کراچی میں نادرا کے دفتر میں ایف سی کی سیکورٹی کمپنی کے گارڈ نے خاتون اینکر کو تھپڑ جڑدیا۔۔۔ سب سے پہلے اس واقعے پر انتہائی افسوس کا اظہار، کیوں کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ خاتون کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔۔ یہ امریکا یا بھارت نہیں جہاں عمومی رویہ خواتین کو جوتی کی نوک پر رکھنا ہے۔ پاکستان میں جہالت اور غربت کے باعث ایسے واقعات سامنے آتے ہیں لیکن ان کی شرح امریکا، بھارت وغیرہ سے کم ہے۔
فریقوں کا موقف
خاتون اینکر نے سوشل میڈیا اور بعد میں ٹی وی چینلز پر آکر یہ موقف رکھا کہ نادرا کے اس دفتر میں خواتین اور بزرگوں سے ہتک آمیز رویہ رکھا جاتا تھا۔ وہ اپنے خلاف کیے جارہے پروپیگینڈے سے بھی نالاں نظرآئیں اور کہا کہ کسی کی ماں بہن کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا تو اس کا غصے میں آنا فطری تھا۔
نادرا والوں کا موقف ہے خاتون اینکر نے کارسرکار میں مداخلت کی،، مشتعل ہوکر گارڈ نے یہ قدم اٹھایا۔۔۔
لیکن گارڈ کا تھپڑ مارنا اور پھر ہوائی فائرنگ کرکے عوام کی جان خطرے میں ڈالنا کسی طور بھی عقل مندی نہیں اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
واقعے کی مذمت کرکے آگے بڑھتے ہیں۔۔
المیہ
یہ واقعہ سوشل میڈیا کی ًزینتً بنا اور قریب چوبیس گھنٹے بعد الیکٹرونک میڈیا پر آیا۔ جسے بازی لے جانے کے لیے مشہور ایک چینل نے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔ یہ معاملہ جس طرح اچھالا گیا تو ہر نیوز روم میں بیٹھا سنجیدہ صحافی اپنی عقل پر ماتم کیے بغیر نہ رہا۔ دیگر ٹی وی چینلز نے بھی دیکھا دیکھی اور سوچے سمجھے بغیر تھپڑ مارنے کی ویڈیو بار بار چلائی۔۔ خیر ڈیڑھ دو گھنٹے بعد تھپڑ مارنے کا منظر غائب کردیا گیا اور پھر والدین کو خبردار کیا جانے لگا کہ آپ کے بچے پر برے اثرات پڑسکتے ہیں۔۔۔۔
آزادی صحافت پر حملہ؟؟
بازی لے جانے کے لیے مشہور ایک چینل نے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا، صحافی تنظیموں اور انسانی حقوق کے نمایندوں سے بات کی۔۔۔ کس نے کیا کہا وہ آپ نے دیکھا ہی ہوگا لیکن کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی کا موقف نہایت مناسب تھا۔ انہوں نے کہا ًتلوار سے آلو نہیں کاٹے جاتےً۔ ًخاتون اینکر کو بھی تحمل سے کام لینا چاہیے تھاً۔۔ اسی طرح ایک اور سینئر صحافی نے گارڈ اور خاتون اینکر کے رویے کو تربیت کی کمی قرار دیا۔۔ یہ موقف بھی بہت مناسب لگا۔ پھر آزادی صحافت پر حملہ کیسے ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ کسی صحافی کو رپورٹنگ کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
صحافتی اقدار
اس واقعے میں ان تمام چیزوں کو فراموش کیا گیا جو صحافت کے اخلاقی دائرے میں تصور کیے جاتے ہیں۔ یعنی آپ صحافی ہیں،، جج نہیں،، آپ کا کام رپورٹ کرنا ہے۔۔ ًمتاثرین یعنی نادرا دفتر میں پریشان حال عوام کا موقف بیان کرنا،، گارڈ اور دیگر عملے کے نامناسب رویے کی نشان دہی کرنا اور اس سلسلے میں نادرا افسر کا موقف جاننا۔۔۔ً اس معاملے میں یہ تمام باتیں کہیں نظر نہیں آئیں۔ اس کی بجائے معاملہ اپنے طور پر اٹھانے، نمٹانے اور فیصلہ سنانے میں جلدی کی گئی۔ نتیجے میں خاتون اینکر کو تھپڑ پڑا اور ان کے خلاف ایک عدد ایف آئی آر بھی درج کرادی گٰئی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ بچے کی اسکول فیس اچانک بڑھادی جائے اور والدین جاکر اکاونٹنٹ سے لڑپڑیں۔۔ اس معاملے میں والدین کو سیدھا اسکول پرنسپل کے پاس جانا چاہیے اور اپنی مشکلات کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ اکاونٹ سے تلخ کلامی اور بدتمیزی کی جائے۔
صحافت کا المیہ
الیکٹرونک میڈیا میں روزگار کے مواقع نکلے تو بڑی تعداد میں نوجوان اس کا حصہ بنے اور اب بھی بن رہے ہیں۔۔ آپ کسی سڑک پر چلتے نوجوان لڑکے یا لڑکی کو روک کر پوچھیں کہ اسے نیوز چینل میں جاب دی جائے تو وہ کیا بننا پسند کریں گے تو ان کا پہلا اور شاید آخری جواب ًاینکرً ہوگا۔۔ المیہ یہی ہے کہ بیشتر روڈ اور کرائم شوز کے اینکر صحافی نہیں،، اس لیے ان کے انداز میں وہ تربیت نظر نہیں آتی جو کسی صحافی کو ڈیسک یا رپورٹنگ کرتے ہوئے ملتی ہے۔ ایسے میں پروگرام کی ریٹنگ کا مسئلہ ہو اور سب سے پہلے کی دوڑ۔۔ تو یہ سب ہی ہونا ہے جو لیاقت آباد کے نادرا دفتر میں ہوا۔۔ ایسے واقعات پہلے بھی دیکھنے میں آئے ہیں، جب ٹی وی شو کے غیرتربیت یافتہ اینکرز نے کسی سرکاری و نجی دفتر، اسپتال یا اسکول کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی تو عملے اور گارڈز نے ان پر تشدد کیا۔۔
بعض واقعات میں تربیت میں کمی کا عنصر نمایاں نظر آٰیا جو دونوں ہی فریقوں میں پائی گئی۔ اس کی وجہ بھی بنتی ہے کیوں کہ بیشتر ادارے اپنے ملازمین کو کسی بھی قسم کی تربیت یا سبق دیے بغیر میدان میں اتار دیتے ہیں اور پھر آزادی صحافت پر حملہ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔
آخری بات
خدا خدا کر کے جرائم کے واقعات پر مبنی پروگرامز بند ہوئے ہیں اور اب پیمرا انڈین مواد پر بھی سخت موقف اختیار کررہا ہے۔ پیمرا کو ان پروگرامز کی جانب بھی توجہ کرنی چاہیے جو بلیک میلنگ کے لیے مشہور ہیں اور صحافت کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ پیمرا یہ کام بہتر انداز میں انجام دے تو صحافت کو پڑنے والے تھپڑ ﴿جو گارڈ اور اینکر مارتے ہیں﴾ جیسے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے