ہوم << چیونٹی اور عورت - صائمہ بتول

چیونٹی اور عورت - صائمہ بتول

چار ملی گرام کا ننھا سا وجود، سو ملی گرام یعنی اپنے وجود سے سو گنا وزنی بوجھ اٹھائے چلا جا رہا تھا۔ ملکہ کا حکم تھا کہ سردیوں کی آمد سے پیشتر خوراک کےگودام کو اناج سے بھرنا ہے۔ سردیوں میں سطح زمین کا درجہ حرارت ان کے ننھے وجود کو حرارت کی مطلوبہ مقدار فراہم نہیں کر سکتا اور ان کو زمین کے اندر پندرہ پندرہ فٹ گہری سرنگیں کھود کر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا پڑتا۔ ان سرنگوں میں خوراک کے لیے اس جمع شدہ اناج سے استفادہ کیا جاتا، اس کی کالونی ایک سو ستر کلومیٹر کےعلاقے پر پھیلی کل چالیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جن میں سے پچیس ہزار اس کی طرح خوراک ڈھونڈنے والی کارکن تھیں۔ وہ اپنی باقی ساتھیوں کی طرح پوری جانفشانی سے اپنا فریضہ سرانجام دے رہی تھی۔ قدرت نے ان کے اندر ایسا جاندار سسٹم لگا دیا تھا کہ اس انتھک محنت کی انجام دہی کے لیے انہیں نہ تو کسی لیڈر کی تحریک کی ضرورت تھی نہ کسی مینیجر کی نظارت کی۔ جب بھی اس کا سامنا خوراک کے کسی ذخیرہ سے ہوتا تو اس کی کچھ مقدار اپنے معدے میں اتار لیتی اور کچھ مقدار پیٹ کے دوسرے حصے میں کسی ساتھی کی مدد کے لیے ذخیرہ کر لیتی۔ اور گودام میں ذخیرہ ہونے والی بھاری خوراک کو اٹھانے کے لیے اپنے مضبوط جبڑوں کو استعمال کرتی۔ اپنے وجود سے سوگنا وزنی بوجھ جب اس کے بدن کو توڑنے لگتا تو وہ ایک منٹ کی نیند لے کر پھر سے تازہ دم ہو جاتی۔ جب کبھِی اتنا بڑا ذخیرہ ہاتھ لگتا جسے اکیلے اٹھانا بس سے باہر ہوتا تو ایک خوشبو دار ٹریل چھوڑتی جو آس پاس موجود ساتھیوں کو خبر دارکر دیتی اور امداد باہمی کے اصول کے تحت بھاری ذخیرہ منزل مقصود تک پہنچ جاتا۔
خوراک سے لدا قافلہ جیسے ہی کالونی کے سرے تک پہنچتا، نگرانی پر مامور چوکس دستہ ان کی چھان پھٹک کے لیے آن دھمکتا۔ ابھی شناختی پریڈ ختم نہ ہونے پاتی کہ صفائی کے انتظامات پر مامور دستہ اپنا ہدایت نامہ لیے حاضر ہوتا۔ خوراک کو مخصوص مقام پر پہنچا کر، وہ پیٹ کے دوسرے حصے میں محفوظ خوراک کو اپنی عزیز سہیلی جو کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ڈیوٹی پر مامورتھی کہ چونچ میں ڈال آتی۔ اور دوبارہ خوراک کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی۔ بغیر رکے، بغیر تھکے، بغیر چھٹی یا آدھی چھٹی کے اسے بس کام، کام اور صرف کام کرنا تھا۔ اس مسلسل محنت کے لیے اسے نہ تو کسی سے شکایت تھی نہ کسی صلے کا لالچ ۔ اس کا کام دنیا کی نظر میں بہت معمولی تھا، لیکن اسے یہ حقیقت اچھی طرح یاد تھی کہ اگر اس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا تو اس کی ساری کالونی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
میں عورت کی فطرت اور روزمرہ کی روٹِین پر جتنا غور کرتی ہوں چیونٹِی کے ساتھ اس کی مشابہت اتنی گہری ہوتی چلی جاتی ہے، اپنے وجود سے کئی گنا وزنی بوجھ اٹھائے، دن رات، بغیر رکے، بغیر تھکے، بغیر کسی چھٹی، یا صلے کے لالچ کے، کام کام اور بس کام کرتے چلے جانا۔

Comments

Click here to post a comment