ہوم << معافی کو رواج دیں - احتشام احمد یوسفزئی

معافی کو رواج دیں - احتشام احمد یوسفزئی

احتشام احمد یوسفزئی چند دن پہلے معمول کے مطابق سٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کررہا تھا، چند قدم کے فاصلے پر ایک نوجوان کھڑا تھا اور ساتھ دوسرے لوگ بھی تھے جو بَس کا انتظار کررہے تھے..
اچانک ایک رکشے والے نے اس نوجوان کو ٹکر ماردی، ٹکر زیادہ زور کی نہیں تھی لیکن بہر حال اس کی ٹانگوں پر چند خراشیں آگئیں..
اس نوجوان نے اشتعال میں آنے کے بجائے بڑے ٹھنڈے مزاج میں خوش اسلوبی کے ساتھ اس رکشے والے سے بات کی، چونکہ غلطی رکشے والے کی تھی تو اس نے بھی فورا اپنی غلطی کو تسلیم کرلیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا اور رکشے والے نے اپنی راہ لی... تھوڑی ہی دیر میں چند بڑی عمر کے لوگ جو حادثہ کے عینی شاہدین میں سے تھے اس نوجوان کو شرمندہ کرنے لگے کہ اس کو رکشے والے کو سبق سکھانا چاہیے تھا، معاف کرکے اس نے اچھا نہیں کیا.. اگر وہ اس کی جگہ پر ہوتے تو اس رکشے والے کو دو تین تھپڑ رسید کرتے.. چنانچہ ان کی باتیں سن کر اس نوجوان کو اپنی کیے پر ندامت ہونے لگی اور افسوس سے سر ہلانے لگا..
جب بات ختم ہوئی تو میں اس نوجوان کی طرف بڑھا اور اس کی ہمت بندھائی اور سمجھایا کہ اس نے معاف کرکے بہت اچھا کیا اور معاملے کو فورا ختم کردیا.. بات زیادہ بڑی بھی نہیں تھی اگر وہ گالم گلوچ شروع کردیتا تو بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی اور یہ چھوٹا سا حادثہ سنگین صورتحال اختیار کر لیتا.. اور ویسے بھی معاف کرنے کی جو فضیلت ہے وہ بدلہ لینے میں نہیں، اس نوجوان نے بھی مسکراتے ہوئے موافقت کی۔۔۔
ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ معافی کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے اور ہر شخص بدلہ لینے کے لیے پر تول رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت، انتقام اور ظلم تیزی سے پنپ رہے ہیں .. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو معاف کرنے اور برداشت کرنے کی ترغیب دیں بجائے اس کہ کہ انہیں انتقام لینے کا عادی بنائے اور انتقام کی آگ جب ایک دفعہ بھڑک جائے تو پھر برسوں تک سلگتی رہتی ہیں اور معاف کرنے سے بہت سے بڑے بڑے معاملات لمحوں میں حل ہوجاتے ہیں.