ہوم << عالمی سرمایہ دارانہ نظام، نواز شریف اور دہشت گردی - مجاہد حسین خٹک

عالمی سرمایہ دارانہ نظام، نواز شریف اور دہشت گردی - مجاہد حسین خٹک

مجاہد حسین خٹک برصغیر پاک وہند میں مودی اور نواز شریف کی اقتدار میں آمد کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خطہ مکمل طور پرسرمایہ داروں کی گرفت میں آ چکا ہے۔ دونوں ممالک کے سرمایہ دار کب سے ایک دوسرے کی مارکیٹس کو لالچی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ان پر قبضہ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ آخر کار انہیں کامیابی نصیب ہوئی۔ آج سرحد کے دونوں پار ان کے اپنے آلہ کار اقتدار میں آ چکے ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں سرمایہ دار قومی ریاستوں کے آزاد وجود کو کچل کر انہیں اپنا مطیع بنا چکے ہین۔ عدلیہ، انتظامیہ اور فوج جیسے ریاستی ادارے اس نظام کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں۔ ہندوستان بھی اپنے تمام ریاستی اداروں سمیت اس عالمی گٹھ جوڑ میں شمولیت اختیار کر چکا ہے۔ البتہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں جاگیردارانہ نظام کی باقیات ابھی تک موجود ہیں۔ اسی طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ ابھی تک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس کی کچھ تاریخی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں یہ طبقہ ہمیشہ اقتدار میں ایک غالب پارٹنر کے طور پر شامل رہا ہے۔ اب سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندے اس کی اجاری داری توڑنے کے درپے ہیں۔ چنانچہ ایک تو ان کی مزاحمت فطری ردعمل ہے دوسرا یہ طبقہ اس نئے منظر نامے میں اپنا اہم کردار چاہتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور بارڈر کے اس پار موجود اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں چاہتی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہو گی۔ نئے نظام کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں سے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
جب تک فریقین کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ جاتے، سرحد کے دونوں پار عام لوگوں کی بلی چڑھتی رہے گی۔ پہلے بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر میں قربان گاہ پر چڑھایا گیا تھا اوراب کوئٹہ میں پولیس کیڈٹس کا لہو بہایا گیا ہے۔ معلوم نہیں اور کتنا عرصہ اس کشمکش کی قیمت ہمیں اپنے جوان لاشوں کی صورت چکانا پڑے گی۔
سرمایہ دارجب کسی ریاست میں فیصلہ کن کردار حاصل کر لیتے ہیں تو انہیں ایک پرسکون معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں لوگوں کی فرسٹریشن اس حد تک نہ پہنچے کہ وہ بغاوت پر اتر آئیں۔ چنانچہ ایک طرف تو عام لوگوں کے لئے مونگ پھلی کے دانے پھینک دئیے جاتے ہیں اور دوسری طرف اظہار آزادی کے ذریعے انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا غصہ لفظوں کے ذریعے نکالتے رہیں۔
پاکستان میں نواز شریف حکومت اس حوالے سے لاپرواہ نظر آتی ہے۔ یہی اس کا منفی پوائنٹ ہے اور جس دن اس خطے کے سرمایہ داروں کو اس بات کا ادراک ہو گیا کہ نواز شریف ایک پرسکون معاشرہ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے، وہ شائد کسی دوسری سیاسی قوت پر ہاتھ رکھ دیں گے۔ کیا یہ دوسری سیاسی قوت عمران خان ہو سکتے ہیں، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ فی الحال تو نواز شریف کا مکمل تحفظ کیا جارہا ہے۔ جب بھی موجودہ حکومت پر کوئی دباؤ پڑتا ہے، سرحدوں پرگولہ باری شروع ہو جاتی ہے، پاکستان میں دہشت گردی پھیل جاتی ہے۔ میڈیا مکمل طور پر سرمایہ داروں کے ہاتھ آ چکا۔ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد میڈیا کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے۔
اس پورے معاملے میں چین ایک نئے پلیئر کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ اس کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ اس پورے خطے کا منظر نامہ تبدیل کر دے گا۔ چینی سرمایہ دار صرف اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ برصغیر میں ہونے والی اس کشمکش میں اس کے منصوبے کو کوئی زک نہ پہنچے۔ عمران خان نے چینی سفیر سے حال ہی میں ملاقات کرکے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ سیاسی قیادت میں تبدیلی اس منصوبے پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی اس صورتحال کا ادراک ہے۔
اس سارے معاملے میں بہت سی چھوٹی چھوٹی مزاحمتی قوتیں بھی موجود ہیں۔ کمیونسٹ فکر کے حامل افراد سے لے کر اسلامی انقلاب کی علمبردار بعض جماعتیں فکری سطح پر مزاحمت کر رہی ہیں مگر ان کا اثر فی الحال بہت محدود ہے۔ لبرل ازم کا تیزی سے پھیلتا نظریہ سرمایہ درانہ نظام کو معاشرے کے لئے قابل قبول بنانے کا ایک بڑا فکری ہتھیار بن چکا ہے۔ نواز شریف کی اس طبقے میں بہت زیادہ حمایت ایک ثبوت ہے۔ لبرل دانشور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتے ہیں، قومی ریاستوں کے وجود کو کم اہم بناتے ہیں، سرمایہ کی آزاد نقل و حرکت کا سبق پڑھاتے ہیں اور عمران خان کی سیاست کے کھلم کھلا مخالف ہیں۔ اسلام کو فرد کا نجی معاملہ قرار دے کر پوری تہذیبی اقدار کو زمین بوس کرنا ان کا ایک اہم مقصد ہے۔ یہ چند نکات مختلف انداز میں ہمیں دن رات ذہن نشین کرائے جا رہے ہیں تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔
پاکستان کے حقیقی دانشوروں کے لئے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انہیں اس عالمی گٹھ جوڑ کے ساتھ چلنا ہے یا اس کے خلاف مزاحمت کرنی ہے۔ ہماری تمام تر تہذیبی اقدار اس وقت سخت خطرے میں ہیں۔ کیا انہیں بچانا ایک قومی فریضہ ہے یا پھر ان تہذیبی تبدیلیوں کو ایک فطری تاریخی عمل سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے؟
تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ دارانہ نظام اپنے ارتقا کے اس مرحلے تک پہنچ چکا ہے جہاں سے مزید آگے نہیں بڑھا جا سکتا اور اب واپسی کا سفر شروع ہے؟ کیا اس زوال پذیر نظام کا ہمیں حصہ بننا چاہئے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس نظام کے ثمرات سے بھی پوری طرح اپنی جھولی نہ بھر سکیں اور اپنی تہذیب کا بھی بیڑہ غرق کر لیں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر مستقبل کے لئے فیصلے کرنے ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment