مشکوک شخص کی شناخت
گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردوں نے پاکستان میں اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور عوامی مقامات پر بم دھماکے اب چند اقلیتی گروہوں کے خلاف ہی کیے جا رہے ہیں. ان کی ترجیح کسی ریاستی ادارے پر حملہ ہوتی ہے جس کی وجوہات تو بہت سی ہیں مگر فی الحال وہ ہمارا موضوع نہیں. ان حملوں کی پیش بندی، انہیں ناکام بنانے اور دہشت گردوں کو گرفتار یا ہلاک کرنے کے لیے ہماری سلامتی کے ذمہ دار اداروں نے کچھ حکمت عملیاں یقینا ترتیب دے رکھی ہیں. شاید وہ کافی نہیں ہیں یا شاید ان پر نظرِ ثانی کی اشد ضرورت ہے، مگر فی الوقت ہم اس سے بھی صرفِ نظر کرتے ہوئے، اپنی توجہ صرف اس بات پر مرکوز رکھتے ہیں کہ عوام الناس اس سلسلے میں ریاستی اداروں کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟
”اپنے اردگرد کے ماحول پہ گہری نظر رکھیے، کسی مشکوک شخص یا چیز کو دیکھتے ہی ان نمبروں پر اطلاع دیجیے.“ یہ ہدایت مختلف عوامی مقامات پر ہم سب نے پڑھ رکھی ہے. مگر سوائے یہ پیغام آویزاں کرنے کے کسی ریاستی ادارے، وزارتِ داخلہ، سول ڈیفنس یا میڈیا کی جانب سے عوام کو اس ضمن میں مناسب تربیت یا راہنمائی فراہم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی-.ایک لولی لنگڑی بلکہ مضحکہ خیز کوشش ایسا ہی ایک دوسرا پیغام ہے جس میں عوام کو ممکنہ خودکش حملہ آور کا حلیہ بتایا گیا ہے جس کی رو سے ہر تیسرا پاکستانی مشکوک ٹھہرتا ہے.
یہ مضمون خود کو اور قارئین کو اس ضمن میں چند بنیادی باتوں سے آگاہ کرنے کی ادنیٰ سی کاوش ہے، اسے خود بھی پڑھیے، دوسروں کو بھی پڑھوائیں اور اس پر خود بھی غوروفکر کےلیے وقت نکالیں.
ریاست اور ریاستی اداروں کے دعوے خواہ کچھ بھی رہے ہوں، یہ بات اب تقریبا ثابت ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ ابھی کئی برس مزید جاری رہے گی، اس کےلیے اپنے طور پر تیاری ہر محب وطن شہری کا فرض ہے.
گرد و پیش پر نگاہ کیسے رکھی جائے؟
یہ ہدایت کرنا تو بہت آسان ہے، مگر آخر عوام کیا دیکھیں؟ وہ کس طرح فیصلہ کریں کہ فلاں شخص مشکوک ہے اور اس کی اطلاع سکیورٹی اداروں کو کیا جانا ضروری ہے؟
گزشتہ کچھ عرصے سے سیلف ڈیفنس اور سکیورٹی کے ماہرین جس ایک اصطلاح کو بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں، وہ ہے Situational Awareness ، اس کا کوئی مناسب ترجمہ مجھے نہیں سوجھ رہا. جن احباب نے ”اپنی فیملی کی حفاظت“ کے سلسلے کے میرے مضامین پڑھ رکھے ہیں، انہیں یاد ہوگا کہ ضمنا ان میں بھی یہ اصطلاح استعمال ہوئی تھی. بنیادی طور پر سچویشنل اوئیرنس بھی گردوپیش پہ نگاہ رکھنے ہی کا کام ہے، مگر یہاں ماہرین صرف ہدایات ہی نہیں دیتے، بلکہ عمل کے طریقے بھی بتاتے اور سکھاتے ہیں. موضوع بہت زیادہ وسیع ہے، یہاں چند بنیادی باتیں جو ہمارے عنوان سے مطابقت رکھتی ہیں، بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے.
آپ کو بہت زیادہ آسانی ہو جائے گی، اگر آپ سچویشنل اویئرنیس کو چار حصوں میں بانٹ کر دیکھیں. ایک ممتاز امریکی ملٹری سٹریٹجسٹ نے OODA کے عنوان سے سچویشنل اوئیرنیس کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے.
O for Observe
O for Orient
D for decide
A for Act
1- آبزرو/ اورینٹ
ہماری سرکاری ہدایت تو آبزرویشن ہی پہ تمام ہو جاتی ہے، مگر مشاہدہ حقیقت میں محض آغاز ہے، اور یہاں جب تک آپ کو یہ علم نہ ہو کہ آپ نے دیکھنا کیا ہے؟ آپ کا الرٹ ہونا بےکار ہو جاتا ہے. آپ ایک بدکے ہوئے وحشی کی طرح چاروں جانب گردن گھما گھما کر ہر شخص کو خوفزدہ انداز میں دیکھیں گے تو خود مشکوک قرار پائیں گے. خود کو جیمز بونڈ یا جیسن بورن سمجھنے کی کوشش مت کیجیے، ریلیکس رہیے، سمارٹ فون کا استعمال موخر کر دیجیے، اپنے گرد و پیش موجود لوگوں میں دلچسپی لیجیے اور اپنے ماحول میں ضم ہونے کی کوشش کیجیے، ماہرین کے مطابق صرف وہ شخص ہی مشکوک قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ وہ کر رہا ہے، جو اسے نہیں کرنا چاہیے، یا پھر وہ نہیں کر رہا جو کہ اسے کرنا چاہیے. اس بظاہر آسان فقرے کی تشریح اتنی آسان نہیں، آئیے کوشش کر کے دیکھتے ہیں.
انسان بنیادی طور پر معاشرتی حیوان ہے، ہم لاشعوری طور پر جیسا دیس ویسا بھیس پر ہر وقت عمل کر رہے ہوتے ہیں. آپ خواہ کتنے ہی مسرور ہوں اور سیٹیاں بجاتے، گنگناتے جا رہے ہوں، کسی جنازے سے سامنا ہونے پر آپ کی باڈی لینگویج میں وہی افسردگی، متانت اور سنجیدگی در آئے گی جو کہ جنازے کے شرکاء کے چہرے پر چھائی ہو. کسی ملٹی پلیکس میں باکس آفس کے سامنے قطار بنائے لوگ خواہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، سب ایک جیسا بی ہیو کرتے ہیں. کسی محفل میں داخل ہوتے ہی بلند و بالا قہقہوں کی آواز آپ کی سماعت سے ٹکرائے تو آپ کے لبوں پر مسکراہٹ اپنے آپ ہی آ جائے گی. ہم سب ایسا ہی کرتے ہیں، اس لیے اگر کوئی ایسا نہیں کر رہا تو وہ آپ کی توجہ اور مشاہدے کا مستحق ہے.
یہاں باڈی لینگویج کا فن آپ کے کام آئے گا، اس فن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ اسے سیکھ رہے ہوتے ہیں، ویسے ویسے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ سب تو آپ پہلے سے جانتے تھے، اور حقیقت بھی یہی ہے. ہم سب دوسروں میں غصے، خوف، گھبراہٹ، بے چینی، دکھ، خوشی اور درجنوں دیگر کیفیات کا بالکل ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے پر قادر ہیں. اپنی اسی صلاحیت کو استعمال کیجیے، یہ یاد رکھیے کہ باڈی لینگویج میں انفرادی جسمانی اشاروں یا gestures کی خاص اہمیت نہیں ہے، اس لیے محض کسی ایک حرکت کی بنا پر آپ کسی کو مشکوک قرار نہیں دے سکتے. اگر آپ کے زیرِ مشاہدہ شخص واقعی مشکوک ہے تو وہ آپ کو کئی ایسے اشارے دے گا، یعنی ایک مخصوص ذہنی کیفیت اشاروں کے ایک پورے مجموعے یا cluster سے عیاں ہوتی ہے.
آپ کسی حساس ادارے کی اہم سرکاری عمارت کے باہر موجود ہیں، اور دیگر افراد کی طرح اپنے داخلے کے مراحل سے گزر رہے ہیں، یا کسی کا انتظار کر رہے ہیں، وہاں موجود تمام افراد کے تاثرات اور باڈی لینگویج کی مدد سے آپ انہیں باآسانی تین چار کیٹیگریز میں بانٹ سکتے ہیں. مطمئن، منتظر، بیزار، جلدباز، ایسے میں آپ کو ایک شخص ایسا دکھائی دیتا ہے جو باقی سب سے مطابقت نہیں رکھتا.
آپ ریلیکس سے انداز میں اپنی توجہ اس کی جانب مرکوز کر دیتے ہیں، ایسے کہ اسے احساس نہ ہو. اب اس کی بدن بولی آپ کو اسے سمجھنے کے کئی مواقع فراہم کرے گی. اگر وہ اپنے لباس میں کوئی ہتھیار چھپائے ہوئے ہے تو بالکل لاشعوری طور پر وہ جسم کے اس حصے کو بار بار چھوئے گا. ہمارا قومی لباس پینٹ شرٹ کی نسبت ہینڈ گنز چھپانے کے لیے بہت موزوں ہے، مگر ساتھ ہی اس سے نکال کر گن فوری استعمال کرنا نسبتا مشکل ہے، اس لیے ہر وہ شخص جو نیفے میں پستول اڑسے ہوئے ہو، اپنا ہاتھ اس کے بالکل قریب رکھتا ہے. وہ بار بار اپنے دائیں بائیں موجود لوگوں کو سکین کرے گا، سکیورٹی کے عملے سے آنکھ چرائے گام اگر آپ باریک بینی سے اس کا تجزیہ کر رہے ہیں تو آپ کو یہ احساس بھی ہوگا کہ شاید وہ اکیلا نہیں، اور یہ بھی کہ شاید وہ کسی خاص موقع کا منتظر ہے.
2- فیصلہ اور عمل
اوپر دی گئی مثال میں آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ شخص انتہائی مشکوک ہے، ایسے میں آپ کو فوری فیصلہ کرنا ہوگا، آیا آپ اپنے شک کی تصدیق کے لیے مزید انتظار کرنا چاہتے ہیں یا آپ یہاں سے نکل لینا بہتر سمجھتے ہیں یا پھر آپ سکیورٹی عملے کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنا پسند فرمائیں گے. ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا صورتحال میں تو تیسرا آپشن ہی بہترین ہے اور آپ کو فورا اس پر عمل بھی کرنا چاہیے، مگر جیسا کہ عرض کیا کہ سچویشنل اویئرنس ایک مستقل کیفیت ہے جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے خود پر طاری کرنا پڑتی ہے، اس میں ایسی بہت سی صورتحال درپیش آ سکتی ہیں اور ہر صورتحال کے مطابق ہی آپ کو فیصلہ اور عمل کرنا ہوگا.
مثلا ایسا ہی مشکوک شخص آپ بنک میں دیکھتے ہیں، اب اگر آپ کیش جمع کروانے آئے ہیں یا نکلوا چکے ہیں تو بلاتاخیر بنک سے باہر نکل جائیں، باہر نکلتے ہی گارڈ کو خبردار کرنا مت بھولیے. اگر آپ چیک جمع کروانے آئے ہیں یا چیک ابھی کیش نہیں کروایا، تو سکون سے رہیے اور بنک کے عملے یا گارڈ کو خاموشی سے اس شخص کی جانب متوجہ کر دیجیے. اگر وہ شخص آپ کے بہت قریب ہے اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ گن نکالنے والا ہے تو اسے خود قابو کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی شور مچا کر دیگر افراد کو متوجہ کریں.
3- سچویشنل اوئیرنس بہتر بنانے کے طریقے
سب سے پہلے تو یہ کہ یہ صلاحیت دیگر تمام صلاحیتوں کی طرح مسلسل پریکٹس ہی سے بہتر ہوگی. اس پریکٹس میں البتہ آپ کو درج ذیل ٹپس سے مدد مل سکتی ہے.
1- اسے انجوائے کیجیے. سچویشنل اوئیرنس نہ صرف آپ کو ایک ذمہ دار شہری بناتی ہے بلکہ یہ آپ کو روزمرہ کے ایسے دلچسپ واقعات کے مشاہدے کا موقع بھی دیتی ہے جنہیں آپ اپنے آپ میں گم رہ کر نظر انداز کر جاتے ہیں.
2- رویوں میں بے قاعدگی تلاش کیجیے جیسا کہ اوپر عرض کیا، عموما انسانوں کے رویے ان کے ماحول سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، اگر کسی کے ساتھ ایسا نہیں تو لازمی نہیں کہ وہ برا شخص ہی ہو، ہو سکتا ہے وہ کسی مشکل یا تکلیف کا شکار ہو، مگر اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیے اور دماغ حاضر.
3- اپنے دن بھر کے مشاہدے میں سے سب سے دلچسپ انسان کو یاد کریں اور سوچیں کہ آپ کیا کچھ دیکھنا بھول گئے؟ کہاں آپ سے اندازے میں غلطی ہوئی؟ اور کیا اس کا رویہ یا ردعمل آپ کی توقع کے مطابق تھا یا نہیں؟ اور اگلی مرتبہ آپ کو کوئی ایسا شخص ملا تو آپ اسے کیا باآسانی شناخت کر لیں گے؟
4- اپنے رویے کا مشاہدہ کرتے رہیں. جہاں بات باڈی لینگویج کی آتی ہے تو حیرت انگیز طور پر دنیا کے تقریبا تمام انسانوں میں اسی فی صد بدن بولی میں یکسانیت پائی جاتی ہے، محض بیس فی صد کے قریب فرق کلچر یا ماحول کا ہوتا ہے. جب آپ کچھ چھپانا چاہ رہے ہوتے ہیں، کسی کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کا انتظار تو جس طرح کے اشارے آپ کا بدن دوسروں کو دیتا ہے بالکل وہی اشارے دوسرے آپ کو بھی دیں گے جب وہ اسی صورتحال سے دوچار ہوں.
5- موقع ملے تو سکیورٹی پر مامور اداروں کے افراد کے رویے کا جائزہ لیتے رہا کریں، ایک تربیت یافتہ ذہن دوسروں کو کس طرح جج کرتا ہے؟ یہ جاننا آپ کےلیے دلچسپ تجربہ ہوگا، مگر اسے خود پر حاوی مت کیجیے گا کہ تربیت یافتہ افراد بعض ناگزیر تعصبات یا امتیازات کا شکار بھی ہوا کرتے ہیں.
6- مشاہدے اور اورنٹیشن کی جتنی اہمیت ہے اتنی ہی بروقت فیصلے اور اس پر فوری عملدرامد کی. اپنے ذہن میں کسی ناگہانی صورتحال میں کسی مشکوک شخص کو دیکھنے پر اپنا لائحہ عمل سوچتے رہا کریں. اگر آپ نے اپنے ممکنہ ردعمل اور ان کا طریقہ پہلے سے سوچ رکھا ہوگا تو ناگہانی صورتحال میں آپ مفلوج یا ماؤف نہیں ہوں گے.
7- اس موضوع پر انٹرنیٹ پہ بہت سا معیاری مواد دستیاب ہے، اپنا علم بڑھائیے. چند گھنٹے کسی نئے کام کو سیکھنے میں صرف کرنا آپ کو بہت سا feel good کا احساس بخشتا ہے.
8- اپنے مشاہدے اور تجزیے کے دوران اپنے ملک کے مخصوص ماحول، روایات اور سماجی رویوں کو مدنظر رکھیں.
9- جب آپ سچویشنل اوئیرنس کی پریکٹس کر رہے ہوں گے تو آپ کو بارہا بہت سے مشکوک لوگوں سے سامنا ہوگا. اپنی discretion کا استعمال کیجیے کہ یہ بہادری کا بہتر والا حصہ ہے. کہیں ایسے لوگوں کو نظرانداز کرنا بہتر ہوتا ہے اور کہیں فوری طور پر ان کو رپورٹ کرنا. قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد حاصل کرتے ہوئے یا ان کی مدد کرتے ہوئے بالکل مت گھبرائیے. یقین کیجیے کہ اس معاملے میں جو منفی باتیں آپ نے سن رکھی ہیں ان کا دس فی صد بھی شاید حقیقت پہ مبنی نہ ہو. عموما پولیس سمیت تمام ذمہ دار ادارے شریف شہریوں سے تعاون کرتے ہیں.
چند مشکوک رویے
1- ضرورت سے زیادہ اکڑ یا ضرورت سے زیادہ عاجزی یا تابعداری دکھانا.
2- جہاں سب نارمل ہوں وہاں ابنارمل رویہ یا جہاں سب ابنارمل یا پریشان ہوں وہاں نارمل رویہ. لندن پولیس نے ٹرین دھماکوں کے مجرم ایسے ہی شناخت کیے تھے، ابتدائی دھماکوں کے بعد جب ہر طرف panick کا عالم تھا، وہ ویڈیو میں نارمل لگ رہے تھے، کیونکہ انہیں دھماکوں کا پہلے سے علم تھا.
3- نارمل سے زیادہ کوشش، افغانستان میں امریکی افواج اپنی جاسوسی کرنے والے طالبان کو کسانوں میں سے ایسے ہی شناخت کرتے تھے، کیونکہ وہ بہت زیادہ محنت کر رہے ہوتے تھے.
4- ہاتھوں کی حرکات، سکیورٹی اداروں میں سب سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں پر توجہ دینا سکھایا جاتا ہے. آپ کے ہاتھوں کی غیرارادی حرکات و سکنات آپ کے متعلق بہت کچھ بتاتی ہیں، اور انتہائی شاطر یا نہایت اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کے علاوہ کسی کو ان پر اختیار نہیں ہوتا، جیسا کہ اوپر مثال میں مسلح افراد کا رویہ بیان ہوا. وہ دانستہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھ اپنے ہتھیار کی جانب نہ لے کر جائیں مگر اس کوشش میں وہ مزید مشکوک ہو جاتے ہیں.
یہ مضمون آپ کو سچویشنل اوئیرنیس میں ایکسپرٹ تو نہیں بنا پائے گا، لیکن اگر آپ اس موضوع میں دلچسپی لینے لگے ہیں تو یہی اس کی کامیابی ہے. اسے ایک فن کے طور پر سیکھنے کی کوشش کیجیے، یہ فن بھی ہے اور ڈھیر سارا fun بھی.
اس مضمون کی تیاری کے لیے مسٹر اینڈ مسز Bert Mckay کے Art of Manliness کے لیے لکھے گئے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے.
تبصرہ لکھیے