خبر ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں نے مکہ کی طرف بیلسٹک میزائل فائر کیا، مکہ کے اطراف نصب اینٹی میزائل سسٹم نے جسے تباہ کردیا۔
میزائل حملے کی نیویارک ٹائمز میں خبر
http://www.nytimes.com/aponline/2016/10/27/world/middleeast/ap-ml-yemen.html?_r=0
میزائل حملے کی ویڈیو
https://twitter.com/realroyhunter/status/791842691948670976
یہ یمن میں جاری جنگ میں ایک نئی اور خطرناک پیش رفت ہے۔اس سے اس بات کی بھی یاد دہانی ہوتی ہے کہ یمن میں جاری تنازعہ علاقائی ہے اور سعودی عرب کا یہ مؤقف درست ثابت ہوتا ہے کہ اس جنگ کا آغاز سے ہی ہدف وہی ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی بیلسٹک میزائل فائر کر رہے ہیں اور وہ غالباً یہ کام سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے ساتھ تعاون کے ذریعے کر رہے ہیں اور ان کے پاس روسی ہتھیار موجود ہیں۔
ان حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں یمن میں تنازعے کی راہ ہموار ہوئی اور جب سعودی عرب کی قیادت میں عرب خلیجی اتحاد نے مداخلت کی تو اس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تنقید میں درست طور پر یہ اشارہ بھی کیا گیا تھا کہ قبائلی تنازعات میں الجھے ہوئے اس پہاڑی ملک میں جنگ کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔ سعودی عرب نے چار سال تک تنازعے کے پُرامن حل کی کوشش کی تھی۔ یہ عمل ابتدا میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن یمن کی کل آبادی کے 15 فی صد سے بھی کم کی نمائندگی کرنے والے حوثیوں نے سمجھوتے کی خلاف ورزی کی اور یہ امن منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اس کے بعد انھوں نے بزور طاقت دارالحکومت صنعا پر چڑھائی کردی، اس پر قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کی۔ حوثیوں کے صنعا پر قبضے کے بعد بھی بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ سعودی عرب صورت حال کو کنٹرول کرسکتا ہے یا وہ اس کو بالکل نظرانداز کردے، اپنی سرحدوں کو بند کردے اور یمنیوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دے لیکن حوثیوں نے بعد میں طاقت کے ذریعے عملی طور پر قریب قریب تمام یمن پر قبضہ کر لیا۔ یوں پہلی مرتبہ علاقائی محاذ آرائی کے دوران میں سعودی عرب کے جنوب میں واقع ملک ایران کی جھولی میں جا گرا۔
یہ کم وبیش اس وقت ہوا جب ایران عراق، سعودی عرب کے شمال اور شام کو کنٹرول کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ اس کے علاوہ وہ بحرین اور سعودی عرب کے مشرقی خطے میں بھی گڑ بڑ پھیلانے کی کوششیں کر رہا تھا۔ سعودی عرب کو تین اطراف سے گھیرنے کے لیے ایران کے منصوبے کو سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ حوثیوں کے صنعا میں اقتدار پر قبضے کے بعد یمن ایرانیوں کے لیے ایک فوجی اڈا بن گیا۔ حوثی لبنانی حزب اللہ کی طرح تہران کے لیے ایک ملیشیا بن گئے۔ ممکن ہے کہ اس جغرافیائی سیاسی تجزیے کی بنیاد پر بھی سعودی عرب اور اس کے اتحادی اس جنگ میں شامل نہ ہوتے۔ پھر ہوا یہ کہ حوثی باغیوں نے یمنی فوج کے ہتھیاروں اور فوجی آلات پر بھی قبضہ کر لیا۔ ان میں سکڈ میزائلوں کا ذخیرہ بھی شامل تھا۔ یہ سعودی عرب کے قلب کے لیے خطرہ بننا کی صلاحیت رکھتے ہیں۔گذشتہ سال کے اوائل میں، میں نے ایک مضمون لکھا تھا اور اس میں بتایا تھا کہ سعودی عرب کی جنوبی سرحد کے ساتھ واقع شہر ہی حوثیوں سے درپیش خطرے سے دوچار نہیں ہوں گے بلکہ وہ دور دراز واقع شہر جدہ تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
روسی سکڈ ڈی میزائل 800 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنگ کے آغاز میں سعودی فضائیہ نے اس اڈے کو نشانہ بنایا تھا جہاں یہ میزائل رکھے گئے تھے مگر یہ بھی یقین کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض میزائلوں کو خفیہ جگہوں پر بھی ذخیرہ کیا گیا ہے۔
اسی ہفتے ایک سکڈ ڈی میزائل 700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے طائف میں آ کر گرا ہے۔ یہ شہر صوبہ مکہ میں واقع ہے اور سعودی عرب کا قلب شمار ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاعی نظام نے اس میزائل کا سراغ لگا لیا تھا۔ اپنی نوعیت کی یہ پہلی پیش رفت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یمنی جنگ کوئی داخلی مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ بہت سے لوگ یقین کرتے ہیں بلکہ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یمن سعودی عرب کے خلاف ایران کا ایک فوجی اڈا بن چکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور یہ محض اس نظریے کی بنیاد پر ایک تجزیہ نہیں ہے کہ یمن میں مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعہ ہے۔ جب ایران نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ تخلیق کی تو اس کا مقصد بھی لبنانی مزاحمت کی مدد کرنا نہیں تھا جو جنوبی لبنان کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے جاری تھی۔ حزب اللہ ایران کے لیے ایک ہر اول فوجی قوت کے طور پر ابھری تھی۔ اس کو وہ مغرب کے ساتھ مذاکرات اور خطے کے ممالک کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کرتا رہا تھا۔ آج حزب اللہ ایرانیوں کی جانب سے شام اور عراق میں جنگ آزما ہے۔ اس نے ماضی میں یمنی حوثیوں کو تربیت دی تھی اور انھیں حزب اللہ کے مشابہ انصاراللہ کا نام دیا تھا۔ اس نے انھیں یہ بھی سکھایا تھا کہ یمن میں نعروں کو کیسے دُہرانا ہے، جیسے مرگ بر امریکا اور مرگ بر اسرائیل کے نعرے کیسے لگانے ہیں۔
یمن بحران کے آغاز سے ایک ایرانی مسئلہ بھی بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مصالحت اور سیاسی حل کی ہر کوشش کو سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب، اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اور مغربی ممالک نے تنازعے کے حل کے لیے دو تصورات سے اتفاق کیا تھا: سیاسی فریم ورک میں حوثیوں کی شرکت اور دوسرا مسئلے کے جمہوری حل کی حمایت۔ یعنی عوام کے نمائندے اپنا آئین خود وضع کریں اور حکومت کے لیے اپنے نمائندوں کا بھی خود انتخاب کریں، تاہم ایران نے حوثیوں کو اس فارمولے کو تبدیل کرنے کے لیے آشیرباد دی، چنانچہ انھوں نے پہلے صوبے عمران پر قبضہ کر لیا، پھر دارالحکومت صنعا پر بھی قابض ہوگئے اور اقتدار میں حصہ بقدر جثہ کے بجائے زیادہ حصہ مانگنے لگ گئے۔
اس میزائل حملے سے سعودی عرب کے اس مؤقف کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ایران اس وقت یمن کے شمال میں ایک فوجی علاقہ بنانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ سعودی عرب کو ڈرایا دھمکایا جاسکے اور اسی کام کے لیے اس نے حوثیوں کا انتخاب کیا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یمن میں جاری تنازعے کا خواہ کوئی سیاسی یا فوجی حل تلاش کیا جاتا ہے، اس تنازعے کو علاقائی محاذ آرائی سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا اور خطہ یمن میں جاری جنگ کے پس پردہ محرکات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
تبصرہ لکھیے