ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ کانٹے بو کر پھول چننے کے خواہشمند اور ناانصافی کی کوکھ سے عدل و انصاف کی پیدائش کے منتظر۔ تمیز بندۂ و آقا کو اقبالؒ نے فساد آدمیت قرار دیا اور نفاذ قانون کے ہنگام کمزور وطاقتور کے مابین تفریق کو سرور کائناتﷺ نے سابقہ امتوں کی تباہی کا سبب گردانا‘ ہم مگر اسے ترقی و خوشحالی کا زینہ تصوّر کرتے ہیں۔
پاناما لیکس چھ ماہ قبل منظر عام پر آئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ اور خاندان کو احتساب کے لیے پیش کیا ‘ایک بار نہیں بار بار۔ مقصد بے لاگ احتساب ہوتا تو اتفاق رائے سے ٹی او آرز طے پاتے اور جوڈیشل کمشن تحقیقات کا آغاز کر دیتا۔ حکومت کی درخواست چیف جسٹس نے مسترد کر کے یہی تقاضا کیا کہ حکومت کی مرضی نہیں‘ عوام کی خواہش کے مطابق اعلیٰ سطحی جوڈیشل تشکیل پا سکتا ہے مگر وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے وعدے کی لاج رکھی نہ پاناما کا معاملہ جمہوری انداز میں نمٹانے پر توجہ دی۔خیال تھا عوام کی کمزور یادداشت‘ فرینڈلی اپوزیشن کی ملی بھگت اور سرحدوں پر نمودار ہونے والی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر سکینڈل کو دیگر سکینڈلوں کے قبرستان میں دفن کر دیا جائیگا۔ میڈیا ‘تحریک انصاف اور عوام نے مگر چھ ماہ تک اس سکینڈل کو زندہ رکھا‘ گھبرا کر حکومت نے وزیر اعظم کے احتساب اور عوام کے احتجاج کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے ڈالا۔ گویا کرپشن اور نوسر بازی کا اصل نام جمہوریت ہے اور بے لاگ احتساب کے ذریعے اس کے خاتمے کی خواہش جمہوریت کو ختم کرنے کی سازش ۔ حکمران اشرافیہ کو آئین و قانون اور ہر طرح کے احتساب سے مستثنیٰ سمجھنے کی اس غلامانہ ذہنیت اور ہر طرح کی لوٹ مار بلکہ مجرمانہ کارروائیوں کو ان کا پیدائشی حق قرار دینے کی سعی کا تصوّر کسی مہذب اور جمہوری معاشرے میں ممکن نہیں۔
سعودی عرب میں جمہوریت ہے نہ ہمارے جمہوریت پسندوں کو ان کا نظم حکمرانی پسند ہے۔ پاکستان میں مقدس مقامات سے عقیدت رکھنے والوں کو بھی یہ نام نہاد روشن خیال اور انسانی حقوق کے علمبردار مختلف القابات سے نوازتے ہیں۔ سعودی خاندان کی حکمرانی کے یہ ناقد پاکستان میں موروثی اور خاندانی حکمرانی کے گن گاتے اور اس کے حق میں دلیلیں گھڑتے ہیں۔ سعودی عرب کی بادشاہت سے سیکھنے کو ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ پاکستانی برانڈ جمہوریت میں نظام انصاف کا موازنہ اگر سعودی عرب کے نظام عدل سے کیا جائے تو ندامت ہوتی ہے ۔کہنے کو پاکستان میں کوئی بادشاہ ہے، نہ شاہی خاندان اور نہ کوئی شہزادہ، شہزادی مگر پاناما سکینڈل سامنے آنے کے بعد جس طرح قانون اور انصاف کا دوہرا معیار سامنے آیا‘ قوم کو پتا چلا کہ طاقتور لوگ سنگین جرم کر کے بھی قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں نہ اعلیٰ عدلیہ کے روبرو اور نہ عوام کی عدالت میں۔ البتہ غریب آدمی ٹریفک کا اشارہ کاٹنے پر بھی تھانے،حوالات کی ہوا کھاتا ہے۔ مراعات یافتہ فرد اور خاندان قانون کی زد میں آئے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور غریب بچ نکلے تو ہاہا کار مچ جاتی ہے۔ انصاف یہاں اشرافیہ کے گھر کی لونڈی ہے اور قانون اس کا زرخرید غلام۔ بادشاہت اور شخصی حکمرانی تو خواہ مخواہ بدنام ہے ہماری بے ننگ و نام اور بسیار خور جمہوریت کے کارنامے دیکھے اور سُنے تو شرم سے منہ چھپا لے۔ پاناما سکینڈل پر جمہوری حکومت کی کہہ مُکرنیوں اور جمہوریت پسندوں کے منفی پروپیگنڈے کو ذہن میں رکھ کر سعودی عرب میں پیش آنے والا تازہ ترین واقعہ پڑھیے اور اس ڈھیٹ مخلوق کی عقل کا ماتم کیجیے جو احتساب کا مطالبہ کرنے والوں پر جھوٹے ‘سچے الزام لگا کر اپنے آقائوں کی لوٹ کھسوٹ اور اپنی مفاد پرستی پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشہ ہے کہ امریکہ و یورپ میں کسی برتر خاندان کے فرد کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پرجرمانہ ہو تو ہمارا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے قانون کی حکمرانی اور مثالی نظام عدل کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر سعودی شاہی خاندان کے ایک فرد کو سنگین جرم کی عبرت ناک سزا ملنے پر کسی نے نوٹس نہ لیا۔
چند روز قبل ایک سعودی شہزادہ قتل کے الزام میں سزائے موت سے ہمکنار ہوا جس نے جھگڑے کے دوران گولی چلائی ایک شہری جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوا۔ سعودی شہزادہ ترکی بن سعود الکبیر اپنے دوستوں کے ساتھ دارالحکومت ریاض کے شمال میں واقع ثمامہ نامی سیاحتی مقام پر پہنچا جہاں چند مسلح نوجوانوں میں جھگڑا چل رہا تھا۔ شہزادہ اور اس کے دوست عادل المحمید اور عبدالرحمن التمیمی نیچے اترے تو فائرنگ میں اضافہ ہو گیا۔ گھبرا کرشہزادے نے اپنا پستول نکالا اور اندھا دھند گولیاں برسانے لگا۔ ایک گولی عادل المحمید کو لگی دوسری عبدالرحمن التمیمی کو۔ پولیس موقع پر پہنچی تو عادل جاں بحق ہو چکا تھا اور عبدالرحمن شدید زخمی۔ شہزادے کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ دوران تحقیقات پتا چلتا ہے کہ فائرنگ کے وقت شہزادہ نشے میں تھا۔ عدالتی کارروائی کے بعد شہزادے کو قتل قصاص کی سزا سنائی جاتی ہے۔ لواحقین، عادل کے والدین کو منہ مانگی دیت دے کر شہزادے کی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ریاض کے گورنر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز بھی والدین کی منت سماجت کرتے ہیں مگر عادل کے والدین کسی طور پر راضی نہیں ہوئے حتیٰ کہ گزشتہ ہفتے جلاّد قتل قصاص کی سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس کا سر تن سے جدا کر دیتا ہے۔ سزا پر عملدرآمد کے وقت بھی والدین کو لاکھوں ریال دیت کی پیشکش کی گئی جسے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ شاہ سلمان کا بھانجا سعودی شہزادہ گرفتار ہوا تو سعودی شاہی خاندان نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے چھڑانے کی کوشش کی نہ سعودی بادشاہت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا اور نہ امیر فیصل نے دبائو ڈال کر والدین کو دیت قبول کرنے پر مجبور کیا حتیٰ کہ سزائے موت پر عملدرآمد کو بھی خوش دلی سے قبول کیا گیا۔ کسی نے مقتول کو شریک جرم قرار دیا نہ یہ منطق بگھاری کہ پہلے عادل المحمید اور عبدالرحمن کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ ثمامہ کیا کرنے گئے تھے۔ کسی دانیال عزیز، طلال چودھری اورمحمد زبیر نے اسے سعودی خاندان اورنظام حکمرانی کے خلاف سازش قراردیا نہ عادل کے کردار پر کیچڑ اچھالی۔
ہم مگر جمہوریت کے دعویدار اور قانون کی حکمرانی کے علمبردار ہیں، چھوٹے بڑے کے لیے الگ الگ پیمانے ہیں اور قانون بھی چہرہ، حیثیت اور منصب دیکھ قدم بڑھاتا ہے۔ جمہوری ریاست میں سانحہ ماڈل ٹائون ظہور پذیر ہوا۔ چودہ جیتے جاگتے انسان گولیوں کا نشانہ بنے اور ملک عدم کو سدھارے۔ زخمیوں کی تعداد پچاسی سے زائد ہے۔ اڑھائی سال گزر گئے کسی کوسزائے موت تو درکنار معمولی سرزنش بھی نہ ہوئی، البتہ مقتولوں کے ساتھی پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔کراچی میںشاہ رخ جتوئی اور لاہور میں مصطفی کانجو دن دیہاڑے قتل کے باوجود سزا سے بچ گئے کیونکہ مقتولوں کے ورثا کمزور تھے اور ریاست مقتول کے بجائے قاتلوں کی سرپرست ۔ پاناما لیکس اور ڈان لیکس میں کسی ایرے غیرے‘ نتھو خیرے ‘ مالُو مصلی کا نام آتا تو اب تک جیل میں پڑا زخم چاٹ رہا ہوتا مگر معاملہ چونکہ طاقتوروں کے احتساب کا ہے‘ لہٰذا دستور یہاں بھی اندھے ہیں‘ فرمان یہاں بھی بہرے ہیں۔ اُلٹا جوڈیشل کمشن کی تشکیل کا معاملہ عمران خان کے گلے پڑ گیا ہے اور الیکشن کمشن نے اسے 2نومبر کو طلب کر لیا ہے۔ پاناما لیکس میں انکشاف حکمران خاندان کی جائیدادوں کا ہوا، جوابدہی عمران خان کو کرنی پڑے گی۔
رسول اکرم ﷺ کا فرمان اکثر دہرایاجاتا ہے کہ پچھلی قومیں امیر اور غریب کے لیے الگ قانونی پیمانے مقررکرنے کی بنا پر تباہ ہوئیں‘ مگر حکمران نہ عوام، کبھی نہیں سوچتے کہ کمزور اورمظلوم کو ایسے سیاسی ،معاشی، سماجی، عدالتی نظام سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے جو اسے انصاف دے نہ دو وقت کی روٹی اور نہ باعزت روزگار۔پچھلی قوموں کی تباہی ہمارے لیے باعث عبرت ہے؟ایک شاہی نظام میں قانون کی حکمرانی ہمارے لیے قابل رشک ہے پھربھی ہم بندہ وآقا کی تمیز کے ذریعے خودکو تباہ کرنے پر تُلے ہیں؟ ؎
میں بھی کتنا عجیب ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
تبصرہ لکھیے