برزخی معاملات میں جناب محمد ہادی صاحب اور جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کو میں بالکل درست سمجھتا ہوں کیونکہ دونوں کے نزدیک موت کے بعد جو عذاب اور راحت ہے وہ روحانی ہے، اس کی کیفیت کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔
جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں
”اس دنیا سے جب ہم رخصت ہوتے ہیں تو دو چیزیں ہیں، ایک ہمارا جسم ہے اور ایک ہماری شخصیت ہے، وہ فرشتے لے لیتے ہیں، قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ان کی تحویل میں ہماری اصلی شخصیت دے دی جاتی ہے، قبر میں صرف جسم جاتا ہے، کبھی دریا میں چلا جاتا ہے، کبھی راکھ بنا کر اڑ جاتا ہے، یہ جو بات قبر کے متعلق کی جاتی ہے، وہ دراصل عام حالات کی وجہ سے کی جاتی ہے، اصل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری اصلی شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے وہ عام طور پر عالم برزخ کے احوال ہیں جسے عام طور پر بیان کیا جاتا ہے، اس کو بھی قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ لوگ ہیں جن کا معاملہ نیکی سے متعلق بالکل واضح ہے جیسے اللہ کے پیغمبر ہیں، جیسے شہداء ہیں، بہت سے صالحین ہیں، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم ہیں، اورسارے صحابہ کرام ہیں، اللہ ان کے فوت ہوتے ہی نعمتوں کا معاملہ شروع کرتا ہے۔ اس کا ہم شعور نہیں رکھتے کیوں کہ ہم دنیا میں صرف جسم کے ساتھ زندگی سے واقف ہیں، اور جسم کے بغیر زندگی جس کا ہم شعور نہیں رکھتے، اس میں نعمتیں دی جاتی ہیں، اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے سرکشی اختیار کی جیسے فرعون ہے، جیسے نمرود ہے، ان لوگوں کے بارے میں بھی قرآن نے صراحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ مرنے کے فورا بعد ان کے ساتھ ایک معاملہ ہونا شروع ہوجاتا ہے. غامدی صاحب کا مؤقف یہی ہے کہ سارا معاملہ روح کےساتھ ہے اور یہ ایک روحانی معاملہ ہے جس سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں۔“
جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں
[pullquote] حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أحَدَھمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [٢٣:٩٩][/pullquote]
(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے۔﴿٩٩﴾
[pullquote]لَعَلِّي أعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إنَّھا كَلِمَۃ ھوَ قَائِلُھا ۖ وَمِن وَرَائِھم بَرْزَخٌ إلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ [٢٣:١٠٠] [/pullquote]
تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں۔ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ وہ اسے زبان سے کہہ رہا ہوگا (اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہوگا) اور اس کے پیچھے برزخ ہے (جہاں وہ) اس دن تک کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے، (رہیں گے)
یہ متوفی کا کلام ہے مرنے کے بعد، کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب جِس دارالعمل کو میں چھوڑآیا ہوں، وہاں مجھے دوبارہ لوٹادے تاکہ میں صالح اعمال اختیار کروں، عمل کا میدان دنیا ہے۔ اَب غور کریں جب متوفی (وفات شدہ انسان) موت کے سبب دنیا چھوڑتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ پہلے جواب دیا گیا ہے کہ آخرت کی پہلی منزل میں وہاں یہ نفس معدوم نہیں بلکہ موجود ہے، اپنے رب سے کلام کرتا ہے۔ ہاں دنیا والوں کے لیے مردہ ہے، نہ دنیا والوں کی سُن سکتا ہے، نہ ان کو سنا سکتا ہے کیونکہ دونوں کے درمیان برزخ (حجاب) ہے۔ دنیا والے موت کے ذریعے اُس پارجا سکتا ہے، موت کے بغیر نہیں جا سکتا اور مرے ہوئے لوگ اِس پار (دنیا ) میں نہیں آسکتے کیونکہ اَب ان کا تعلق دنیا سے ختم ہو چکا ہے اور اَب وہ آخرت میں ہیں۔ چونکہ عمل کی مہلت ختم ہو چکی ہے تو اللہ اُس کی اس فریاد کو قبول نہیں کرتا تو فرمایا کہ ’’اور ان کے پیچھے آڑ ہے ان کے دوبارہ اٹھائے جانے کے دِن تک‘‘
مردے اور زندے آپس میں گڈمڈ نہیں ہو سکتے، زندوں کے لیے دنیا ہے اور مردوں کے لیے آخرت ہے، اور برزخ حدِّ فاصل ہے دنیا و آخرت کا۔
جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں کہ
”جسم ختم ہو جاتا ہے اور سارا معاملہ روح کے ساتھ ہے یعنی انسان کی اصلی شخصیت کے ساتھ ہے ۔ اور یہ اصلی شخصیت انسان کی "میں" ہے ۔ایک مومن مرتے ہی اللہ کی رحمت میں داخل ہوجاتاہے اور کافر مشرک مرتے ہی اللہ کی لعنت اور عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ جسم ان کا ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ عذاب اور راحت روحانی معاملہ ہوتا ہے جس کی کیفیت کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں اور جنت دوزخ میں داخلہ جب ہوگا یہ جسم اور روح سمیت ہوگا۔قیامت سے پہلے یہ روح جسم کے ساتھ نہیں مل سکتی۔“
مزید کہتے ہیں کہ
”انسان جسم اور روح کے ملاپ سے بنا ہے اور زندگی اسی کو کہتے ہیں.“
”موت کیا ہے؟ دراصل موت جسم اور روح کی علیحدگی کا نام ہے.“
جناب غامدی صاحب بھی کہتے ہیں کہ
”سب سے پہلے انسانی قالب یعنی جسم تیار ہوتا ہے اور پھر اللہ اسی جسم میں اپنا امر (روح) پھونک دیتے ہیں، یہ ایک روحانی انتقال کا عمل ہے جو ہوتا ہے، اور یہی انسان کی اصلی شخصیت ہے، اسی شخصیت کو روح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔“
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ
”قیامت کے دن جسم اور روح سمیت یعنی انسان کی اپنی شخصیت کے ساتھ جنت اور دوزخ جائیں گے۔“
غامدی صاحب جیسے کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، کہتے ہیں کہ اس روحانی معاملات کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں، کیونکہ ہم اس دنیا کی زندگی جسم سمیت سے واقف ہیں، مرتے ہی جو معاملات ہیں، جو روحانی کیفیت کے ہیں، جو جسم کے بغیر ہے، اس کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں کہ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مردے شعور نہیں رکھتے تو عذاب و راحت کیسے ملتی ہے، انہیں یہ سمجھ جانا چاہیے کہ شعور ایک دنیا کے اعتبار سے ہے اور ایک روحانی اعتبار سے مرنے کے بعد۔ جو شخصیت اس دنیا سے چلی گئی ہے، وہ دنیا کے معاملات کا شعور نہیں رکھتی ہے، وہاں برزخی معاملات جو کہ روحانی ہیں، اسے سمجھتے بھی ہیں اور عذاب و راحت بھی محسوس کرتے ہیں۔ عذاب بھی ہوتا ہے اور راحت بھی ہوتی ہے۔ اس سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔
تبصرہ لکھیے