ہوم << اسلام آباد بند کرنے سے کیا ہوگا؟ محمد تنویر اعوان

اسلام آباد بند کرنے سے کیا ہوگا؟ محمد تنویر اعوان

محمد تنویر اعوان تاریخ کا مطالعہ کریں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم پر کڑا وقت آیا ہے تو قوم متحدہوجایاکرتی تھی قوم کے بڑے اپنے تمام اختلافات بھلاکر ایک ہوجایا کرتے تھے۔سلجوقیوں کا دورحکومت تھا سلطان محمد کی حکومت تھی ۔اپنے عہد کے بڑے مشاہیر عمرخیام ،نظام الدین اورفدائیوں کے سربراہ حسن بن صباح بھی اسی دورسے تعلق رکھتے ہیں۔سلطان کا چھوٹا بھائی سنجر جو کہ ایک بہادرجرنیل تھا اس نے کبھی میدان جنگ میں شکست نہیں دیکھی تھی جس جنگ میں گیا فتح نے اس کے قدم چومے۔اسی دور میں تاتاری اٹھے اور ان کے سامنے جو آیا اسے شکست دیتے چلے گئے تاریخ بتاتی ہے کہ سنجر ہی وہ پہلا جرنیل تھا جس نے میدان جنگ میں تاتاریوں کو پسپاہونے پر مجبورکیا۔اور پھر ایک وقت ایسابھی آتا ہے کہ سنجر خانہ بدوشوں سے شکست کھا جاتا ہے۔اصفہان شہر سے باہرخانہ بدوش رہا کرتے تھے جو سلجوقی سلطنت کو خراج دیا کرتے تھے۔لیکن پھر انہوں نے خراج دینا بندکردیا اورسلجوقی سفیرکو بے عزت کرکے واپس بھیج دیا۔اسی دوران سنجر ایک بڑی فوج لیکر تاتاریوں سے مقابلہ کرنے نکلا راستے میں خانہ بدوش بھی آتے تھے چنانچہ سنجر نے آدھی فوج اپنے ساتھ لی اور آدھا لشکر وہیں چھوڑ دیا اورخانہ بدوشوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔خانہ بدوشوں نے بڑی منتیں کی معافیاں مانگیں اور تین گنا خراج دینے کے وعدہ کیا لیکن سنجر نہ مانا اورتاریخ گواہ ہے کہ جب خانہ بدوشوں نے دیکھا کہ جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تو وہ ایک ہوگئے انہوں نے طے کرلیا کہ اب مارنا ہے یامرنا ہے۔اورلکھنے والے لکھتے ہیں کہ سنجر جیساجرنیل اورسلجوقیوں جیسی تجربہ کار فوج ان خانہ بدوشوں سے شکست کھا گئی۔یہ اتحاد ہی تو ہے جو قوموں فتح یاب کیا کرتا ہے۔کامیاب کیا کرتا ہے۔
یہاں اہل پاکستان کے لئے یہ واقعہ سبق آموز ہے۔پاکستان اس وقت بھارت سے نبردآزما ہے۔کشمیر میں آذادی کی تحریک چل رہی ہے بھارت کی طرف سے مظالم کئے جارہے ہیں۔بھارتی حکومت جنگ کی دھمکیاں دے چکی ہے۔بلوچستان میں "را"موساداورسی آئی اے کی سازشوں کا سامناہے۔کراچی میں را کے وسیع نیٹورک کا انکشاف ہوا ہے۔پختونخواء میں امن وامان کا مسئلہ ہے۔امریکہ ڈومورکا مطالبہ کرتا چلا جارہا ہے۔سی پیک منصوبے کو متناذعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔غرض وہ تمام علامتیں موجود ہیں۔جو کہ کسی قوم کو متحد کردیا کرتی ہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے شاید ہمارے رہنماء حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کرپارہے ہیں۔ یہاں ضرورت اس امر کی تھی کہ قومی قیادت کو ملک کے حالات اور چیلنجز سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی جاتی اس کے بعد ان سیشن اجلاس کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔قوم سے خطاب کرکے حالات کی سنگینی کا احساس دلایا جاتا قوم کوتیار کیا جاتا لیکن ایسی صورتحال میں بھی ہمارے ملک کی اعلیٰ قیادت ملک سے باہر تھی جبکہ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کا دعوے کررہاتھا۔
اس وقت وطن عزیز میں سیاسی ماحول سخت کشیدہ ہوچکا ہے۔پانامہ لیکس میں نام آنے کے بعد سے تحریک انصاف وزیراعظم سے استعفے اورتحقیقات کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے۔ماضی میں بھی تحریک انصاف اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دے چکی ہے اوراس بار بھی تحریک انصاف نے 2نومبرکو اسلام آبادبند کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عمران خان نوجوانوں کے مقبول ترین رہنماء ہیں اور حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اسلام آباد میں عوام کو جمع کرنا تحریک انصاف کے لئے چنداں مشکل کام نہیں ہے۔تحریک انصاف ملک کے کسی بھی مقام پر لوگوں کا جم غفیر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لیکن اسلام آباد بند کرنے سے کیا ہوگا اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے اس کا اندازہ نہ تو خان صاحب کو ہے اور نہ ہی دوسری اپوزیشن جماعتوں کواس کی پرواہے۔صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں۔
اس حوالے سے ملکی اورعالمی سطح پر پیشن گوئیاں جاری ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد بند کرنے سے تیسری قوت فائدہ اٹھائے گی اور جمہوریت ڈی ریل ہوجائے گی۔بعض کے نزدیک اسلام آبادبند ہونے سے سی پیک منصوبہ متاثر ہوسکتا ہے۔چین بھی موجودہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرچکا ہے اورچینی سفیر نے عمران خان صاحب سے ملاقات کرکے معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر ذوردیاہے۔
تناؤ کی یہ کیفیت ایک ایسے ماحول میں پیداہوئی ہے جبکہ ایک طرف بھارت لائن آف کنٹرول پر دراندازی کررہا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آذادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔ایسے میں پاکستان کے اندر سیاسی بحران کا پیدا ہونا یقیناًملک دشمن قوتوں کو فائدہ دے گا۔امریکہ اسرائیل ایران اوربھارت سمیت عرب ممالک بھی نہیں چاہتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے۔کیا دوست اور کیا دشمن ہر ملک اپنے مفاد کی خاطر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔گوادرپورٹ کی تکمیل سے عرب ممالک اورایران براء راست متاثرہوں گے۔ماہرین کے مطابق سی پیک منصوبے سے 2030 تک 7 لاکھ لوگوں کو براء راست روزگار ملے گا اور ملک کی سالانہ ترقی کی شرح 2 سے ڈھائی فیصد بڑھے گی۔سی پیک کا پاکستان کی سالانہ آمدن میں 17فیصدہوگا۔اس منصوبے سے 2020تک 10ہزار400میگاواٹ یومیہ بجلی پیداکی جاسکے گی۔جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔لیکن بدقسمتی سے اس وقت کسی بھی رہنماء کو اس منصوبے کی قدرومنزلت کا احساس نہیں ہے۔ہر سیاسی جماعت اپنی سیاست کی دکان چمکانے میں لگی ہوئی ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں سول ملٹری تعلقات میں بھی سخت کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔یقیناً یہ حکومتی ناعقبت اندیشی کی مثال ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ فوج بیک وقت تین مختلف محاذ پر ملک دشمنوں کا مقابلہ کررہی ہے تو ایسے میں اپنی ہی فوج کو بدنام کرنے کی احمقانہ کوشش کرنا ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔یہ غلطی شاید حکومت کو بہت بھاری بھی پڑے گی۔باوجود اس کے کہ حکومت اس وقت شدیدپریشانی سے دوچار ہے اورحکومتی رہنماؤں کی جانب سے بجائے اپوزیشن جماعتوں کو اعتمادمیں لینے کے تندوتیز بیانات دیئے جارہے ہیں۔پیپلزپارٹی اس ساری صورتحال سے الگ تھلگ ضرورہے لیکن وقت آنے پر پیپلز پارٹی بھی سڑکوں پر آسکتی ہے۔اگر میاں صاحب دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے تو شاید ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی اپوزیشن کے مطالبے پرجوڈیشل کمیشن کی تشکیل معاملات کو حل کرنے کا اشارہ ہوتی لیکن شاید میاں صاحب کے قریبی مصاحبین کو اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس قدر سنگین ہوجائیں گے۔اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ خان صاحب نے کشتیاں جلادی ہیں۔اب عمران خان کسی صورت اسلام آباد بند کرنے سے دستبردارنہیں ہوں گے۔گوکہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا نوٹس لے لیا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید بہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق اب پانی سر سے گزرچکا ہے۔
اب اگر حکومت اپوزیشن کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے تو ملک داخلی انتشار کا شکار ہوجائے گا ۔جب امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی تو مجبوراًفوج کو داخلی معاملات میں مداخلت کرنے پڑے گی۔اس طرح جمہوریت ڈی ریل ہوسکتی ہے۔اگر حکومت اپوزیشن کو نہیں روکتی انہیں احتجاج کرنے دیتی ہے تو ماضی کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب مشتعل ہجوم پارلیمنٹ کی طرف مارچ کا فیصلہ کرلے۔ایسی صورت میں بھی امن وامان کی صورتحال مزید خراب ہوگی ۔نتیجہ پھر وہی نکلے گا کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنے پڑے گی۔لیکن آثاراور ذرائع بتاتے ہیں کہ فوج اس وقت کسی ایسے ایڈونچر کے موڈ میں نہیں ہے۔فوج اپنا کام کرنا چاہتی ہے۔اعلیٰ عسکری اداروں کو ترجیح اس وقت لائن آف کنٹرول کی صورتحال اوردہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ہے۔بہرحال ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن نقصان پاکستان کو پہنچے گا سی پیک منصوبہ متاثر ہوگا سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ملک عد استحکام کا شکارہوگا۔اس صورتحال سے بچنے کی ایک راہ یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کمیشن بنا کر استعفیٰ دے دیں ۔اور جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوجاتی ۔عنان حکومت کسی دوسرے کے حوالے کردیں۔ماضی میں بھی پنجاب میں دوست محمد کھوسہ وزیراعلیٰ رہے ہیں جن کے بعد شہباذشریف صاحب وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔یہاں دلچسپ صورتحال اس لحاظ سے ہے کہ میاں صاحب کسی پر اعتمادکرنے کو تیار نہیں ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ ن لیگ پلان اے بی اور سی بناچکی ہے جو کہ وقت آنے پر سامنے لائے جائیں گے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ ملک ایک بحران کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن اس بحران کو روکنے کوکوئی بھی تیارنہیں۔

Comments

Click here to post a comment