ہوم << اگر دھرنا کامیاب ہوجائے! ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اگر دھرنا کامیاب ہوجائے! ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

محمد مشتاق جاوید چودھری صاحب کو میں نے کبھی سیریس نہیں لیا۔ رات ایک دوست نے ان کا تازہ ترین ”تجزیہ“ پڑھنے پر مجبور کیا جس میں چودھری صاحب نے عمران خان کے دھرنے کی کامیابی کے بعد کے امکانات کا تصور کیا ہے۔ جو کچھ انھوں نے بزعم خود بڑے منطقی انداز میں پیش کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے:
1۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت کرے اور نواز شرف صاحب کو فیصلے تک آرام کے لیے کہہ دے تو بھی حکومت ن لیگ کی رہے گی۔
2۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت کے بعد نواز شریف صاحب کو ڈس کوالیفیائی کردے تو بھی نئے الیکش کے بعد وہ پھر بھاری مینڈیٹ (اس لفظ کے ساتھ میرے ذہن میں بھاری مینڈک کا تصور بنتا ہے۔ معذرت) لے کر آجائیں گے۔
3۔ اگر سپریم کورٹ ساری شریف فیملی کو فارغ کردے تب بھی یہی ہوگا۔
4۔ اگر شریفوں کی فراغت کے بعد ن لیگی پرندے اڑ کر عمران خان کے کیمپ میں آجائیں اور وہ وزیر اعظم بن جائیں، تب بھی احتساب نہیں ہوگا۔
5۔ اگر حالات کی خرابی کی بنیاد پر فوج آجائے تو دس سال تک رہے گی اور تب بھی احتساب نہیں ہوگا۔
یہ ایک ایک ”امکان“ میں پڑھ رہا تھا اور میری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ میرے دوست کو غصہ بھی آرہا تھا۔
سنجیدگی اختیار کرنے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ چودھری صاحب کا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان کی پوری قوم محض ایک مشین ہے اور نواز شریف صاحب اس کا بس ایک پرزہ ہیں؛ اس پرزے کو نکال لینے کے بعد باقی سارے پرزے اسی طرح موجود رہیں گے اور ہم صرف اس ایک پرزے کی ری پلیس منٹ کا سوچیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بزعم خود ایک سینیئر کالم نگار اس طرح کی ”بونگیاں“ کیسے مار سکتے ہیں؟ یہ انسانی معاشرہ ہے۔ ایک کردار کے آگے پیچھے ہونے سے پورا سیٹ اپ تبدیل ہوجاتا ہے؛ پورا تناسب بگڑ جاتا ہے؛ ساری پوزیشنیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
باقی باتیں چھوڑیں اور یہ سوچیں کہ اگر نواز شریف صاحب وزیر اعظم نہ رہے تو 1973 کے آئین کے تناظر میں مولانا فضل الرحمان صاحب کا سیاسی تجزیہ کیا ہوگا؟
پھر ان سینیئر کالم نگار نے اس قوم کے متعلق یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت ”احتساب“ تو نہیں ہوگا؟
اور یہ کیسے فرض کرلیا کہ بہرصورت میاں صاحب بھاری مینڈک، سوری بھاری مینڈیٹ لے کر آئیں گے؟ انگریزی کا مقولہ یاد آیا:
There is many a slip between the cup and the lip!

Comments

Click here to post a comment