ہم بچوں کوا سکول کالج پڑھنے لکھنے کے لیے بھیجتے ہیں تاکہ اُن کا مستقبل بنے لیکن ہمیں خبر بھی نہیں اور ہمارا ہر دوسرا بچہ منشیات کا عادی بن رہا ہے۔ گھر میں، خاندان میں کوئی سگرٹ بھی نہیں پیتا لیکن بچے چرس، ہیروئین اور دوسری منشیات کے عادی بن رہے ہیں اور اس کے لیے مواقع اسکول فراہم کر رہے ہیں۔ یعنی جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو اُن کے روشن مستقبل کے لیے بھیجتے ہیں وہیں اُن کے اور اس قوم کے مستقبل کو تاریک کرنے کا مکروہ دھندا جاری ہے۔ گزشتہ ہفتہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد کےا سکولوں میں 53 فیصد بچے منشیات کے عادی ہیں۔ معصوم بچوں کو نشہ فروخت کرنے والوں میں کچھ اساتذہ کے ساتھ ساتھ پہلے سے نشہ کے عادی طلباء و طالبات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بریفنگ کے مطابق اسکول کے باہر کھوکھے اور ریڑھی والے بھی اسکول کے بچوں کو منشیات کی فروخت کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اگر یہ سنگین حالت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی ہے تو دوسرے شہروں اور قصبوں میں رہنے والوں کا کیا حال ہو گا۔
کسی قوم اور ملک میں اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ بے خبری میں پوری نسل کو مکمل تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس خبر پر ملک میں ایک بھونچال آ جانا چاہیے تھا لیکن نہ میڈیا نے اس مسئلہ پر کوئی خاص توجہ دی نہ ہی سیاست دانوں اور حکمرانوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس سے بڑی دہشتگردی، اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی زیادتی کسی قوم کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ ہمارے بچوں کے مستقبل کو تاریک کیا جا رہا ہے اور ہم یوں بیٹھے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چئیرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ عبدالرحمن ملک صاحب اگرچہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس مسئلہ پر توجہ دی، اسے کمیٹی میں اٹھایا اور حکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں سے منشیات کی لعنت کے خلاف جہاد کرنے کی اپیل کی اور اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کیں۔ ملک صاحب نے اپیل کی کہ حکومت، فوج، سیاسی جماعتوں، سول سوسائیٹی کے علاوہ ہر شہری کو منشیات کے خلاف جنگ میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ملک صاحب نے تجویز پیش کی کہ نہ صرف پیمرا کو ٹی وی چینلز کو قومی مفاد میں پابند کیاجائے کہ وہ منشیات کی لعنت کے خلاف قوم میں آگاہی پھیلانے کے لیے ایک بھرپور مہم چلائیں بلکہ منشیات فروشوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ تمام اسکولوں کالجوںمیں ایک ایسا مانیٹرنگ سسٹم بنایا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت اور اس کے استعمال کو ناممکن بنایا جاسکے۔ ملک صاحب نے یہ بھی تجویز کیا کہ طلباء و طالبات کوٹیسٹ بھی کیا جائے تا کہ معلوم ہو سکے کہ کون کون نشہ کی لعنت کا شکار ہو چکااور کس طرح نشہ کے عادی طلباء و طالبات کا علاج کیا جائے۔یہ بھی کہا گیا کہ جن تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ رپورٹ آئے کہ وہاں کے بچے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں تو ایسے اداروں کو بند کر دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت بغیر وقت ضائع کیے صوبوں کے ساتھ مل کر اس لعنت کے خاتمہ کے لیے جنگ کا آغاز کرنا چاہیے اور یہ حکمت عملی بنانی چاہیے کہ کس طرح ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے ماحول کو منشیات کے اثر سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ منشیات کی فروخت ہمارے معاشرہ میں عام ہے۔ نہ صرف منشیات کے اڈوں کو بند کرنے کے لیے ملک بھر میں کریک ڈائون کیا جائے بلکہ اس گھنائونے کاروبار میں شامل افراد کو بھی نشان عبرت بنایا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ شیشہ سینٹروں کو بھی ملک بھر میں بند کیا جائے کیوں کہ شیشہ کے بہانے بھی قوم کے بچوں کو منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ اس سلسلے میں پہلے ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات دے چکی ہے۔ عدالت اعظمیٰ نے وزارت تجارت کو بھی احکامات جاری کیے ہیں کہ شیشہ کی درآمد پر پابندی لگا دی جائے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان اہم ترین معاملات میں حکومت سو رہی ہے۔ جو کچھ سینیٹ قائمہ کمیٹی نے منشیات کے استعمال کو روکنے اور اس لعنت سے تعلیمی اداروں کو پاک کرنے کے لیے تجویز کیا اور جو کچھ عدالت اعظمیٰ نے شیشہ کے استعمال پر پابندی کے بارے میںکہا، یہ تو بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افراد منشیات کے عادی ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کے لیے حکومت کو ایک نیشنل ایکشن پلان بنانا چاہیے۔ اس معاملہ کا تعلق چوہدری نثار علی خان کی وزارت سے ہے۔وزیر داخلہ سے درخواست ہے کہ خدارا اس معاملے میںسردمہری مت دکھائیں۔ اگر کوئی سمجھے تو یہ مسئلہ تو دہشتگردی سے بھی زیادہ سنگین ہے۔
تبصرہ لکھیے