حیوان، اشتہا اور شہوت میں بےقابوُ ہوتا ہے۔ انسان کو ایسی جبلتوں پر قابُو پانے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ ہم جب کسی دوسرے شخص کو بے قابُو ہوکر کھانا کھاتا دیکھتے ہیں تو ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ اِسی طرح جب ہم کسی شخص کو جنسی خواہش کے لیے دیوانہ ہوا دیکھتے ہیں تب بھی ہمیں برا لگتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے ”انسان بھائی/بہن“ کو اتنا کمزور نہیں دیکھنا چاہتے۔ نبی، ولی، اوتار، لوگوں کی نظروں میں اس لیے معتبر ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنی دونوں بڑی حیوانی جبلتوں شہوت اور اشتہا پر قابُو پانے کی بہترین مثالیں چھوڑی ہوتی ہیں۔ ہر وہ شخص ہیرو جیسا محسوس ہوتاہے جسے اپنی ان دو خوفناک خواہشات پر قابُو ہو۔
ہم شادی بیاہ میں دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو کھاتے ہوئے حریص دکھائی دیتے ہیں وہ سب کو برے لگتے ہیں۔ اِسی طرح وہ لوگ جو جنس ِ مخالف کی موجودگی سے متاثر ہوکر مخصوص حرکات و سکنات پر اتر آتے ہیں، وہ بھی سب کو بہت برے لگتے ہیں۔ انسان دوسرے انسانوں کو کھانے کا حریص یا شہوت کے لیے وارفتہ دیکھے تو اُسے غصہ آتاہے۔ اسے دوسروں کی یہ کمزوری بہت بری لگتی ہے۔ فی الحقیقت اسے دوسروں میں اپنی فطرت کا عکس دکھائی دیتاہے۔ وہ بھی ایسا ہی کمزور ہے۔ انہی جبلتوں اور فطرتوں نے اسے بھی بے قابو کررکھا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ غیرت کیا ہے؟ حیا اور بے حیائی کے تصورات کہاں سے آئے؟ اشتہا اور شہوت تو جبلت ہیں، ان جبلی خواہشات کی تکمیل کے لیے کی گئی حرکتیں کیوں مذموم سمجھی جاتی ہیں؟
ذرا غور سے دیکھیں تو یہ دونوں اخلاقیات کی بنیاد رکھنے والے عناصر ہیں۔ ذرا غور سے دیکھیں تو شہوت اور اشتہا کی جبلت کو بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان کی تسکین کے حیوانی طریقۂ کار کو برا سمجھا جاتاہے۔ ہم فلموں میں، ناولوں اور کہانیوں میں ایک لڑکی اور لڑکے کا پیار دیکھتے ہیں تو ہمیں کبھی اُن پر غصہ نہیں آتا۔ لیکن اپنے گلی، محلے میں ایک لڑکی اور لڑکے کا پیار ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا۔ ہر قوم کے ہاں محبت کی داستانیں ہیں۔ لیلی مجنوں کے قصے کی طرح کے قصص پٹھانوں، پنجابیوں، بلوچوں، انگریزوں، فرانسیسیوں، جاپانیوں سب کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ اور ہرکہیں محبت کی ان داستانوں کو بہت اچھا سمجھا جاتاہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اِس لیے ہے کہ شہوت اور اشتہأ کی تکمیل کے دو طریقے ہیں۔ ایک انسانی اور دوسرا حیوانی۔ جب کوئی شخص کھانے پر ٹوٹ پڑتاہے، اپنے منہ سے چپڑ چپڑ کی آوازیں نکالتاہے، بوٹیوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتاہے تو اس کے چہرے پر ایک خاص قسم کے تاثرات (ایکسپریشنز) ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ تاثرات دوسروں کے لیے ناپسندیدہ ہیں۔ انہیں کراہت محسوس ہوتی ہے اور وہ ایسی حرکتوں کو مکروہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن وہی شخص اگر پہلے سے زیادہ کھانا بھی کھالے لیکن کھائے ایک خاص صبر کے ساتھ جو اس کے چہرے پر ایسے تاثرات ظاہر نہ ہونے دے تو وہ دیکھنے والے کو اچھا لگتاہے۔
فلمی ہیرو اور ہیروئن کا پیار جس میں دونوں کے چہروں پر ہوس کے تاثرات ظاہر نہیں ہوتے کسی کو برا نہیں لگتا۔ چنانچہ عام زندگی میں بھی اگر ایک جوڑے کے چہرے پر فلمی ہیرو اور ہیروئن جیسے ہوس سے پاک تاثرات ظاہر ہوں گے تو لوگوں کو برا نہیں لگے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی فلم میں ہیرو کے بجائے ولن کے چہرے پر چاہے مصنوعی ہی سہی، ہوس کے تاثرات دکھائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ولن سے ناظرین کو نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔ غرض باسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اشتہا اور شہوت کی تکمیل کے لیے جلد بازی اور بےصبری کراہت انگیز تاثرات کو جنم دیتی اور باقی انسانوں کی نظروں میں مکروہ قرار پاتی ہے۔
حکما کا کہنا ہے کہ اشتہا پر قابُو پالینے سے شہوت پر قابُو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے کے اعتبار سے بھی درست ہے۔ ایک شخص جو بھوک کے عالم میں کھانا کھاتے ہوئے صبر کا مظاہر کرسکتا ہے وہ اپنی شہوت پر قابو پانے کا بھی دوسروں کی نسبت زیادہ اہل ہوتاہے۔ اور اگر یہ بات درست ہے تو ثابت ہوا کہ بنیادی طور پر قابُو صرف ایک ہی جبلت پر پانا ہوتاہے اور وہ ہے اشتہأ۔ یعنی آپ پیٹ کے لیے کس قدر گِر سکتے ہیں؟ زمین پر پیٹ کے بل رینگتے ہوئے کیڑوں مکوڑوں کی سطح تک؟ یا جنگل میں پیٹ کے لیے دوسروں جانوروں کو چیرتے پھاڑتے درندوں کے مقام تک؟
تمام قضیات اور تصریحات سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ”صبر“ (ٹیمپرامنٹ) ہی وہ مشکل ترین عمل ہے جو انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا اور اسے صاحب ِاختیار بناتاہے۔ کیونکہ اگر ہم اپنی خواہشات کے تابع ہوکر جیتے ہیں تو پھر ہم جانور اور بایں ہمہ پابند ِ تقدیر ہیں اور اگر ہم اپنی خواہشات پر قابو پاکر صبر سے جینا جانتے ہیں توپھر ہمارے پاس کم ازکم ایک اختیار آچکا ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی جبلی خواہشات کو اپنی مرضی سے روکنے کی صلاحیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ اشتہا پر قابُو سے شہوت پر قابُو کی صلاحیت نمو پاتی ہے اور شہوت پر قابُو پالینے سے غصہ، تجسس اور خوف پر قابُو پالینے کی صلاحیت خود بخود نمودار ہونے لگتی ہے۔
تبصرہ لکھیے