بدقسمتی سے برصغیر کے مسلمان عمومی طور پر اسلام کے قوانین اور احکامات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے زندگی کے بہت سے معاملات میں غیر اسلامی قوانین اور رسوم و رواج پر عمل پیرا ہیں اور کئی مواقع پر گناہ کبیرہ کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ خراب حالت اُن مسلمانوں کی ہے جو اقلیت میں ہونے کی وجہ سے غیر مسلم حکمرانوں کے تسلط میں ہیں اور قانون سازی کے اختیارات میں اُن کا کوئی نمایاں حصّہ نہیں ہے اور عدلیہ بھی اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اسلام کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں۔ ان مسلمانوں میں بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متنازعہ جموں و کشمیر کے اُس خطّے میں بسنے والے مسلمان بھی شامل ہیں جس پر بھارت قابض ہے۔ بھارت کے سنگھاسن اقتدار پر فی الوقت جس تنظیم کا تسلط ہے وہ اسلام دُشمنی کے لیے بدنام زمانہ ہے اور بھارت کے مسلمانوں کی دینی شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہے، اگرچہ اس سلسلے میں کانگریس کے دور حکومت میں بھی مسلمانوں پر کافی ظلم ہوا ہے۔ بر صغیر پاک وہند کی تقسیم سے قبل ہی ہندوستان میں انگریز حکمرانوں نے 1937ء میں مسلم پرسنل لا کے نام سے ایک قانون وضع کیا تھا جس کے تحت مسلمانوں کو اپنے عائلی معاملات میں شرعی احکامات کے تحت عمل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس اور جن سنگھ جیسی ہندوتوا فلسفے کی حامل تنظیموں نے مسلمانوں کی دینی شناخت کے ساتھ ساتھ اُن کے وجود کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر سازشیں رچائیں اور ہزاروں کی تعداد میں فرقہ وارانہ فسادات کروا کے لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا، اُن کی بستیوں کو تاراج کیا، اُن کے کاروبار کو برباد کروایا، اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے دھکیل دیا تا کہ وہ مجبور ہو کر اپنی شناخت سے ہی دستبردار ہو کر، آر ایس ایس کے منصوبے کے مطابق ہندو راشٹر کا حصہ بنیں اور ہندوانہ رنگ میں اپنے تہذیب وتمدن کی تشکیل نو کا سلسلہ شروع کریں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہندو فرقہ پرست تنظیمیں اپنی گھناونی سازشوں کو عملانے میں ناکام رہیں اور مسلمان دینی لحاظ سے دن بدن بیدار ہوتے گئے اور اسلام کے قریب تر آنے لگے۔ اس سلسلے میں جہاں ادارۂ دیوبند اور دیگر مکاتب فکر سے وابستہ علماء اور درسگاہوں کا ایک اہم رول رہا وہیں پر اقامت دین کے نصب العین کی حامل ایک عالمگیر تنظیم ’’جماعت اسلامی‘‘ نے بھی نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ درسگاہوں، خطابات اور لٹریچر کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام کی اہمیت اور بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا گیا۔ اگر چہ اس سلسلے میں قابل قدر کام کیا گیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
دنیا میں چند دین بیزار نظریات کو وقتی طور پر فروغ ملا اور مسلمانوں کا ایک طبقہ ان نظریات کی زد میں آگیا خاص کر جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان گمراہ کن نظریات سے زیادہ متاثر ہوگیا اور اس طبقے نے ان دین دُشمن نظریات کو مسلمانوں میں بھی پھیلانے کی جی توڑ کوشش کی لیکن اس محاذ پر جماعت اسلامی علی الخصوص مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے تیار کردہ لٹریچر نے وہ کام کیا جو ایک مضبوط بند سیلاب کے وقت انجام دیتا ہے اور اس طرح عام مسلمان اللہ کے خاص کرم سے گمراہی کے اس طوفان سے بچ نکلے۔ اس لٹریچر نے دین بیزاری کے اس طوفان کو توڑ کر رکھ دیا مگر دین بیزاری کے مہلک جراثیم ابھی بھی مسلم معاشرے میں موجود ہیں جن کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کی اشاعت سے ہی بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں دین پسند تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ علماء کرام اور انشوران ملت کی انتھک اور مخلصانہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے تا کہ دور دراز دیہات میں بسنے والے عام لوگ بھی دین کی حقیقی تعلیمات سے آشنا ہوں اور دین مخالف نظریات اور اعمال سے مسلم معاشرے کو پاک کیا جاسکے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور جہاں اس میں ایک انسان کی کامیاب اور پُر سکون زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی موجود ہے وہیں پر اس میں معاشی، معاشرتی، عائلی اور سیاسی شعبوں کے لیے بھی اصولی قوانین موجود ہیں۔ عائلی زندگی میں نکاح، طلاق، وراثت، وصیت، نان ونفقہ وغیرہ اہم شعبہ جات کے متعلق مفصل قوانین قرآن وسنت اور تعامل صحابہ کرام ؓ سے اخذ کیے گئے ہیں لیکن ان کے متعلق عامۃ المسلمین کو اتنی جانکاری حاصل نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے جس کے سبب ان معاملات میں مسلمان غیر شرعی طور طریقے کے عادی ہوگئے ہیں اور جاہلی رسوم ورواج پر عمل پیرا ہیں۔ آج کل بھارت کے لا کمیشن نے آر ایس ایس کے ایجنڈا کے ایک اہم حصّہ کو عملانے کی خاطر ’’جنسی مساوات اور برابری‘‘ کا ایک گمراہ کن نعرہ کھڑا کیا ہے جس کا اصلی ہدف ’’مسلمانوں کا عائلی قانون‘‘ ہے اور اسی نعرے کی آڑ میں اس قانون کو منسوخ کروا کے، مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو زک پہنچانا ہے۔ اس طرح عالم انسانیت میں مسلمانوں کی امتیازی پہچان کو ختم کروانا ہے۔ ایک طرف بھارتی لا کمیشن نے ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کی خاطر تگ و دو کا آغاز کیا ہے دوسری طرف عدالتوں کے ذریعے مختلف بہانوں کے ذریعے مسلمانوں کی دینی شناخت کو ختم کروانے کی سازشوں کو بھی عملانے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ کبھی ’’تعداد ازدواج‘‘ کا مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے اور کبھی ’’سہ طلاق‘‘ کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اور عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا رونا رویا جاتا ہے۔ اس کے لیے مسلمان سماج میں ایسے افراد تیار کیے جاتے ہیں جن کو نام کے بغیر اسلام کے ساتھ کوئی نظریاتی یا عملی وابستگی نہیں ہوتی ہے اور انہی کے ذریعے اسلامی قوانین کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ کریم چھاگلہ، عارف خان، شاہنواز حسین، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین جیسے نام کے مسلمان استعمال کیے جاتے ہیں جو نہ صرف اسلام کی حقانیت کے منکرہیں بلکہ ایسے لوگوں نے دہریت اور ارتداد کے تمام حدود بھی پار کیے ہوتے ہیں۔
یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو اس کے حقیقی مقام اور عزت و وقار سے ہم کنار کیا ہے۔ نکاح بھی ان ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہے جو عورت کی فطری ترقی اور عزت و ناموس کے محافظ اور ضامن کا کام انجام دیتے ہیں لیکن وہ نکاح جو مرد و عورت کے درمیان محبت و مودّت قائم کرنے میں ناکام ہوتا ہے اور اُن کے وقار و شرف کے لیے باعث ضرر بن جاتا ہے تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ایسا نکاح قائم رکھنا باعث فتنہ و فساد ہی بن جاتا ہے اسی لیے ایسے نکاح سے خلاصی کے فطری طریقے بھی انسانی فطرت کے خالق نے خود عطا فرمائے ہیں۔ انہی طریقوں میں سے مرد کے لیے ایسے باعث ضرر ملاپ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر ’’طلاق‘‘ کا اختیار دیا گیا ہے۔ مخصوص الفاظ کے ساتھ قید نکاح کو فی الفور یا بالنتیجہ اٹھا دینے کو طلاق کہتے ہیں۔ شوہر کی جانب سے اصالتاً یا وکالتاً، نیابتاً یا تفویضاً مخصوص الفاظ کے ساتھ یا بالکنایہ، فی الفور یا بالنتیجہ، رشتۂ ازدواج ختم کرنے کا نام طلاق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کے متعلق یہ خبر دی ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند حلال (جائز کام) طلاق ہے۔
طلاق کی کئی قسمیں ہیں، بہ لحاظ کیفیت اور بہ لحاظ تاثیر،
بہ لحاظ کیفیت طلاق کی دو قسمیں ہیں، (۱)مسنون طلاق اور (۲) غیر مسنون طلاق
بہ لحاظ تاثیر طلاق کی تین قسمیں ہیں، (۱) طلاق رجعی، (۲) طلاق بائن صغریٰ اور (۳) طلاقِ بائن کبریٰ (مغلظہ) ۔
طلاق سنت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق ایسے طریقہ پر دی جائے جس کو آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ نے پسند فرمایا۔ اس طریقہ پر طلاق دینے سے کوئی ثواب نہیں ملتا البتہ موجب گناہ نہیں بنتا! طلاق دینے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی زوجہ مدخولہ ایسے طہر (حیض سے پاک ہوجانے کے بعد کا زمانہ) میں، جس میں اس سے صحبت نہ کی ہو اور نہ کوئی طلاق دی ہو اور نہ اس طہر سے قبل حیض میں طلاق دی ہو، ایک رجعی طلاق دے، پھر اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے یا اگر حاملہ ہوتو وضع حمل ہوجائے۔ اس طلاق کو طلاق احسن کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو طریقۂ طلاق بہتر سمجھا جا تا ہے وہ طلاق حسن ہے یعنی شوہر اپنی زوجہ مدخولہ کو ایسے طہر میں جس میں اُس سے صحبت نہ کی ہو ایک رجعی طلاق دے۔ پھر دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔ اس طرح تین طہر میں تین طلاقیں مکمل ہوں گی۔
طلاق بدعت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق ایسے طریقہ پر دی جائے جس کو آنحضورﷺ اور صحابہ ؓ نے پسند نہیں فرمایا ہے۔ ایسی طلاق جمہور مسلمانوں کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے البتہ موجب گناہ ہے۔ اگر ایسے وقت میں طلاق دی جائے جب عورت حالت حیض میں ہو تو یہ غیر مسنون ہے مگر جمہور علماء (مذاہب اربعہ) کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایسے طہر میں طلاق دینا بھی غیر مسنون اور موجبِ گناہ ہے جس میں شوہر اپنی زوجہ سے صحبت کر چکا ہو۔ ایسے ہی ایک ہی طہر میں ایک طلاق دینے کے بجائے دو یا تین طلاقیں دینا بھی بدعی طلاق میں شامل ہونے کی وجہ سے موجب گناہ ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک طلاق ہوجاتی ہے۔ بیک وقت تین طلاقیں دینا عورت کے وقار کے خلاف ہے اور ایسا کرنا عورت کی عزت نفس کو زبردست زک پہنچانے کے مترادف ہے۔ عورت چونکہ ایک انسان ہے جس طرح کہ مرد، لیکن اس طرح طلاقیں دینا عورت کو ایک بازاری کھلونا سمجھنے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی توہین آمیز سلوک ہے جو کہ زن و شوہر کے مقدس رشتے کے شایان شان نہیں ہے۔ اس لیے ایسے شخص کے ساتھ رشتہ قائم رکھنا، رشتہ کے تقدس کے خلاف ہے۔ جب کوئی شخص اپنی زوجہ کو بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو جمہور فقہا کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی لیکن شیعہ زیدیہ کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی اور شیعہ امامیہ کے نزدیک کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ اسی طرح ظاہر یہ صرف ایک طلاق واقع ہونے کے قائل ہیں۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اپنی زوجہ کو بحالت حیض ایک طلاق دی۔ پھر ارادہ کیا کہ باقی دو قروء میں آخری دو طلاقیں دیں کہ حضور اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی۔ آپﷺ نے فرمایا : اے ابن عمر تم نے سنت کے خلاف کیا، پھر ان کو اپنی زوجہ سے رجوع کا حکم دیا، حضرت ابن عمرؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ ! یہ فرمائیے کہ اگر میں اپنی زوجہ کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے رجوع کرنا حلال ہوتا؟ حضورﷺ نے فرمایا: ’’نہیں! وہ تم سے بائنہ (جدا) ہوجاتی اور یہ عمل معصیت ہوتا ‘‘۔ (السنن الکبری۔ بیہقی)
بیک وقت تین طلاقیں دینا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک غیر مستحسن اور اخلاقی نقطہ نظر سے بھی ایک بُرا فعل ہے لیکن اس فعل کے کرلینے یعنی تین طلاقیں دینے سے وہ طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور اس کا وہ فعل اپنے اثر ونتیجے کے اعتبار سے لازم ہوجائے گا۔
جہاں تک مسلمانوں میں طلاق دینے کے طریقوں کا تعلق ہے تو بیشتر طلاقیں افہام وتفہیم کے ذریعے دی جاتی ہیں۔ فریقین کی طرف سے چند معززین افہام و تفہیم کے ذریعے ازدواجی تعلقات میں پیدا شدہ دراڑوں یا تلخیوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور جہاں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور حالات بھی تقاضا کرتے ہیں کہ ازدواجی تعلقات میں پیدا شدہ تلخی کو ختم کرنا بس سے باہر ہے تو اُس صورت میں باہمی تصفیہ کے ذریعے نکاح کو فسخ کیا جاتا ہے۔ مرد کی طرف سے طلاق کے اختیار کا استعمال بہت ہی کم بلکہ اگر کہا جائے نایاب ہے، تو غلط نہیں ہوگا۔ میاں بیوی کے درمیان مناقشات کو فریقین سے وابستہ ذی عزت لوگوں کی مداخلت کے ذریعے دور کرنے کا طریقہ عام ہے۔ بہت ہی کم معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں۔ عدالتی کارروائی کی طوالت سے تنگ آ کر فریقین باہمی رضامندی سے ہی ایسے تنازعات ختم کرتے ہیں۔ یہی طریقہ مسلمانوں میں عام ہے اور احسن ہے۔ فسخِ نکاح کے اسی طریقے کو عوام طلاق کہتے ہیں حالانکہ طلاق دینا مرد کے حدِ اختیار میں ہے اور شریعت نے اس اختیار کے استعمال کا ایک بہترین طریقہ فراہم کیا ہے کہ اگر مسلمان اُس پر عمل کریں تو تمام پریشانیوں سے نجات حاصل کریں گے۔
قرآن مجید میں واضح ہدایت ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی زوجہ کو طلاق دینا چاہتا ہے تو اُس طہر میں صرف ایک طلاق دے جس میں اُس نے اپنی زوجہ سے کوئی صحبت نہ کی ہو، پھر اُس کے بعد تین طہروں کا انتظار کرے، پھر یا تو متعلقہ زوجہ کو احسن طریقے سے رکھ لے یا احسن طریقے سے رخصت کرکے اپنے سے جُدا کرلے یعنی عدت کی مدت گزرنے تک وہ مرد اُس عورت کو دی گئی طلاق کو قولاً یا فعلاً رد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد بھی اگر دونوں فریق باہم رضامند ہوں تو وہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں اور ایک خوشحال زندگی بسر کرکے اپنے گھر کو منتشر ہونے سے بچاسکتے ہیں۔ طلاق دینے کا یہ طریقہ سب سے بہتر ہے اور تمام مسلمانوں کو اس طریقے کی حقیقت سے روشناس کرانے کی ذمہ داری علماء کرام اور خطباء حضرات پر عائد ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طہر میں طلاق دینے کے بعد مرد اپنی زوجہ سے صحبت کرتا ہے تو یہ طلاق غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر دوسرے طہر میں دوسری طلاق بھی دے اور دوران مدتِ عدت طلاق دینے والا مرد متعلقہ بیوی سے صحبت کرے تو اُس صورت میں بھی طلاق کالعدم ہوجاتی ہے البتہ اس طرح ایک یا دو طلاقیں دینے کی صورت میں مدتِ عدت گزرنے کے بعد ایسا مرد متعلقہ عورت سے خلوت یا صحبت نہیں کرسکتا ہے جب تک کہ باہمی رضامندی سے یہ دونوں دوبارہ نکاح نہ کرلیں جس طرح عموماً نکاح انجام دیا جاتا ہے۔ نکاح کے بغیرصحبت کرنا، زنا تصور ہوگا۔ یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر کوئی مرد اپنی زوجہ کو مسلسل تین طہروں میں تین بار (ہر طہرمیں ایک بار) طلاق دے دے تو اُس صورت میں یہ طلاق غیر رجعی مغلظ بن جاتا ہے یعنی جب تک مطلقہ عورت کسی اور مرد سے باضابطہ نکاح نہ کرلے اور وہ مرد (دوسرا خاوند) اُس عورت کو معروف طریقے سے طلاق نہ دے یا وہ عورت اپنے دوسرے خاوند سے منعقدہ نکاح سے شرعی طریقے پر گلو خلاصی حاصل نہ کرلے یا اُس کا دوسرا خاوند مر نہ جائے، تب تک ایسی عورت پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرنے کی مجاز نہ ہوگی۔ اس لیے مسلمانوں کو اس بات کی جانکاری فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ طلاق احسن کا طریقہ ہی اختیار کرلیں، اگر انہیں کسی وقت اپنی ازواج کو طلاق دینے کی ناگزیر مجبوری ہی ہو۔ یہی مسنون اور پسندیدہ طریقہ ہے اور باقی طریقے اختیار کرنا مصائب ومشکلات کے بھنور میں اپنے آپ کو پھنسانے کے مترادف ہے۔ نیز طلاق کے اختیار کا استعمال صرف اُسی صورت میں ہونا چاہیے جب صلح کی تمام راہیں مسدود ہوں۔
یاد رہے کہ جب شوہر اپنی مدخولہ عورت کو طلاق دے تو اُس طہر جس میں طلاق دی گئی ہو اُس کے بعد تین حیض تک کی مدّت کو عدّت کہا جاتا ہے۔ البتہ وہ مطلقہ عورت جس کو بوجہ کم سنی، کبرسنی، مرض یا کسی اور وجہ سے حیض نہ آتا ہو، اُس کے مدت عدت تین ماہ ہے۔ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے، اُس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ حاملہ کی عدت وضعِ حمل تک ہے چاہے تین ماہ ہو یا کم یا زیادہ! اگر شوہر نے طلاق رجعی دی اور عدت کے دوران مرگیا تو عورت پر وفات کی عدت واجب ہوگی یعنی تاریخ وفات سے چار ماہ دس دن! یاد رہے کہ عدت تفریق طلاق یا وفات کے وقت سے واجب ہوتی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ تاریخ تفریق یا وفات اچھی طرح یاد رکھی جائے۔ اگر دورانِ عدت شوہر مر جائے تو عورت اپنے شوہر کی وراثت میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی حقدار ہے بشرطیکہ طلاق رجعی ہو! دورانِ مدت عدت متعلقہ مطلقہ عورت دوسرا نکاح نہیں کرسکتی ہے البتہ دخول سے قبل طلاق یا تفریق کی صورت میں زوجہ پر عدت واجب نہ ہوگی اور ایسی عورت طلاق یا تفریق کے بعد ہی نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ جب تک عدت باقی ہے نکاح بھی باقی رہتا ہے بشرطیکہ طلاق رجعی ہو۔ رجوع کرنے کے لیے نہ معاوضہ کی ضرورت ہے اور نہ عورت کی رضامندی کی۔ مستحسن طریقہ یہ ہے کہ مرد طلاق اور رجوع، دونوں اوقات پر دوگواہ بنالے جس طرح نکاح کے وقت دو گواہ بنائے جاتے ہیں۔ یہی مسنون اور پسندیدہ طریقہ ہے۔ یعنی زبان سے اقرار کر لے کہ وہ طلاق دیتا ہے یا رجوع کرتا ہے اور یہ اقرار کرتے وقت دو گواہ حاضر رکھے۔ یہی سب سے اچھی صورت ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں تیسرا حیض اگر برابر دس روز کا ہو تو حیض سے پاک ہوتے ہی مرد کے لیے رجوع کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ طلاق رجعی کی صورت میں اگر مرد یا عورت میں سے کوئی دورانِ عدت فوت ہوجائے تو دوسرا وراثت میں سے بحیثیت شوہر یا بیوی کے اپنا حصہ پانے کا حقدار ہوگا۔ طلاق بلا دخول، طلاق بالعوض (خلع) یا طلاق ثلاثہ کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا ہے اور ایسی طلاق کو طلاق بائن کہتے ہیں، پہلی دو صورتوں یعنی طلاق بلا دخول یا خلع کی صورتوں، دونوں کی باہمی رضامندی کے ساتھ نکاح ثانی ہوسکتا ہے۔
دوران حیض طلاق دینا، ایک ہی طہر کی مدت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے صحبت (مجامعت) کی ہو اسی طہر کے اندر بیوی کو طلاق دینا، اسی طرح دوران نفاس طلاق دینا، غیر مسنون اور انتہائی ناپسندیدہ طریقے ہیں جن کو اختیار کرنے سے ایک مرد سخت گنہگار ہو جاتا ہے اور اگر اسلامی حکومت ہو تو مستوجب سزا بھی ہوسکتا ہے لیکن ایسی طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور جمہور علماء کے نزدیک ایسی طلاقیں مؤثر ہیں۔ اسی طرح ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں، تین ہی شمار ہوں گی الا یہ کہ طلاق دینے والے کی نیت صرف ایک طلاق دینے کی ہو اور صرف تکرار کی خاطر اُس نے تین بار لفظ طلاق استعمال کیا ہو اور یہ وہ ثابت بھی کردے۔ اسلام سے قبل زمانے میں ایک عورت کی نہ کوئی مستوجب حیثیت تھی اور نہ کوئی سماجی وقار بلکہ اس کو لذت کی شے یا بازاری مال سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے دنیا کو صاف صاف بتا دیا کہ مرد اور عورت ایک ہی جنس ہیں اور ایک ہی نفس سے پیدا کیے گئے ہیں، مرد عورت کا سہارا ہے اور عورت مرد کے لیے ایک سہارا ہے۔ مرد کے بغیر عورت کی زندگی نامکمل ہے اور عورت کے بغیر مرد کی زندگی نامکملً، بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں، البتہ میدان کار الگ الگ ہیں۔ مگر فطری طور پر مرد کو جسمانی اعتبار سے عورت پر فوقیت حاصل ہے اور اسی باعث مرد کو عورت کی نگرانی سونپی گئی ہے، اور اُس کے تمام لوازمات پورا کرنے کی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی۔ عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا گیا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے لیے امن سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے۔ ماں عورت ہی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ حق اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، ماں کا ہی ہے۔ گھر کے اخراجات پورا کرنے کی خاطر، کمانے کی ذمہ داری بھی مرد پر ہی ہے اور عورت کا کام گھر کا اندرونی نظام سنبھالنا اور بچوں کی صحیح تربیت کرنا ہے۔ اس لیے عورت کا بذات خود واقف کار اور تربیت یافتہ ہونا ناگزیر ہے۔ اسی لیے اُس مسلمان باپ کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جو اپنی بیٹیوں کی صحیح اور درست تربیت کرے اور اُن کو دینی و دنیوی علوم سے آراستہ کرے۔
اسلام پر اعتراضات جُڑنے والے اکثر لوگ متعصب، ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں اور وہ مسلمانوں کی اپنے دین سے عدم واقفیت کی بنا پر ان اعتراضات کا ہوا کھڑا کرتے ہیں تاکہ ایسے مسلمانوں کے دلوں میں شک و شبہ کے بیج بوئے جائیں اور اس طرح اُن کی اسلام پر عقیدت کو متزلزل کیا جاسکے۔ یہ شیطان کا پُرانا حربہ ہے، لوگوں کو گمراہی کے دلدل میں پھنسانے کا لیکن شیطانی حربے ہمیشہ ناکام رہ جاتے ہیں بشرطیکہ اہل ایمان اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں سے واقف ہوں اور اس بات پر انہیں یقین ہو کہ اللہ کا دین ہی حقیقت ہے اور اس میں کسی کمی یا کوتاہی کا پایا جانا ہر حال میں ناممکن ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور طلاق یا تفریق جب بھی واقع ہوجاتی ہے تو اس میں دونوں فریقین کی باہمی گفتگو بھی شامل ہوتی ہے۔ بیک وقت ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا غیر مسنون طریقہ مسلمانوں میں شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے دشمنان اسلام ’’سہ طلاق‘‘ کا ہوا کر کے جس طرح اعتراضات کرتے ہیں اس میں صاف بدنیتی عیاں ہے۔ ہمیں دُشمنوں کا آلۂ کار بننے کے بجائے آپسی اتحاد واتفاق کو مزید مستحکم کرنا چاہیے اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر دین کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مسلم پرسنل لا، اسلامی نظام حکومت کے قیام تک ہماری شناخت ہے اور اس شناخت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض عین ہے۔
اللہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا کرے، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(زاہد علی ایڈووکیٹ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ترجمان ہیں اور اس وقت سب جیل کوٹھی باغ سری نگر میں قید ہیں. دوران قید ہی دلیل کےلیے یہ خاص تحریر بھجوائی ہے)
تبصرہ لکھیے