یہ کہانی نہ صرف حکایات کے مجموعے میں شامل ہے بلکہ دنیا کے اکثر علاقوں میں لوک کہانی کے طور پر موجود ہے۔ مگر کمال ہے کہ ہر زمانے میں ایک نئے انداز میں اس کہانی کو سمجھا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک علاقے پر بڑا زبردست بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کو نئے نئے تجربوں اور کاموں کا شوق تھا۔ اس دور میں ہمسایہ ممالک سے تجارتی قافلے اور سوداگر لوگ آتے تھے۔ ہنر مند آتے تھے۔ اسی دور میں ایک ہمسایہ ملک کے بادشاہ کے دربار سے کچھ لوگ آئے، انھوں نے بادشاہ کو بتلایا کہ وہ کپڑے بنانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں، بادشاہ نے ان سے کہا کہ میں ایک ایسا لباس چاہتا ہوں جو کبھی کسی نے نہ پہنا ہو، انھوں نے کہا کہ ہم ایسا لباس تیار کر دیں گے جو اس سے پہلے کسی نے نہ پہنا ہو۔ چنانچہ بڑے زور و شور سے اس لباس کی تیاری کی گئی۔ اس دور کے مؤرخوں نے متفقہ طور پر حیرت انگیز طریقے سے اس لباس کی تعریف لکھی ہے۔ ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ بہت سے بادشاہوں نے طرح طرح کے خوبصورت دھاگوں سے لباس تیار کروایا مگر یہ اعزاز اسی عظیم بادشاہ کے حصے آیا کہ اس نے غیر مرئی دھاگوں سے اپنے لباس کو تیار کیا۔ ایک دوسرا مورخ لکھتا ہے کہ دوسرے کپڑے انسان کے اپنی قدرتی خوبصورتی کو چھپا دیتے ہیں مگر اس لباس کی خاصیت یہ تھی کہ یہ بادشاہ کی اپنی خوبصورتی کو نہیں چھپاتا تھا۔ ایک تیسرا مؤرخ لکھتا ہے کہ اس لباس کا خاصا یہ تھا کہ اس کے کمال کاریگری کو دیکھنے کے لیے انسان کو ایک خاص طرح کا زاویہ نظر چاہیے تھا جوکہ ہر انسان کو میسر نہیں تھا۔
جب بادشاہ یہ بے مثل لباس پہن کر نکلا تو ہر درباری نے کمال انداز میں اس کے لباس کی تعریف کی۔ رعایا کے معتبر لوگوں کو دارالحکومت میں قطار در قطار کھڑا کیا گیا۔ درباریوں نے ان کو بتلایا کہ بادشاہ ایک خاص لباس زیب تن کرکے آرہے ہیں آپ کا فرض ہے کہ آپ اس لباس کی شان میں کچھ نہ کچھ کہیں۔ انھوں نے بتلایا کہ یہ ہمسایہ ملک سے خاص کاریگر آئے ہیں، یہ دو سلطنتوں کی دوستی کا مسئلہ ہے، آپ اس لباس کی تعریف کریں۔ کچھ درباریوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں ترقی اور خوشحالی کے لیے موجودہ بادشاہ کا وجود بہت ضروری ہے اس لیے کوئی غیر ذمہ دار بات زبان سے نہ نکالیں۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ جب بادشاہ عوام کے درمیان آیا تو اس کا لباس دیکھ کر عوام کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کئی لوگوں کی زبان سے کچح لفظ نہ نکل سکا۔ لباس کی خوبصورتی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے ہوش ہی گم ہو چکے تھے، وہ حواس باختہ ہو کر دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں کچھ باکمال اور باہوش لوگ ایسے تھے جنہوں نے بادشاہ کے لباس کی شان اور عظمت بیان کرنے میں سبقت حاصل کی، ایسے میں بادشاہ کی نظر ایک دور کھڑے بچے پر پڑی جو بڑی حیرت سے بادشاہ کو دیکھ رہا تھا۔ بادشاہ کو بچے کے دیکھنے کا انداز بہت پسند آیا۔ اس نے اپنے ایک مصاحب کو حکم دیا کہ اس بچے کو بادشاہ کے سامنے لایا جائے۔ بہت سے درباریوں نے بادشاہ کو روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ بچے نادان ہوتے ہیں، وہ شاہی پروٹوکول سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے اس بچے کو نہ بلایا جائے مگر بادشاہ نے بچے کو بلایا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس بچے نے اپنی نادانی، کم عمری، ناتجربہ کاری اور کم علمی کے باعث ایسی کم عقلی کی بات کی جو اس کی ناپختگی کو ظاہر کرتی تھیں مگر اس سے بادشاہ کو سخت شرمندگی ہوئی اور اس نے محل واپسی کا فیصلہ کیا۔ مؤرخ بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ بعض اوقات نادان اور کم علم لوگ کسی عالی مرتبہ بادشاہ کی رنجش کا باعث بنتے ہیں۔
مگر لوک کہانی لکھنے والے درباری مؤرخوں کی طرح مصلحت کے پابند نہیں ہوتے، وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا ننگا پن کتنے ہی طریقوں سے کیوں نہ چھپایا جائے، کوئی نہ کوئی بندہ ایسا سامنے آجاتا ہے جو مصلحت اور شاہی آداب کے تقاضوں کو نہیں جانتا ہوتا اور بتلا دیتا ہے کہ بادشاہ ننگا ہے۔ اس کے بعد بادشاہ کتنے ہی پردوں اور غلافوں کو اپنے اوپر کیوں نہ چڑھا لے، رعایا کو علم ہو جاتا ہے کہ ہمارا بادشاہ ننگا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اب بادشاہت کا دور ختم ہوچکا۔ میڈیا میں ایسے ایسے دانشور ہیں جو حکمرانوں کو ناگریز ثابت کرتے ہیں اور اس نے جو اپنے اوپر غلاف چڑھائے ہوتے ہیں، ان کے بارے مباحثے اور مذاکرے کرتے ہیں، مگر پھربھی کسی نہ کسی طرف سے یہ خبر لیک ہوجاتی ہے کہ بادشاہ ننگا ہے اور جب ایک دفعہ یہ خبر لیک ہوجائے تو پھر جو بھی جتن کرلیا جائے، عوام سے یہ چھپایا نہیں جا سکتا کہ بادشاہ ننگا ہے۔
تبصرہ لکھیے