ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سادہ سی باتیں بھی سمجھانا، کھول کر بتانا پڑتی ہیں۔ اسی لیے میں شعرکبھی نقل نہیں کرتا کہ اکثر شعر کے بعد اس کی تشریح بھی کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے لوگوں کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اخبار کے کالم، ویب سائٹ کے بلاگ اور فیس بک کے اسٹیٹس میں کیا فرق ہے۔ تو بھائی لوگو دوسروں کا پتہ نہیں، اپنے بارے میں یہ وضاحت کر رہا ہوں تاکہ ہر بات کا تناظر واضح ہوسکے۔
میں اخبارروزنامہ دنیا میں کالم لکھتا ہوں، عام طور پر ہفتے میں تین، کبھی ایک آدھ رہ بھی جاتا ہے۔ پیر، جمعرات اور ہفتہ کو میرے کالم شائع ہوتے ہیں۔ کبھی کسی صحافتی مجبوری سے ایک آدھ دن آگے پیچھے بھی ہوجاتاہے، مگر عمومی طور پر میرے یہ دن ہیں۔ جب یہ کالم شائع ہوجائے تو اسی دن دوپہر یا شام تک میں اپنا کالم فیس بک وال پر پوسٹ کر دیتا ہوں، یہ بتا کر کہ یہ میرا آج کا کالم ہے، آج کل تو میں اس کے ساتھ اخبار کا لنک بھی لگاتا ہوں اور عام طور سے مکمل متن پیسٹ نہیں کرتا تاکہ اخبار کی ویب سائٹ کے لنک تک وزٹ کر سکیں، مفتا لگانے والے کم از کم کالم کے لنک پر تو کلک کریں، اتنا تو حق بنتا ہے ان کا۔ 🙂
کالم لکھتے ہوئے میں اپنی بساط کے مطابق کچھ غور وفکر بھی کرتا ہوں، بعض اوقات ایک دو دوستوں، سینئر تجزیہ نگاروں سے بھی بات کرتا ہوں، کبھی مختلف سٹیشنز کے بیوروچیف اور مقامی صحافیوں سے بھی بات کی جاتی ہے، کوئٹہ ، پشاور کے کسی واقعہ پر وہاں کے مقامی صحافی سے بات ضرور ہوتی ہے۔ زبان و بیاں کا بھی کچھ خیال رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ کالم زیادہ اہم، حساس اور ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ اخبار ہمیں اپنی سپیس دیتا ہے، جس کا استعمال بڑی احتیاط اور ذمہ داری سے ہونا چاہیے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ وہاں تحریر میں توازن کا خاص خیال رکھا جائے۔ ظاہر ہے اس توازن کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ اپنی رائے کھل کر نہیں دی جائے گی، جہاں ضروری سمجھا جاتا ہے بہت کھل کر پوزیشن بھی لی جاتی ہے، ویسے بھی کالم میں کالم نگار کی ذاتی رائے ہی ہوتی ہے، اگرچہ اخبار کی پالیسیوں کا خیال رکھنا بھی کالم نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو کالم رک بھی جاتے ہیں اور ایڈٹ بھی ہو جاتے ہیں۔
بعض اوقات میں فیس بک نوٹ لکھتا ہوں، پہلے اسے کسی ویب سائٹ جیسے اردو ٹرائب، آئی بی سی اردو یا ہم سب کو بھیج دیتا تھا، دلیل ڈاٹ پی کے، کے بعد اب صرف دلیل ہی کے لیے بلاگ یا مضمون لکھتا ہوں۔ یہ بلاگ ظاہر ہے میری ذاتی رائے ہوتی ہے، مگر اسے اخباری کالم سے مختلف سمجھنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کالم کے ہمیں پیسے ملتے ہیں جو جواباً محنت کرنے پر اکساتے ہیں۔ بلاگ مفت سروس ہے، رضاکارانہ بنیاد پر ہم آپ دوستوں کے لیے لکھتے، اپنا قیمتی وقت صرف کرتے اور بعد میں بیگم کے شکووں کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ آپ لوگوں کی محبت ہے کہ اسے پڑھتے اور پھر اپنی وال پر شیئر بھی کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کی یہ محبت نہ ہو تو واللہ میں تو کبھی بلاگ لکھنے کی زحمت نہ کروں، کالم ہی اتنی توانائی نچوڑ لیتا ہے کہ کچھ اور لکھنے کا جی ہی نہیں کرتا۔ میرے بلاگ کی کم از کم زبان و بیاں پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ میری اب بری عادت بن گئی ہے کہ بلاگ وغیرہ میں فیس بک کی عام زبان لکھ ڈالتا ہوں، پروف کرنے کی خود کبھی زحمت نہیں کی اور املا تک درست کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ بس لکھا اور بھیج دیا۔ اب ویب سائٹ والے خود محنت کرتے پھریں۔ 🙂 بلاگ میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی کسی پرانے کالم کو بھی ری پروڈیوس کر دیا جاتا ہے، کوئی موقع محل کی مناسبت سے لکھی پرانی تحریر میں ایک آدھ پیرا ڈال دیا جاتا ہے۔ اخبار کے کالم میں یہ ممکن نہیں۔ خاص کر وہاں کسی دوسرے اخبار کا لکھا کالم تو کسی بھی صورت میں نقل نہیں کیا جا سکتا۔
تیسری صورت ہے فیس بک سٹیٹس۔ یہ ہر لکھاری کا ہائیڈ پارک ہے۔ کوئی بھی کالم نگار ہو، ادیب یا تجزیہ نگار، اس کے پروفیشنل روپ کے ساتھ اس کی ذاتی شخصیت بھی ہے۔ کچھ اس کی پسند، ناپسند ہے، اس کے تعصبات بھی ممکن ہیں۔ یہ سٹیٹس آدمی کھل کر لکھتا ہے، بغیر کسی کارپوریٹ دباؤ، سنسر پالیسی کے خوف سے، کوئی پسندیدہ شعر، کوئی اقتباس، کوئی ویڈیو، کھل کر کیا گیا کوئی تنقیدی تبصرہ، قدرے بےتکلف، کھلا ڈلا تبصرہ، بولے تو سلینگ، کہیں ٹپوری لینگویج بھی درآتی ہے۔ یہ فیس بک ہے، فلیش رائٹنگ، انسٹنٹ ری ایکشنز، آپ اپنی فیس بک پوسٹ کو ڈیلیٹ بھی کر سکتے ہیں، اسے مذاق میں ٹال بھی سکتے ہیں۔ اخبار کا کالم تو ریکارڈ ہے، تاریخ ہے۔ ویب سائٹ کا بلاگ بھی آپ کی اپنی ملکیت نہیں رہتا۔ اس پر ہر قسم کا کمنٹ، تبصرہ آ سکتا ہے۔
اتنی ساری تفصیل یہ سمجھانے کے لیے بیان کی کہ میرے کالم، بلاگ اور فیس بک سٹیٹس میں فرق کریں اور سمجھیں۔ فیس بک سٹیٹس کے دو حصے ہوسکتے ہیں، ایک اپنی وال پر کی گئی کوئی پوسٹ، دوسرا کسی اور کی وال پر کیا گیا کمنٹ۔ دوسرے کی وال پر کیے گئے کمنٹ کی حیثیت مختلف ہے، اسے زیادہ احتیاط سے کرنا چاہیے، صرف اپنا نقظہ نظر دے کر ہٹ جانا چاہیے، کسی دوسرے کی وال پر مناظرہ شروع کر دینا غلط اور نہایت نامناسب ہے۔ ہاں اپنی وال پر آدمی جو مرضی کرے۔
اب اگلا مرحلہ ہے ان کے لیے جو میری وال پر آتے ہیں۔ بھائی جی! میں نے تو کسی کو اپنی وال پر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا، فیس بک رکویسٹ نہیں بھیجی اور ظاہر ہے فالو کرنے کی آپشن بھی آپ لوگوں نے خود ہی اختیار کی۔ میری وال پر آپ آئیے، بسم اللہ۔ میری پوسٹ، سٹیٹس اور پوسٹ کیے گئے کالموں کے کمنٹس میں کیے گئے میرے وضاحتی کمنٹس آپ ضرور پڑھیں۔ اتفاق ہے تو سر دھنیں، نہیں تو اپنا نقطہ نظر دے دیں، کہیں پر کوئی بحث چل رہی ہے تو اس میں اپنی رائے دے دیں، ایک دو کمنٹس دے کر پھر ہٹ جائیں، اسے مناظرہ نہ بنائیں، بحث ہائی جیک نہ کریں۔ آپ کو اس موضوع پر بولنے، اپنا بھاشن سنانے کا من کر رہا ہے تو اپنی وال پر جا کر وہ پوسٹ لکھیں، جس کو دلچسپی ہوگی، وہ آپ کے تھریڈ پر اکٹھا ہوجائے گا۔ میری وال پر میرا تھریڈ، میرے اصول ہی چلیں گے۔ میں اپنی وال کو اپنے ڈرائنگ روم کی طرح سمجھتا ہوں، جس میں بدتمیز شخص کا داخلہ ممنوع ہے، اسے فوراً نکال باہر کیا جاتا ہے۔ باقی یہ بھی یاد رکھیں کہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ کی کیا رائے ہے، میں اس کا احترام کرتا ہوں، مگر بہرحال وہ آپ کی اپنی وال پر ہی آنی چاہیے ۔ میں اگر اپنی وال پر بھی آپ لوگوں کے ڈر سے اپنی آزادانہ رائے نہیں دوں گا تو پھر کہاں دوں گا۔ کسی کو حق نہیں کہ مجھے میری وال کے آداب سکھائے یا ڈکٹیٹ کرائے۔ آپ نواز شریف کے حامی ہیں، ہوتے رہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، مگر میں تو اپنی رائے ہی دوں گا، جو مجھے اچھا یا برا لگتا ہے، آپ مجھے قائل کرنے کی زحمت نہ فرمائیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کے دلائل کا مجھے علم نہیں تو آپ سخت غلطی پر ہیں۔ ہم اپنی آرا اپنے تجربات، افتاد طبع اور ذوق کی بنا پر بھی اختیار کرتے ہیں۔ فیس بک رائٹنگ میں یہ خاص طور سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے میں کسی دوست سے اس کی وال پر جا کر سیاسی مباحث میں نہیں الجھتا۔ رعایت اللہ فاروقی میرے دوست ہیں، ان کے لیے میرے دل میں محبت ہے، زاہد مغل کی علمیت، ان کی منطق کا میں معترف ہوں، ن لیگ کے حوالے سے ان کی رائے بہت پختہ، واضح اور آسانی سے تبدیل نہ ہونے والی ہے، اس لیے میں نے ان کے کئی سٹیٹس سے شدید ترین اختلاف کے باوجود کبھی ان سے ان کی وال پر بحث نہییں کی۔ مجھے کوئی ایسی خوش فہمی نہیں کہ میرے پاس ایسے اچھوتے دلائل ہوں گے، جو انہوں نے کبھی نہیں سنے اور وہ ان سے مسخر ہوجائیں گے۔ یہ بچگانہ سوچ ہوتی ہے۔ دوستوں کی سوچ کا احترام کرو، جہاں لگے کہ اگر بحث کی گئی تو تلخی پیدا ہوجائے گی، وہاں بحث کرو ہی ناں۔ چپکے سے گزر جاؤ، ضروری تو نہیں کہ دوست کی ہر پوسٹ سے اتفاق ہو یا پھر وہ آپ کو خوش کرنے کے لیے ہی پوسٹ کرتا ہو۔ ہر شخص کی مختلف ایشوز پر مختلف آرا ہوتی ہیں، جو آرا پسند آئیں ان کو شیئر کریں، جن پر لگتا ہے ہے کہ لکھنے والا اوپن ہے، مکالمہ ہوسکتا ہے تو پھر نہایت شائستگی سے مکالمہ کیا جائے۔ جہاں دیکھے کہ رائے پختہ اور واضح ہے، وہاں ایک آدھ سے زیادہ کمنٹ نہیں دینا چاہیے۔ خوش دلی سے رخصت ہوجائیں۔ یہ وہ آداب ہیں جو اب ہم سب کو سمجھنا چاہییں۔
میں واحد کالم نگار ہوں جس نے فیس بک پر اتنا وقت دیا۔ اپنے کالموں کی تفہیم میں بسا اوقات تین تین چار چار کالموں کے قریب نوٹس اور کمنٹس لکھتا رہا۔ سینکڑوں گھنٹے ضائع کیے۔ اب مجھے اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں، ان سے جتنا مرضی بحث کی جائے، کوئی فائدہ نہیں۔ جو طالبان کو دنیا کی سب سے بڑی برائی سمجھتے ہیں، انہیں آپ تصویر کے جتنے مرضی رخ دکھا دیں، وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں سے میں بحث نہیں کرتا۔ جو لوگ بہت زیادہ تنگ کریں، انہیں سکون سے بلاک کر کے جان چھڑاتا ہوں۔ اس بلاک آپشن نے میری زندگی آسان اور پرسکون بنا دی ہے۔ بعض اوقات کوئی سٹیٹس یہ سوچ کر بھی لگاتا ہوں کہ کوئی دریدہ دہن سامنے آئے تاکہ اس پر بلاک کا ہتھوڑا مارا جا سکے۔ یہ اختلاف رائے برداشت کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ کج بحثی کرنے والوں سے جان چھڑانے کا طریقہ ہے ۔
تبصرہ لکھیے