ہوم << ریاست کا بیانیہ اور اسلام آباد دھرنا - محمد تنویر اعوان

ریاست کا بیانیہ اور اسلام آباد دھرنا - محمد تنویر اعوان

تنویر اعوان اگرآپ تاریخ کا جائزہ لیں تو حیران ہوجائیں گے کہ برصغیر مختلف قوموں کا دیس تھا ۔جن کی ثقافت،مذہب،رنگ ونسل،زبان ایک دوسرے سے مختلف تھی۔جب انگریز آیا تو اس نے اسی چیز کا فائدہ اٹھا کرلوگوں کو تقسیم کیا اور اپنی حکومت کی راہ ہموارکی۔چونکہ مسلمانوں سے اقتدارچھیناگیا اس لئے مسلمانوں کو ہی معتوب ٹھرایاگیا اور ہندوؤں سے راہ رسم بڑھائی گئی۔ہندو بھی اسی موقع کی تلاش میں تھے کیوں کہ حکمران کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوں ہندوؤں کو کسی صورت کسی مسلمان کی حکمرانی گوارہ نہ تھی۔شاید ہندوصدیوں سے اسی انتظار میں تھے کہ کب انہیں مسلمانوں کی حکمرانی سے نجات ملے اورانگریز کی صورت میں انہیں یہ موقع میسرآہی گیا۔ہندو انگریز گٹھ جوڑ نے مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کیا۔مسلمانوں پر سرکاری نوکریوں کے دروازے تقریباً بند تھے اور57ء کی جنگ آذادی کے بعد تو مسلمان ہوناہی ہندوستان کے مسلمانوں کا جرم بن گیا۔
بہرحال ہم سانحات کا زکر کریں گے تو بات طویل ہوجائے گی۔کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو مسلمانوں پر نہ کیا گیا ہو۔اس کے باوجودمسلمان ہندوؤں کیساتھ مل کر جہدوجہدکرنا چاہتے تھے متحدہ ہندوستان میں ہی رہنا چاہتے تھے۔باوجود اس کے کہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔مسلمانوں نے حتی الامکان کوشش بھی کی لیکن ہندومسلمانوں کی برداشت کرنے کو قطعاً تیار نہیں تھے ۔پے درپے ایسے واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کے دل میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ ہندوہمارے دوست نہیں ہیں اور انگریز چلا بھی جاتا ہے تو ہندو ہمیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔اب صورتحال گمبھیر تھی لیکن اب تک کوئی ایسی راہ سجھائی نہ دے رہی تھی کہ کیسے آذادی حاصل کی جائے اورایسا سوچنا سودمند بھی ہوگا کہ نہیں کیوں کہ 57کی جنگ اذادی کے اثرات مسلمانوں کے سامنے تھے ۔یہ جنگ ہندومسلم نے ملکر لڑی تھی لیکن سزا مسلمانوں کو ہی ملی ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوبظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے لیکن درپردہ ان کے انگریز سے روابط تھے۔
اس مشکل صورتحال میں سرسیداحمد خان نے دو قومی نظریہ پیش کرکے مسلمانوں کوایک راہ دکھادی۔اور پھر برصغیر کے طول وعرض میں "تیرامیرارشتہ کیا۔ لاالہ الااللہ "کے نعرے گونجنے لگے۔پاکستان کا مطلب کیا ۔لاالہ الااللہ کے نعروں کی صدائیں بلند ہونے لگی۔جب ایسا ہوا تو وہ جوکہ قوم اسلام کی ماننے والی تھی لیکن لوگ رنگ و نسل،زبان ،قومیت،ثقافت میں مختلف تھے۔وہ اسلام کے نام پر ایک ہوجاتے ہیں۔گویا کہ 57کی جنگ آذادی کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ صرف آذادی کیلئے لڑی گئی تھی۔لہذاپوری قوم اس میں شریک نہ تھی ۔یہاں معاملہ اسلام کا تھا ۔مسلمانان ہند ایک ہوئے۔اس دوران کوئی ایسا اجلاس نہیں ہے کوئی ایسا جلسہ نہیں ہے جہاں لفظ مسلمان نہ استعمال ہوا ہو۔درجنوں مثالیں موجود ہیں۔چاہے23مارچ1940ء کی قراردادپاکستان کو ہی اٹھاکردیکھ لیں۔مسلمانان ہند نے اسلام کے نام پر بالآخر پاکستان جیسا وطن حاصل کرہی لیا۔مختلف زبانیں بولنے والے اسلام کے نام پر ایک قوم بن گئے۔
اب ملین ڈالر کاسوال ہے کہ کیا پاکستان بننے کے بعد اسلامی نظام نافذ کیا گیا؟۔بالکل بھی نہیں یہاں پر بھی انگریز کے غلام جاگیرداروں اور وڈیروں نے پس پردہ رہ کر حکومتی باگ ڈورسنبھال لی۔قائد اعظم کو بھی یہ فرمانا پڑ گیا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔قائداعظم کی پرسرارموت اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔کچھ قوتیں اسلام کے نفاذ میں نہ صرف رکاوٹ تھیں بلکہ ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں کو راہ سے ہی ہٹا دیا گیا۔شہید ملت لیاقت علی خان کا وقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اب انگریز کے غلاموں کو خدشہ تھا کہ جب یہ قوم انگریز کے خلاف کھڑی ہوسکتی ہے ہندوؤں کے خلا ف کھڑی ہوسکتی ہے۔تو ہمارے جاگیردارانہ سمراج کے خلاف بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔لہذاوہی تقسیم کرواورحکومت کروکی انگریز والی پالیسی استعمال کی گئی ۔مسلمانوں میں فرقہ واریت کو مہمیز دی گئی۔صرف اسلام کا تعلق ہی ان میں بھائی چارے کو قائم رکھ سکتا تھا۔اب جب کہ وہ بنیاد جس پر مسلمان ایک ہوئے تھے اس بنیاد کو ہی توڑنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ ہوا کہ وہ لوگ جو مختلف قومیت، لسانیت، رنگ ونسل اور زبان کے حامل تھے اور صرف اسلام کے نام پر ایک ہوئے تھے۔ ان میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ کچھ عالمی طاقتوں اورکچھ ہمارے ناعاقبت اندیش رہنماؤں کی مہربانی ہے کہ پاکستان میں ہی مہاجر، پٹھان، سندھی، بلوچی کی اصطلاح عام ہوگئی۔ یہ حالات بگڑتے چلے گئے۔ فرقہ وارانہ قتل ہوئے۔ لسانیت کی بنیاد پر قتل ہوئے۔ قومیت رنگ ونسل اور زبان کی بنیادپر بھی فساد ہوئے۔
ان سب عوامل کے نتیجے میں عوام اپنے بنیادی حقوق بھول گئی۔اب کوئی بھی صوبہ ترقی کرے تو باقی صوبوں کی عوام بجائے اپنے صوبے کے حکمرانوں سے حساب لینے کے دوسرے صوبے کی ترقی پر شبہات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔یعنی کہ قوم کو باہم دست و گریبان کردیا گیا ہے ہر دور میں یہ اصطلاح مختلف رہی ہے کہ کبھی جیالے اور جماعتی ٹکراتے تھے۔پھرمہاجراورپٹھا ن ٹکرائے۔پنجابی اور بلوچی میں نفرت کو پروان چڑھایاگیا۔ایسی درجنوں مثال ہیں یہ تعصب برسوں کی محنت سے ممکن ہواہے۔
ان سب مسائل کا حل ممکن ہے لیکن اس کے لئے اسلام کو نافذ کرنا ہوگا۔ہمارا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی اسلام سے دوری ہے تاریخ ثابت کرچکی ہے ہمارا حال گواہی دے رہا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی چلتا ہو یہاں پراسلام کے نظام کے سواکچھ نہیں چل سکتا۔گو کہہ ہم کہتے ہیں کہ انسان کا اصل مسئلہ روٹی کپڑا اورمکان ہے ماضی میں ایسا باور بھی کرایاگیا لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی والے جو کہ پڑھے لکھے بھی ہیں تفرقہ بازی سے بھی پاک ہیں ایمانداراوردیانتدار بھی ہیں۔قوم کی قیادت کی اہلیت بھی رکھتے ہیں ۔اپنی جماعت کے اندرمکمل اسلامی شورائی جمہوریت کا نظام بھی رکھتے ہیں۔انہیں روٹی کپڑا مکان کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اس کے باجود اسلامی نظام کی ہی بات کرتے ہیں ۔دوسری طرف عمران خان ہے جس کے ساتھ بھی پڑھے لکھے ہرطبقے کے لوگ ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلامی فلاحی مملکت ہو یہ نظام کرپٹ ہے اس میں کسی کا احتساب ممکن نہیں ہے۔تو ہم ماننے پر مجبور ہیں کہ مسئلہ نظام میں ہے اگر نظام ٹھیک ہوگا تو ہی لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان میسر ہوگا۔
یہاں ایک ایسا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جسے اسلام سے خدا واسطے کا بیر ہے وہ پاکستان کے ہرمسئلے کا ذمہ دار اسلام کو ہی سمجھتا ہے ۔اس طبقے کے بقول ہمیں متبادل نظام کی طرف جاناچاہیے یہ بھی مانتا ہے کہ موجودہ نظام خراب ہے۔لیکن رٹ وہی ہے کہ ذمہ داری مولوی ہے۔ایک بازگشت جو ہمیں عرصے سے سنائی دے رہی ہے ماضی میں بہت شدت سے ابھری تھی لیکن سامنے جو لوگ تھے وہ فولاد تھے ا نہوں نے دلائل کے انبارمیں کہیں دفن کردیا تھا اب پھر راکھ سے چنگاریاں اڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔متبادل بیانیہ پیش کیا جارہا ہے کہ مذہبی ریاست ناکام ہوچکی ہے۔حالانکہ کوئی بتائے تو پاکستان میں کب مذہب نافذ ہواہے ؟ کب اہل مذہب حکمران ہوئے ہیں ؟پاکستان اسلام کے نام پر ضرور بنا لیکن اسلام کو تو کبھی آنے ہی نہیں دیا گیا کیوں کہ اسلام اندھی تقلید کادرس نہیں دیتا اسلام دلائل سے بات کرتا ہے اسلام حقوق کی بات کرتا ہے، اسلام انسانیت کادرس دیتا ہے۔ یقیناًانسایت کا لبادہ اوڑھے یہ طبقہ ایسے اسلام کو قبول نہیں کرسکتا جو کہ ایک غریب کے بچے کو بھی ان کے برابر لا کھڑا کرے اور کہے کہ تم دونوں برابر ہو۔ ان کا بنیادی مسئلہ اسلام ہے، چاہے وہ جماعت اسلامی کی صورت میں پڑھالکھا ماڈرن مسلمان ہو چاہے جمعیت علمائے اسلام کی صورت میں مدارس سے پڑھا لکھا ماڈرن مولوی ہوچاہے وہ فیضان مدینہ سے فارغ التحصیل کیوں نہ ہو، یہ طبقہ کسی صورت اسلام کو قبولنے کو تیار نہیں ہے۔
آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ طبقہ اور حکمران اسلام کا نفاذ نہیں چاہتے۔کچھ مثالوں کے ذریعے ان وجوہات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ میں دیکھیں تو خلیفہ وقت کھڑے ہوتے ہیں تو ایک شخص کہتا ہے کہ ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے جب تک آپ اپنے کُرتے کے اضافی کپڑے کی بابت نہ بتادیں ۔اور خلیفہ وقت کو بھرے مجمعے میں جواب دینا پڑتا ہے اسے مطمئن کرنا پرتاہے۔یہی خلیفہ وقت کہتے ہیں کہ اگر دجلہ کے کنارے بھوک سے کتا بھی مر گیا تو حساب عمر سے ہوگا۔جی ہاں تاریخ انہیں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے۔داماد رسول شیر خداحضرت علی رضی اللہ عنہ جب عدالت میں حاضر ہوتے ہیں فیصلہ ان کے خلاف اورایک یہودی کے حق میں سنایا جاتا ہے اور باوجود حق پر ہونے کے حضرت علی رضی اللہ عنہ فیصلہ قبول کرلیتے ہیں ۔یہ اسلام کا عدل ہے جو کہ ایسی ان گنت مثالوں سے بھرا پڑا ہے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ اسلام نافذ ہوا تو اسلامی نصاب بھی دینا پڑے گا اور جب مسلمان اپنی تاریخ پڑھیں گے تو سوال بھی کریں گے ۔پھر عام عوام کی حکمرانی ہوگی ہم سے حکمرانی چھن جائے گی پھر ہم عوام کے خادم ہوں گے جنہیں ہم کمی کمین کہتے ہیں وہ اصل حکمران ہوں گے۔اسی لئے انہوں نے اسلام سے ہی ان لوگوں کو دور کردیا اور روٹی کپڑا اور مکان میں لگادیا ۔حالانکہ یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے جسے ادا کرکے وہ کوئی احسان نہیں کرتی۔
تعلیم سے ناآشناں میرے دیس کی عوام شعور سے بھی اتنی ہی دور ہے جتنا قطب شمالی قطب جنوبی سے دور ہے۔ہمیں ہمارے حقوق کا علم نہیں ہے۔کسی نے کبھی بھی ہمیں ہمارے حقوق کے بارے میں نہیں بتایا۔مولانامودودی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی کوشش کی کہ لوگوں کو قرآن کی طرف لیکر آئیں لیکن لوگ بھٹو کے روٹی کپڑا اورمکان کے پیچھے بھاگے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے ہم بجلی کے تار،گلی کی نالی،سڑک پکی کرانے،پانی کی ٹنکی بنانے کے بدلے ووٹ دیتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے کام بھی کروایاہے۔ارے بھائی یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے یہ ہی سب تو کرنا ہوتا ہے۔اس میں کوئی خاص کام کیا ہوتو بات بنتی ہے۔لیکن حقوق کے متعلق شعور نہ ہونے سے ایسا ہی ہے۔پھر ہمارے ٹیکس کے پیسے سوئزرلینڈ میں پڑے ہیں ۔پہلے تو ہم کہا کرتے تھے کہ اپنا کیا جاتا ہے۔لیکن عمران خان نے ماحول بدل دیا ہے ۔خان نے لوگوں کو بتادیا ہے کہ تمہارے یہ حقوق ہیں تمہارا پیسہ باہر کے ممالک میں ہے۔لوگ صحیح کہتے ہیں کہ اس بندے کوسیاست نہیں آتی ۔کیونکہ اس سے پہلے جنہیں یہ سب پتا ہوتا تھا وہ مک مکا کرلیتے تھے۔آدھے تیرے آدھے میرے ۔لیکن یہاں عمران خان سب کچہ چٹھہ عوام کے سامنے لے آیا۔اب عوام میں ایک شعوربیدار ہوا ہے۔اب لوگ رسیدیں مانگنے لگ گئے ہیں ۔ اسلام آباد میں کچھ ہو نہ ہو۔عوامی شعور میں اضافہ ضرور ہوگا۔
آخری بات اتنی سی ہے کہ اسلام آباد بند کرنے سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے اسٹریٹ پاور درکار ہے، ماضی میں جماعت اسلامی نے اس کا مظاہر ہ بھی کیا جہاں قاضی حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ماریں کھائیں، ہر گلی چوراہے پر جماعتیوں نے ڈنڈے کھائے۔ جس سے امن ومان کی صورتحال خراب ہوئی لیکن اب ایسا نہیں ہے تحریک انصاف مقبول جماعت بہت ہے لیکن یہاں نظریاتی لوگ کم ہیں ۔ایسا مشکل ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان آنسو گیس کی شیلنگ اورربڑ کی گولیوں کا سامنا کرپائیں۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پختونخوا کے نوجوان جو کہ زبان کے معاملے میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں زبان کے پکے اور کھرے ہوتے ہیں ۔تو پشتون کارکنان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور مذاحمت کریں جس کے نتیجے میں امن و مان کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عمران خان کا مقصد صرف شعور کی بیداری ہے۔عمران خان کا ہرجلسہ لوگوں کو اپنے حقوق سے متعلق نئی معلومات دیتا ہے۔اسی طرح یہ دھرنا بھی پرامن انداز اختتام پذیر ہوگا، اگر حکومت نے بوکھلاہٹ میں خود ہی جمہوریت ڈی ریل کروا کر سیاسی شہید بننے کی کوشش نہ کی توکچھ بھی نہیں ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment