جمہوری ہڑبونگ کی کارستانیوں میں، ایک بچی کے سامنے اس کے والد کو تھپڑ مارنا، وہ بھی فاضل وکیل کا،
اور پنڈی میں ایک نومولود کا آنسو گیس سے دم توڑنا،
لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کا لازمی نتیجہ ہیں.
بیٹی کے لیے سب سے آئیڈیل اور سب سے مہان ہستی سب سے زیادہ محفوظ شیلٹر اس کا باپ ہوتا ہے، زندگی کی دھوپ میں باپ ہی بیٹی کا وہ شجر سایہ دار ہے جس کی چھاؤں کے مان پر وہ زمانے کی چلچلاتی دھوپ سے لڑتی ہے۔ باپ بیٹی کا وہ آئیڈیل ہوتا ہے جس کی خمیدہ کمر کو وہ تلوار تیر کمان سمجھتی ہے اور باپ ہی”دشمن“ سماج کے مقابلے میں اس کا اسلحہ ہوتا ہے.
مولانا ابو عیسی صاحب نے ایک دفعہ جب میں ان کے ساتھ سفر میں تھا میری بیٹی کا فون آنے پر کہا،
نوفل! ”میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ باپ کی اصل اولاد تو بیٹیاں ہوتی ہیں۔“
لارڈ میکالے کے نصاب کے قانون دان نے تھپڑ نہیں مارا بلکہ ایک بیٹی کا اسلحہ تلف کیا۔ ایک بیٹی کا سایہ دار درخت کاٹ دیا۔ ایک بیٹی کے آئیڈیل کو اس کے سامنے ذلیل کیا۔
پتہ ہے کیوں کیا؟
عمران خان صاحب کی کال پر، جمہوریت کی بقا کے لیے، نواز شریف کی تلاشی کے لیے، اپنا وزارت عظمی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے۔
اگر یہ وکیل اس آدمی کو فقط بچی کو سکول چھوڑنے جانے کے جرم میں قتل کر دیتا تو مجھے دکھ تب بھی ہونا تھا لیکن مجھے آج اس کی تذلیل پر اس کے قتل سے زیادہ دکھ ہے۔
وہ قتل ہوجاتا تو میں دل کو تسلی دیتا کہ جمہوریت جیسی ”نعمت“ کے حصول میں قربانی تو دینی پڑتی ہے۔ لیکن انصاف کے متوالے اور قانون کے رکھوالے اور عمران خان کے جیالے نے تبدیلی کے استعارے اور عقل سے پیادے نے بیٹی کے سامنے باپ کو تھپڑ مار کر اس بیٹی کو زندہ درگور کیا ہے.
مجھے ان ریاستی سپاہیوں پر بھی دکھ ہے جنہوں نے پرسوں عمران کے یوتھ فیسٹول پر ہلہ بولا اور عورتوں کو مارا،گھسیٹا، بال نوچے، ہاتھ لگایا۔
یہ سب جہالت ہے، ابوجہل کی فکری وراثت ہے، یہ بنت حوا پر ہونے والا ظلم سیکولر اور لبرل الفاظ گھسیٹوں کو نظر نہیں آئے گا کیونکہ یہ سب ماسی جمہوریت اور اس کے کارندے کر رہے تھے.
اشتہار میں تھرکنے پر اعتراض کے خلاف تو ان کی آنتوں میں انفیکشن ہوگیا تھا، حقوق نسواں خطرے میں پڑگئی تھی مگر یہاں چار سو خاموشی رہی۔
مجھے افسوس ان عزت مآب والدین پر بھی ہے جو انجانے میں اس اخلاق سے عاری اور اصول سے خالی مفاداتی جنگ میں ان ”آبگینوں“ کو بھیج رہے ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کی مفاداتی جنگ آپ کے جذبات کے کندھوں پر سوار ہوکر کھیلی جارہی ہے، اس لیے جان کر جیو۔
تبصرہ لکھیے