ہوم << دوسری شادی کی ہاں ناں اور زمینی حقائق - حافظ یوسف سراج

دوسری شادی کی ہاں ناں اور زمینی حقائق - حافظ یوسف سراج

حافظ یوسف سراج دوسری شادی موضوع بحث ہے۔ اس کے حق میں شرعی دلائل اور کچھ زمینی حقائق پیش ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے خاکوانی صاحب اور زاہد مغل صاحب کی گفتگو کے بعد بھی اس بحث میں کچھ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مردوں کو اور خاص طور پر مذہب سے تعلق رکھنے والے مردوں کو اس موضوع سے اک گونہ دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض فارغ الاوقات پروفیسروں کو بھی میں نے اسی جنت ِ پر فریب کے تذکرہ سے اپنی تشنہ آروزؤں کی چنگاری کو ہوا دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر جن دوستوں کو مال و دولت کی آسودگی حاصل ہو جاتی ہے، وہ بھی اس حوالے سے جستجو کرتے پائے جاتے ہیں۔ دلچسپ ترین بات یہ کہ اس سلسلے میں آپ نوے فی صداُن لوگوں کو آہیں بھرتے، گفتگو کرتے اور حتمی منصوبے بناتے دیکھیں گے کہ جن کی تین نسلوں میں سے کسی نے دوسری شادی نہیں کی ہوتی اور نہ آئندہ سوا تین نسلوں کو یہ جرات ہوسکنی ہوتی ہے مگر اس کے باجود دوسری شادی کا تذکرہ ان کے لیے ایک وظیفے کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ہر فرصت میں مخولیہ انداز میں خیالی منکوحہ کے فیس فیچرز تک کھلے عام تقریری انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اگر پروفیسر ہوں تو ہر آئندہ بیچ کی منتخب شاگردات کو اپنی دوسری بیوی کے روپ میں دیکھنے لگتے ہیں، بلکہ وہ پسِ تعلیم عزائم سے قطعی بےخبر ان خوبروؤں کو متوقع نظروں سے منکوحہ، منسوبہ اور مخطوبہ و مطلوبہ سمجھ بیٹھتے ہیں، اور نت نئے نک نیم ایجاد کر کے انھیں مزعومہ حیثیت سے پچکارنے بھی لگتے ہیں۔
ادھر یہ موضوع خواتین کی انا کے غبارے سے ہوا اور ان کے نازک جسم سے جان نکال دینے کی دوا ثابت ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو جسمانی و معاشی ہر دو اعتبار سے نکو سے نکو اور نکمے سے نکمے مرد بھی دوسری شادی کی دھمکی کو بیویوں پر بطور نفسیاتی ٹارچر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ مشرف کے دور عجائب میں یہ بات بھی سامنے آئے تھی کہ شادی سے پہلے دونوں پارٹیوں کے جسمانی ٹیسٹ کیے جائیں اور ان ٹیسٹوں کے حمایت پر ہی شادی کی اجازت دی جائے۔ یہ ایک اچھا اقدام تھا، اگرچہ اس میں مینٹلی ٹیسٹ کی بات بھی ہونی چاہیے تھی، کیونکہ گھر چلانے کے لیے جسمانی استعداد جتنی ہی ذہنی صلاحیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایسا کوئی ٹیسٹ واقعی رکھ دیا جائے تو خدشہ ہے کہ دوسری شادی کے لیے جملہ لسانی طاقت صرف کر دینے والے آدھے سے زیادہ وکیل تو پہلی ہی شادی کے منکر ہو اٹھیں گے۔ سیکس ایجوکیشن سے تو ہم نے اسلام کے نام پر انکار کر دیا حالانکہ خود مدارس کی پہلی جماعت سے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے۔ ہم ڈرتے شاید اس لیے ہیں کہ ہمارے تمام حساس معاملات کے پیچھے مغرب پوری تیاری سے اپنا ایجنڈا لیے کھڑا ہوتا ہے، اس کا نقصان لیکن یہ ہوتا ہے کہ ہمارے جوان اپنے ضروری ترین سفر پر بھی کچی پکی معلومات لے کر روانہ ہو جاتے ہیں۔ شادی کے بعد وہ ایک دوسرے کے اہم ترین حقوق اور مستقبل سےگہرا تعلق رکھنے والے معاملات سے یا تو قطعی بےخبر ہوتے ہیں یا شرم، شرع یا غفلت کی بنا پر ایک دوسرے کی زندگی اذیت و عذاب کر دینے کا باعث بننے لگتے ہیں۔ ان میں سے بعض مسائل کا تعلق تو براہِ راست خواتین کی صحت اور جان تک سے جڑا ہوتا ہے۔ وہی صحت اور جان کہ جس کی خاطر شریعت کبھی حرام تک کی بھی اجازت دے دیتی ہے۔ میرے علم میں کچھ وہ لوگ بھی آئے کہ جنھوں نے زیادہ بچے پیدا کرنے جیسے مقاصدِ شریعت کو بیمار اور کمزور بیویوں پر بھی نافذ کرکے انھیں ہمیشہ کی مریضہ بنا دیا، بعد میں اپنی روش پر نادم ہوتے دیکھا گیا۔ یقینا دوسری شادی کی اجازت ہے مگر یہ حکم ہرگز نہیں۔ شادی تو مطلق پہلی بھی ہر ایک پر فرض نہیں۔ حدیث ہے کہ اے گروہِ نوجواناں! تم میں سے جو استطاعت رکھے، اسے شادی کر لینی چاہیے۔ یعنی شادی مشروط ہے استطاعت سے۔ توکیا شادی کے لیے ہمارے دماغوں پر چھائی ایک ہی استطاعت ہے؟
ایک اہم چیز جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے، وہ ہے بچوں کی پرورش و پرداخت اور ان کی تعلیم و تربیت۔ یہ بھی شادی کے پیکج سے جڑی ایک ناگزیر چیز ہے۔ یوں نہیں کہ شادیاں توآپ متعدد فرما لیں لیکن بچوں کو خودکش فیکٹریوں کے حوالے کر دیں۔ اولاد کے حقوق کی ادائیگی کا بھی آپ کو شادی کے وقت ہی سوچنا ہے۔ ایک اور چیز جسے شریعت نے ملحوظ رکھاہے، وہ عرف ہے۔ ہمارے کچھ دوست خلوص کی جھونک میں آ کر عرب کلچر کو برصغیر پر نافذ کرنے ہی کو منشائے اسلام یا نفاذِ اسلام سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اسلام انسانوں کے جینز میں رچی بسی مثبت علاقائی چیزوں کو بدل کے اذیت پہنچانے نہیں آیا۔ خوشی اور غم کے سارے طریقے آپ کے دیسی ہو سکتے ہیں بشرطیکہ شریعت کے عمومی اصولوں سے وہ نہ ٹکرائیں۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ اگر دن کو کسی کا جانور کسی کی فصل اجاڑ دے تو قصور فصل والے کا ہے اور اگر رات کو یہی کام ہو تو جانور والے کو ہرجانہ بھرنا پڑے گا۔ کیونکہ عموماً دن کو جانور کھلے اور رات کو بندھے ہوتے ہیں۔ عرب علماء نے مگر صراحت کی کہ اگر کسی علاقے میں معمول اس کے برعکس ہو تو اسی کے مطابق کرنے کو حدیث پر عمل گردانا جائے گا۔ سو عمومی اعتبار سے دوسری شادی میں آپ فوائد اور نقصانات کا جائزہ مقامی تناظر میں بھی لیں گے۔ پھر یہ واحد دلیل قطعی مؤثر ہتھیار نہیں کہ چونکہ جائز ہے سو اب کر کے اور مر کے رہا جائے گا۔ جائز تو بینگن کی سبزی کھانا بھی ہے، لیکن جب بےچاری خاتونِ خانہ پکا بیٹھے تو آپ کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ بہت سی جائز چیزیں بھی، حلال چیزیں بھی، ممکن ہے آپ کو یا آپ کے معاشرے کو موافق نہ بیٹھیں۔ میٹھا حلال ہے اور گوشت بھی مگر پہلے کو شوگر پیشنٹ اور دوسرے کو بلڈ پریشر پیشنٹ نہیں کھاتا۔ کھاتا ہے تو یہ خودکشی سمجھی جانی چاہیے۔ جائز اور حلال میں سے اپنے لیے Suitable تلاش کرنے کو اللہ نے ہمیں الگ الگ عقل دی ہے۔ اب یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جب آپ کی شوگر کی وجہ سے آپ کی پہلی بیوی پریشان ہو کے دن رات آپ کی صحت کے لیے دعائیں کرتی ہو تو آپ اسے دوسری شادی سے دھمکانے اور خود کو بہلانے لگیں۔ پھر عدل کی بات ہوئی۔ قرآن نے تو خود اسے ناممکن کہا ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ عدمِ عدل کی خوبی کے ساتھ دوسری شادی کرنے والا قیامت کے دن یوں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں دوسری شادی کی کامیابی کی مثالیں کم از کم میں دیکھنے سے قاصر رہا ہوں۔ الا ماشاءاللہ ! ٹینشن بھری سبک رفتار زندگی میں آپ اولاد اور بیگمات کے مستقل ایکسرے میں رہیں گے۔ خرابی بہرحال آئے گی، بیوی نہیں تو اولاد شاکی رہے گی۔ دیکھیے نبی کریم ﷺ کی نجی زندگی میں بھی سوتن کے جذبات دیکھے گئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سا رحمدل اور عادل کون ہو سکتا ہے لیکن اس کے باجود یہ چیزیں وہاں طلوع ہوئی ہیں۔ سو گزارش یہ ہے کہ شادی پہلی ہو یا دوسری، محض اس کے شریعت میں جائز ہونے سے آپ کے لیے جواز ہرگز نہیں نکل سکتا۔ آپ کو اپنے لیے خالص مقامی اور نجی سطح پر اس کا جائزہ لینا ہوگا۔ اور پھر اس کی ایک قیمت ہے جو بہر صورت ادا کرنی ہوگی۔ ہاں اگر یہ سارے سود و زیاں ذہن میں ہوں اور صرف اپنی ہی عارضی رنگینی کے بجائے معاملے کی دوسری طرف پڑی سنگینی بھی ذہن میں ہو تو پھر بسم اللہ!

Comments

Click here to post a comment