ہوم << الٹے ہاتھ - کاشف جانباز

الٹے ہاتھ - کاشف جانباز

جس طرح سیدھے ہاتھ کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بعینہ الٹے ہاتھ کی کرشمہ سازیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا بلکہ میں تو یہاں تک کہنا چاہتا ہوں کہ اس الٹے سیدھے کی رسہ کشی میں الٹا اپنی اجارہ داری قائم کر چکا ہے. ویسے بھی سیدھے کاموں میں وہ چس سواد کہاں جو الٹے امور کی انجام دہی میں پوشیدہ ہے.
چلیں اس الٹے کی حمایت میں سیدھی بات بھی کرتا چلوں کہ یہ عصر حاضر سیدھوں کے لیے قطعا سازگار نہیں، اگر سازگاری کسی کا ورثہ ہے تو فقط الٹوں کا مجال کیا جو ان کے پلو سے اس کی بندھی گرہ کھلتی ہو. اس الٹے سیدھے کا جھمیلا اک عرصہ چلا، بالآخر اس پنجہ زنی میں الٹے نے خود کو سیدھا باور کروا لیا، ویسے بھی سیدھے کاموں کا اسٹیٹس ہی کیا ہے، وہی بھدا بیکار کرکی مفلس اور چیپر اس لیے اب سیدھے سے سیدھا بندہ بھی الٹے ہاتھ والے کاموں کو جی داری سے نبھاتا ہوا نظر آتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ مامور تو سیدھے کاموں پر ہوتے ہیں لیکن چونکہ معمور الٹے کاموں سے ہو چکے ہیں، اس لیے سیدھے کام ہمارے وارے میں نئیں آتے.
خدانخواستہ سرکاری اداروں سے کسی کام کے سلسلے میں خواہ بلا کے سیدھوں کا واسطہ پڑ جائے اسے اتنے الٹا گھمایا جاتا کہ اکتا کر وہ الٹے ہاتھ والوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے. اب سیدھا عمل تو یہی ہے کہ قطار میں لگ کر اپنی باری کے حساب سے کام کروایا جائے لیکن چونکہ ہمای مصروفیات گراں ہیں اس لیے اس مغز ماری سے جان چھڑا کر قائداعظم کی مدد سے پہلے بھگتنے کو ترجیح دیتے ہیں...
جبکہ قربان جاؤں رسیپشن والوں کی ہمت پر کہ جو سیدھے ہاتھ والوں کا کام اس قدر سبک رفتاری سے کرتے ہیں کہ کچھوے کے چلنے پر بھی رشک آنے لگے اور اسی جگہ الٹوں کا کام سیدھوں سے منہ پھیر کر اس برق رفتاری سے کرتے ہیں کہ پلک جھپکنے میں انہیں فراغت مل جاتی ہے. قطار کے فالوورز کے رخساروں پر الٹے ہاتھ کی ایسی چپیڑیں رسید کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر بلک کر الٹا روپ دھار لیتے ہیں. ویسے ہمیں سیدھا زاویہ راس بھی نہیں قصاب جب تک گوشت میں پانی کا پائپ نہ چھوڑے ہمیں لذت نہیں ملتی دودھ خالص مل جائے تو ہمیں بد ہضمی ہوجاتی ہے اور مستقبل کے معماروں کو جب تک نقل کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں تو وہ اسے ظلم اکبر گردانتے ہیں...
شریعت کا اطلاق ہمارے لیے سب سے دوبھر کام ہے، جو لاکھ سیدھا ہوگا مگر ہم پر وبال ہے، اس لیے ہم اس کا نام سنتے ہی الٹے پیر دوڑ پڑتے ہیں. سیرت طیبہ دعوے کی حد تک تو سر آنکھوں پر مگر اسے زندگی پر لاگو کرنا سب سے الٹا کام معلوم ہوتا ہے.
ویسے ہمیں بڑی عجیب صورتحال کا سامنا ہے جو کام ہمارے معیار کے مطابق سیدھے ہیں، انہی کو ہمارے لیے ممنون قرار دے دیا گیا اور نہ جانے کیسے الٹے پلٹے کاموں کو سیدھا بتا کر ہم پر تھوپ دیے گئے ہیں. جیسے راست بازی ،حق گوئی، نگاہوں کا جھکانا، صلہ رحمی، حرام سے فرار وغیرہ. اب یہ راست بازی بھلا اس دور میں اس کی پیروی ممکن ہے جبکہ یہاں ایک سے بڑھ ایک نشانے باز باطل کا ترکش اٹھائے کھڑا ہے. حق گوئی موجودہ زمانے میں اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ بندہ حق کہے یہ حق کی موت کا دور ہے جو اسے زبان پر لائے وہ جان سے جائے اس لیے اس سے فرار بہترین حکمت عملی ہے.
نگاہوں کا جھکانا کیسی ناقابل سمجھ منطق ہے، نظریں جھکاؤ چاہے سامنے موجود کھمبے سے ٹکرا کر سر پھٹوا لو، یہ دیدے کیا سنبھال کر رکھنے کے لیے دیے گئے ہیں کہ شو پیس بنا کر پھرتے رہیں آنکھیں ہیں تو نظارہ فرض ہے.
صلہ رحمی حد درجے کی بے ڈھب ترکیب ہے جنہیں سیدھے منہ بات تک کرنا گوارہ نئیں ان کی پیر پڑنے کے مترادف ہے جنک ی ساری چارہ جوئی برباد کرنے کی ہو ان سے روابط استوار رکھے جائیں بھلا ایسا بھی ممکن ہے وہ بھی اس برق آمیز معاشرے میں کہ جہاں کسی کی ذرا سی بات سالوں سکون نئیں لینے دیتی تھوڑی سی غلطی عمر بھر کا واسطہ کاٹ کر پھینک دیتی ہے ایسے میں صلہ رحمی نہیں قطع رحمی سیدھا زاویہ ہے...
حرام سے فرار بھلا کوئی بات ہے کرنے والی اس سے بڑھ کر پیٹ پر لات کیا ہوگی کہ بندہ حرام ترک کر کے حلال کا پروانہ بن جائے....
حلال ہوتا ہی کتنا ہے؟ اس سے ہفتے بھر کا راشن تو آتا نئیں ویسے بھی حلال پر گامزن لوگوں کا حال کوئی ڈھکا چھپا نہیں، اگر کٹیا میں پیدا ہوں تو اسی جھونپڑی میں ہی مر کھپ جاتے ہیں، نہ کوئی حال اور نہ مستقبل، صرف حلال پر اکتفا کرنے والے زندگی جیتے نہیں گھسیٹے ہیں بلکہ وہ زندگی کو کیا گھسیٹتے ہیں زندگی انہیں رگیدتی ہے. پیٹ رگڑ رگڑ کر مہینہ گزارتے ہیں جبکہ ہفتہ دس دن سکون رہتا ہے کہ پھر سے تین ہفتے گھسیٹنے کی نوبت آن پڑتی ہے.. ویسے بھی حلال کے پرکالوں کو کیا خبر کہ جب پڑوسی سیونٹی لائے تو ون ٹو فائیو ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر لانا لازم ہوجاتی ہے.
کوئی سوفٹ لے آئے تو کرولا کے بنا تو کوئی چارہ ہی نئیں رہتا پھر اس چکر میں چاہے غبن ہی کیوں نہ کرنا پڑے ویسے بھی اصل غبن تو ٹرینڈ کو فالو نہ کرنا ہے اور سراؤنڈنگز سے بے اعتنائی برتنا اصل کرپشن ہے کیونکہ ماحول کے مطابق ضروریات کو پورا کرنا اور خواہشات کا حصول ہر طور فرض مصمم ہے..
یہ نام کے سیدھے کام تو پھر بھی تھوڑے بہت بڑے معلوم ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی چھوٹے چھوٹے امور جنھیں جان کر ہی حماقت کا گمان ہوتا وہ تک ہمیں سیدھے بتا کر عمل پیرا ہونے کا کہا جاتا ہے.
لباس پر طعن تشنیع کہ اسلامی ہو، ستر ڈھنپا ہوا ہو، فلاں اور فلاں لباس لباس ہوتا ہے، خواہ مشرقی ہو یا مغربی، وہ پہننے والے پر منحصر ہے،گوڈے پاٹی پیٹ پہنے یا کرتا اور ڈاڑھی رکھنے والا واویلا، بھلا کوئی بات ہے کرنے والی یعنی ملنگ بن جاؤ، حد ہوتی ہے اور ٹخنوں سے شلوار کا اوپر رکھنا، یہ کہاں کی سائنس ہے؟ مانا کہ آقا علیہ السلام کا حلیہ یہی ہے مگر موجودہ وقت میں ان کا اطلاق ناممکن ہے اور یہ نقاب پوشی کی تلقین کہ عورتیں پردے میں رہیں، یہاں آکر تو حد ہی ہوجاتی ہے یعنی دل چاہے گندگی سے اٹا رہے، نیت گندلائی ہو، سوچیں خاشاک کی تمثیل ہوں، بس نقاب چڑھا ہو، اس قدر پٹھا کام جبکہ سیدھا امر تو ہے کہ کردار باحیاء ہو، ان پردوں وردوں میں کیا رکھا، یہ یہ تو ذرا سے جھٹکے سے تارتار ہوجاتے ہیں.
یہ حق ہے کہ ہماری ماؤں امہات المؤمنین اسی روش کو اپنائے ہوئی تھیں مگر ان کا اندر باہر یکساں تھا اور وہ وقت اور تھا یہ زمانہ اور ہے اس لیے یہ سب ممکن نہیں رہا.
ویسے اسلام کے غالب مذہب ہونے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں، اس کی تعلیمات دیرپا بلکہ تا بہ ابد قابل عمل و ترویج ہیں یعنی شریعت میں موجود قانون کبھی بھی زوال پذیر یا پسپا ہو نئیں سکتا، وقت خواہ کتنی ہی دوڑ کیوں نہ لگا لے اسلام کا نظام اس سے آگے وہاں رسا کن ہوگا.
خیر یہ سب باتیں سوائے طوالت کے باعث کے کچھ نہیں اصل موضوع الٹے اور سیدھے کا ہے..
مانا کہ ہم نے خود ساختہ سیدھے ہاتھ کو اپنا رکھا ہے لیکن سیدھے پر چلنے کون دیتا ہے، اب بندہ سڑک پر سر پٹ دوڑ رہا ہو کہ پلسیا اچانک بیچ سڑک معجزن ہوکر روک لے اور سیدھے کام سے الٹے کام نکالنے لگے تو بندے پر کیا بیتے گی؟ پھر خاک سیدھے ہاتھ کی پاسداری ہوگی، جب محافظ یہ کہہ کر چائے پانی کے پیسے طلب کرے کہ تم رانگ وے پر آرہے ہو حالانکہ وہ ہو سیدھا ہاتھ ہو، پھر کہتے ہیں کوئی سیدھے ہاتھ کو فالو نئیں کرتا، سوال یہ ہے کہ کرنے کون دیتا ہے...