی درستگی کے لیے اتنا جھکنا کہ سر، کمر سے نیچے ہو جائے… دونوں پیر قبلہ رخ رہیں (یعنی V کی شکل نہ بنے) کے لیے ایسا اہتمام کرنا کہ پیر الٹا ’وی ‘بن کر رہ جائیں… بار بار سورت پڑھنا اور اپنے کانوں تک آواز پہنچ جائے، اس کے لیے اتنی شدت اختیار کرنا کہ اپنے کان ہی نہیں، آگے پیچھے دو تین صفوں میں کھڑے نمازیوں کے کان میں بھی ایک ایک حرف پہنچ جائے… غرض اوہام کا ایک طوفان تھا جو دین کے پردے میں جاری رہتا۔
اسے دیکھ کر میرے لاشعور میں ایک انجانا سا خوف ابھرتا تھا… اور اسی خوف نے ہمیں اس سے بات کرنے کا حوصلہ دیا… سو ایک دن وہ نماز کے بعد دونوں ٹانگیں جوڑے، سر نیہوڑائے بے چارگی سے کسی سوچ میںگم بیٹھا ہوا تھا کہ میں نماز کے بعداس کے پاس جا پہنچا اور کھنکھارا…وہ ہنوز سر جھکائے بیٹھا رہا… تھکن اس کے انگ انگ سے عیاں تھی… تب آہستگی سے سلام کرتے ہوئے اسے چھوا تو وہ بری طرح چونک گیا(بات بے بات چونکنا وہم کے مریضوں کی ایک علامت ہے)۔ ہم نے مسکراتے ہوئے سلام کیا اورجانتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا۔
دوستانہ انداز محسوس کر کے اس کے ہونٹوں پر بھی ننھی سی مسکراہٹ کھل اٹھی۔ اس نے دھیرے سے اپنا نام بتایااورچٹائی کے تنکوں سے کھیلنے لگا۔
اس ملاقات میں ،میں نے اِدھر اُدھر کی بات کر کے اس سے ذرا انسیت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ حال احوال، تعلیم، مشاغل پوچھے ، اپنے بتائے … تا کہ اجنبیت دور ہو کر اک تعلق پیدا ہو جائے… سو ایسا ہی ہوا کہ دس پندرہ منٹ کی پہلی ملاقات کے اختتام پر اس کی جھجک قدرے ختم ہو چکی تھی اور اک تعلق پیدا ہو چلا تھا…
اس کے بعد ایک دو ملاقاتوں تک میں نے مزید احتیاط کی کہ اس خاص مسئلے کے بارے میں لب کشائی نہ کروں … کہ عموما وہمی حضرات اپنے وہم کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور اس پر بات کرنے سے ہمیشہ بچتے ہیں… بہرحال جب کافی شناسائی ہو گئی تو ایک دن باتوں کے دوران میں سرسری سے انداز میں یہ بات چھیڑہی دی… اس بابت بات سنتے ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے…اس نے موضوع بدلنا چاہا مگر میں دوبارہ بات اسی مسئلے پر لے آیا۔کافی کوششوں کے بعد جب اسے گویا یقین ہو گیا کہ میں اس کا مذاق نہیں اڑاؤں گا تو بالآخر اس نے کہا کہ وہ اس معاملے میں بالکل مجبور ہے۔ اسے وضو اور غسل میں اطمینان قلب حاصل ہی نہیں ہوتا… بار بار دھونے کے باوجود یہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ کوئی جگہ ہے جو دھلنے سے رہ گئی ہے، سو وہ ہنوز ناپاک ہے اور وہ نماز میں کھڑا نہیں ہو سکتا اور قرآن پاک کو ہاتھ نہیں لگا سکتا… جھجکتے ہوئے اس نے بالآخر یہ بھی بتا ہی دیا کہ وضو تو بعد کی بات ہے، اس سے قبل استنجے میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے کہ اچھی طرح استنجا کرنے کے باوجود ناپاکی کا خیال جاتا ہی نہیں… پھر نماز میں بھی طرح طرح کے اوہام گھیرے رہتے ہیں…
اس کی وضو اور نماز کی حالت تو ہم خود بھی بارہا دیکھ چکے تھے مگر اس نے جس بے چارگی سے تفصیل بتائی… اس کا دن میںکم ازکم پانچ بار تصور کر کے ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اف کیسی جاں گسل مصیبت میں گرفتار تھا وہ… کیسی مشقت تھی جو وہ اٹھا رہا تھا!…محض اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے…شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا مہربان ربّ اپنے پیارے بندوں سے ایسی مشقت نہیں چاہتا ، جس کی وہ سہار نہ رکھتے ہوں…اس کے، ہمارے ربّ نے تو اپنی رضا اس نہایت حسین اور آسان طریقے میں رکھ دی تھی جو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جاری فرمایا تھا، یعنی آپ علیہ السلام کی پیاری سنتوں میں… ہر عمل میں سنت کا اہتمام اس عمل کو خوبصورت اور کامل بنا دیتا ہے…اس سے کمی بیشی اللہ کو ناپسند ہے… مثلاً وضو میں ہر عضو کو تین بار دھونا سنت ہے … اور بس… اس سے زیادہ بار دھونا سنت نہیں، گو وضو ہو جائے گا مگر اللہ کی رضا نہیں ملے گی… اب اس مردود شیطان کی چالبازی دیکھیے کہ وضو نہ ہونے کا وہم دل میں ڈال کر سنت کے ثواب سے محروم کرتا ہے…
میں نے اسے یہی بات سمجھائی کہ تین بار دھونا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے… اس سے زیادہ بار دھونا سنت سے آگے بڑھنا ہے گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے جو بے ادبی ہے… اس لیے دل میں کتنی ہی بے اطمینانی ہو… شیطان کیسا ہی وسوسہ پیدا کرے کہ وضو نہیں ہوا… اسے کہو کہ تو بڑا آیا میرا ہمدرد… میرے نبی نے تین بار اعضائے وضو دھوئے تو میں بھی اتنی ہی بار دھوؤں گا…نہ ہو تو نہ سہی… میرے اللہ اسی کو قبول اور پسندفرماتے ہیں… ہم نے کہا کہ کتنے بھی وساوس گھیریں، خیالات آئیں… مزاحمت کرنی ہے اور سنت سے آگے نہیں بڑھنا ہے…اسی طرح نماز میں بھی دھیان اللہ کی طرف رکھنا ہے اور جہاں نظر رکھنے کا حکم ہے، وہاں ر کھنا ہے…اور ہر رکن میں سنت کا اہتمام کرنا ہے، اس سے آگے نہیں بڑھنا ۔
ایک ملاقات پر نہیں… مختلف ملاقاتوں میں، خوب گھل مل کر، باتوں باتوں میں اس کی ذہن سازی کرتے رہے… اسے دعاؤں کی ترغیب بھی دی اور اس کے لیے دعا بھی بڑھا دی۔ساتھ ہی اسے کسی اچھے نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے بھی راضی کیا… فورا ً تو ان باتوں کا کوئی اثر نہیں دیکھا مگر پھر کئی ہفتوں کے بعد آہستہ آہستہ مثبت اثر نظر آنے لگا… قصہ مختصر! مستقل رابطوں سے، دوستی لگا کرانتہائی محبت سے بات سمجھاتے رہنے سے اتنا فائدہ ہوا کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے مرض کو مرض سمجھنے بھی لگا اور ان اوہام کاکسی قدر مقابلہ کرنے لگا ۔
وضو میں آہستہ آہستہ وقت اور پانی کم ہونے لگا اور مجموعی طور پر صورت حال تسلی بخش ہو گئی۔ ہمارے نزدیک وہ خطرے سے باہر آ گیا تھا … جیسے خطرناک جسمانی امراض میں مبتلا مریض آئی سی یو میں ہو ، پھر مریض کی حالت خطرے سے باہر قرار دے دی جائے اور اسے عام جنرل وارڈ میں منتقل کر دیا جائے۔ بالکل ایسے ہی وہم کے مریض بھی جوں جوں ان کا وہم کا مرض ترقی کرتا جاتا ہے، وہ ایمانی لحاظ سے خطرے میں آتے چلے جاتے ہیں۔ ایک نوجوان کا بہت برا حال ہم بہت پہلے دیکھ ہی چکے کہ برسوں اس مصیبت میں مبتلا رہا اور آخر ایک دن دیکھا کہ اللہ کی پناہ داڑھی منڈی ہوئی اور مسجد سے ایسا دور ہوا کہ پھر کبھی نظر ہی نہیں آیا!
درخواست ہے کہ اپنے آس پاس کوئی ایسا بھائی یا بہن نظر آئے تو اس کے ساتھ ہمدردی کیجیے نہ کہ اس کا مذاق اڑائیے۔ یہ بھی دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے۔ کوشش کیجیے کہ کسی اچھے کنسلٹنٹ کو دکھا دیا جائے۔مزید نرمی اور حکمت سے آہستہ آہستہ ذہن سازی کی کوشش کیجیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی اور ہمارے بچوں کی ہر جسمانی، ذہنی ، نفسیاتی و روحانی مرض سے حفاظت فرمائے اور جو ہمارے مسلمان بھائی بہن ایسے امراض میں گرفتار ہیں، انہیں شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے آمین۔
تبصرہ لکھیے