امریکہ دنیا کی جانی مانی سب سے بڑی طاقت ہے، جسکا اظہار اس نے زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں دنیا پرسبقت لیکر کیا ہے۔ تاہم یہ سبقت خود امریکیوں کیلئے بھی کبھی کبھی وبال جان بن جاتی ہے، کیونکہ دنیا پر حکومت کرنے کیلئے صرف معاشی، سیاسی و ٹیکنالوجیکل برتری ہی کافی نہیں ہوتی۔ کچھ معاشرتی اقدار کا بھی لحاظ رکھنا ہوتا ہے جس سے اپنی شناخت پر سوال اٹھنا نا گزیر نہ بنے۔ لیکن امریکہ نے دنیا کو گلوبل ویلج کا تصور دیکر دنیا میں ایک طرف اپنی تصوراتی اقدار کا پرچار کیا تو دوسری طرف اپنے ہی اصلی ا نسل امریکی یعنی "ریڈ انڈین" کو زچ کر دیا۔دنیا میں امریکہ جہاں ہر کسی کیلئے باہیں پھیلائے خوش آمدیدی کا ڈنڈورا پیٹ رہا ہے وہیں امریکیوں کو اپنے ہی ملک میں اپنی شناخت کے کھو جانے کا ڈر بھی ستاتا ہے۔اسکا برملا اظہار تو ایک عرصہ تک بیرونی دنیا نے کبھی محسوس نہیں کیا لیکن جو لوگ امریکہ یاترا کر کے آئے ہیں انکو معلوم ہے کہ یہ آزاد خیال امریکی اپنے ملک میں غیر امریکیوں کو کس تنگ نظری کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور اب تو انکا یہ عامیانہ رویہ آہست آہستہ پوری دنیا کے سامنے انکے بڑے بڑے بیورو کریٹ و سیاسی لیڈر بہ بانگ دہل آشکارا کرتے نظر آتے ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست اور نظریات کا اثر ابھی سے نہیں بلکہ ایک عرصے سےکیمرے کے آنکھ سے نظر آنے لگے ہیں۔امریکیوں میں نسلی عصبیت تو ایک عام بات ہے، گو کہ یہ بات انکی الیکٹرانک میڈیا میں اس طرح سے منظر عام پر نہیں آتی ۔ تا ہم اسکی موجودگی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، جس کے شواہد دنیا کو گاہے بہ گاہے ملتے رہتے ہیں۔مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے آنے سے اس مضمون کو گرمانے والی جو ہوا ملی ہے وہ شائد پہلے کبھی نہیں ہوا کہ صدر کے عہدے کیلئے سیاست کرنے والا رکن عصبیت پسندی کا برملا اظہار کر رہا ہو۔ اب انتخابات کے نتائج آئے بھی نہیں ہیں اور لوگوں کی حرکتوں سے ایسا لگنے لگا ہے کہ شاید 2017 سے ٹرمپ دور کا آغاز ہو نےلگا ہے، وہ "سیاسی دور "جسکے آثار حقیقتا موجود نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو دنیا بالعموم اور مسلمان بالخصوص ٹرمپ دور میں بہت خطرناک نتائج کا نشانہ ہونگے۔ کیونکہ ٹرمپ کے مسلم مخالف نظریے کے بازی گری کی شروعات ابھی سے ہی ہونے لگی ہے۔
ویسے میرے سامنے تو کئی ایسی مثالیں ہیں، جو کہ درحقیقت میرے جاننے والوں کی اپنی ذاتی تجربات کے باتیں ہیں۔ میری ایک دوست جو کہ حال ہی میں امریکہ سے اپنی پی ایچ ڈی کیلئے ایک تحقیقی کام کے غرض سے کچھ مہینوں کیلئے رہ کر آئی ہیں انکے مطابق کچھ امریکی آپکو زچ کرنے کیلئے ایسے غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں جو کسی بھی صورت میں ہمارے لئے ناگوار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ بلا وجہ آپکا نام پکارنا، زبردستی ہاتھ ملانا اور یہاں تک کہ گلے ملنے کی مسلسل کوشش کرنا۔میرے ایک دوست کے مطابق وہ کسی بھی بات کا بہانہ بنا کرآپکو شرمندہ کرنے کی کوشش کرینگے کہ آپ ایک غریب ، کم تر، کم فہم اور ایک دہشت گردانہ ماحول کے رہنے والے لوگ امریکہ جیسے ملک میں کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ اور اس طرح کی اور کئی معاملات ہوتے رہتے ہیں، تا ہم یہاں جس واقعے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ حال ہی میں ایک حادثے کے طور پر منظر عام پر آیا اور اس نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک رسائی حاصل کی ۔جس میں ایک پاکستانی نژاد سات سال کے اسکول طالب علم عبد العزیز عثمانی کی 'مسلم' ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر پٹائی کا معاملے کو طور پر سامنے آیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس واقعہ کو امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ نارتھ كیرالينا میں ویدر اسٹون ایليمنٹری اسکول سے جب بچہ گھر واپس آ رہا تھا تو اس کے كلاسمیٹس کی طرف سے اسے کافی بری طرح سے مارا پیٹا گیا۔ مبینہ طور پروہ لوگ اس بچے کو حرام جانور کاگوشت کھانے پر مجبور کر رہے تھے۔ جب عبد العزیز نے اس گوشت کو کھانے سے انکار کر دیا، تو اس کے كلاسمیٹس نے اس کے چہرے پر گھونسو سے وار کرنا شروع کر دیئے۔اتنا ہی نہیں، اسے مسلم، مسلم پکارتے ہوئے بس میں کافی مذاق بھی اڑایا، جیسے مسلمان ہونا کوئی عیب ہو، کوئی جرم ہو کوئی ایسا عمل ہو جو عام انسان کو معاشرے بدنام کرنے کا سبب بنتا ہو، یعنی مذہب نہیں کوئی چوری کا عمل ہوا۔
بچے کےوالد ذیشان نے فیس بک پر اپنے بیٹے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا، "ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ میں خوش آمدید"۔ اس تصویر میں اس زخمی بائیں ہاتھ دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے لکھا، "وہ ابھی صرف سات سال کا بچہ ہے اورپہلی کلاس میں ہے اور مسلم ہونے کے ناطے اسکول بس میں اس کی کلاس کے بچوں نے پٹائی کی"۔والد ذیشان کے مطابق، عبد العزیز کی پیدائش امریکہ میں ہوئی ہے. وہ بڑا بھی یہیں فلوریڈا میں ہوا ہے. وہ بھی کیپٹن امریکہ کو پسند کرتا ہے، وہ بھی امریکہ کا صدر بننا چاہتا ہے۔ تو پھر آپ امریکی ہونے کے ناطے کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ہم امریکہ سے مختلف ہیں۔ یہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے۔
آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ عبد العزیز کے والد ذیشان الحسن عثمانی دو دفعہ کا ایوارڈ یافتہ کمپیوٹر سائنسدان ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اعداد و شمار کے ذریعے سے بہت سوں کی زندگی بچائی ہے۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ ان کے بچے کے ساتھ امریکہ میں اس طرح کے سفاکانہ سلوک کیا گیا۔ذیشان کے مطابق، 'میرے 7 سال کے بیٹے کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ میرے چہرے پر داڑھی ہے، جسے امریکہ میں دہشت گردی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ میرے ایک بیٹے کو دہشت گرد تک کہا جا چکا ہے۔فی الحال، اس واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ تاہم، اس واقعے نے ایک بات ضرور واضح کر دی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ہوتی ہے، تو امریکہ میں مسلمانوں کا رہنا دشوار ہو جائے گا۔ذیشان کے مطابق یہ وہ امریکہ نہیں ہے جس کے لئے اس نے سب کچھ چھوڑ دیا تھا، یہ وہ امریکہ نہیں ہے جس میں اس نے اعلی تعلیم حاصل کی تھی، یہ امریکہ وہ امریکہ نہیں ہے جہاں اس نے اپنے خاندانکی زندگیوں کو بلن مقام پر پہنچانے کے خواب دیکھے تھے۔ اس حادثے کے بعد سے ذیشان کے اہل خانہ نے "ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ"کے خوف کی وجہ سے اپنے ملک واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔اس واقعے کے پاداش میں ذیشان کی بیوی بینش بھاگوانی تین بچوں سمیت اسلام آباد واپس آچکی ہے۔ اور ارادہ کرچکی ہے کہ اب وہ امریکہ نہیں جاینگے انہوں نے وہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اب امریکہ ایک محفوظ ملک نہیں رہا۔
واقعہ کی ویڈیو
تبصرہ لکھیے