آج میڈیا کی ایک پڑھی لکھی رپورٹر اور رینجرز کا ایک میٹرک پاس (یعنی تقریباً گنوار) اہلکار آمنے سامنے ہیں۔
مقابلہ اخلاق کا ہے۔
پہلے رپورٹر صاحبہ نے اپنے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ کیمرے اور مائک کی شہہ پر ان کی گلی محلے کے طعنے والے انداز میں رپورٹنگ جاری تھی۔ کبھی انہوں نے اپنے مقابل کو باتوں سے اکسایا، کبھی چہرہ کیمرے کی طرف فوکس کروایا۔ پھر اس کا پیچھا کیا، جدھر کو وہ مڑا ، ادھر کیمرے کو گھمایا۔ اس کو اس انداز میں احکام دینے کی کوشش کی جیسے شائد انکا افسر بھی نہیں دیتا۔ اور کیک کے اوپر چیری رکھتے ہوئے اس کے کپڑوں کو پکڑ کا کھینچا۔
تقریباً گنوار اہلکار ، جس کا اس موجودہ صورتحال میں کردار نہ ہونے کے برابر ہوگا، نے حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کی، اپنی جگہ بدلی، رپورٹر کے کوسنے سن کر ان سنی کر دی ، کہ کیمرے کا ڈر تھا۔ اس کو یقیناً اپنی باز پرسی کا بھی ڈر تھا، اس نے منہ چھپانے اور وہاں سے ہٹ جانے کی کوشش کی۔ مگر اسکو بھرے مجمعے میں قمیص سے پکڑ کر کھینچ دیا گیا۔
اہلکار کے دماغ کو خون چڑھا، اور اس نے اپنے اخلاق کو ایک طرف رکھا۔ اسکو محض سامنے ایک ایسا شخص نظر آیا، جس نے بھرے بازار اس کو رسوا کرنے کی آخری حد پار کردی۔ اس کو نہ اپنے افسران کر ڈر رہا، نہ کیمرے کا، اور نہ کسی اور شے کا، اس کا ہاتھ اپنے مخالف پر اٹھ گیا۔
سوشل میڈیا کو ایک اور موضوع بحث کرنے کو مل گیا۔ عورت پر ہاتھ اٹھا دیا۔ رینجرز والوں کی ایک اور زیادتی۔ میڈیا کو پڑا ہے یہ تھپڑ۔ رینجرز والے بے لگام ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
کسی بھی امن و امان والے ادارے کے اہلکاروں کے برے رویے کے ہزاروں واقعات دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ اور اپنی حدود سے تجاوز کرنے والے ایسے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ اور قانونی چارہ جوئی بھی معمول کی بات ہے۔ جو لوگ پاکستان کی ہر برائی کو صرف پاکستان ہی میں دیکھنے کے اہل ہیں ، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکا کی پولیس اس معاملے میں تقریباً بدنام ہو چکی ہے۔ بلاجواز کئی پولیس اہلکار خواتین پر تشدد کرتے آن کیمرہ پکڑے گئے۔
اس لیے اگر بفرض محال اس معاملے میں رینجرز کے اہلکار کی زیادتی بھی تصور کر لی جائے تو یہ کوئی انہونا واقعہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے خلاف محکمانہ کاروائی کی سفارش کی جائے اور اس کو معطل کر دیا جائے۔
مگر اس واقعے کی ویڈیو دیکھ کر میڈیا رپورٹر کا جو رویہ سامنے آ رہا ہے، وہ پاکستان میں میڈیا کے بے ہنگم پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ افراد کی تربیت پر سوال اٹھاتا نظر آتا ہے۔ یہ تو کچھ عرصے سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ میڈیا کے پھیلاؤ کی وجہ سے نئے آنے والے افراد کا معیار وہ نہیں رہ گیا جو پہلے کبھی ہوتا تھا۔ کوئی زمانہ تھا جب کیمرے کے سامنے آنے والے ہر صحافی کی زبان و بیان کا ایک خاص معیار پر ہونا ضروری ہوتا تھا۔ مگر جب سے ریٹنگ والا میڈیا شروع ہوا ہے، واحد معیار یہ رہ گیا ہے کہ آپ کا پروگرام کتنے ویورز لاتا ہے۔ اسکے لیے چاہے آپ ایدھی صاحب کی قبر میں لیٹ کر رپورٹنگ کریں، بھینسوں کا دودھ دوہتے ہوئے کیمرہ گھمائیں، بارش کے پانی میں گانا گاتے ہوئے رپورٹنگ کے جوہر دکھائیں، یا چائے والے کی چائے کا سڑکا لگاتے ہوئے تماشائیوں کی دلپشوری کریں۔ چینل پر کام کرنے والے سنجیدہ حضرات بھی اسی کا رونا روتے نظر آتے ہیں کہ انکی نظروں کے سامنے کل پروگرام کرنے والا ایک نااہل اینکر محض اس لیے پروموشن اور انکریمنٹ لے گیا کہ اسکے پروگرام کی ریٹنگ بڑھ گئی تھی، جسکے لیے وہ اپنے پروگرام میں ہر دوسرے بندے کی عزت اتارتا تھا۔
اب آپ ہی انصاف کا ترازو ہاتھ میں تھامیے اور فیصلہ کیجیے کہ جہاں رپورٹنگ کر معیار یہ طے پاجائے کہ جس میں مردے کی قبر کا احترام ، چار دیواری کا تقدس، کسی کی زاتی زندگی کی حدود کا خیال اور دوسرے اداروں کی دائرہ کار ، سب کو پائمال کر دیا جائے ، تو آپ کہاں تک اپنا دامن بچا پائیں گے۔ کوئی نہ کوئی ہاتھ تو پھر آپکے گال تک پہنچے گا۔
صحافت کا ادارہ سچائی کی اشاعت کا جھنڈا لے کر اپنے سفر پر نکلا تھا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا بھر میں اس ادارے کو جس قدر عزت اور احترام دیا گیا ہے، اسکی مثال نہیں ملتی۔ اور اسکی وجہ صحافیوں کا ہر دور میں ظلم و نانصافی کے خلاف ڈٹ جانا اور عام لوگوں کو سچی خبر دینا تھا۔ مگر نئے دور کی نئی صحافت ، دیگر باعزت شعبوں کی طرح محض سکوں کی چمک کا شکار ہو چکی ہے۔ اس میں ایسے افراد داخل ہو چکے ہیں جو صحافت کے نام پر محض اشتہار دیتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ کچھ اشتہارات کو وہ خبر کہہ دیتے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا اور کیمرے کی آنکھ نے عام آدمی تک وہ سچائیاں پہنچائیں جو شائد سن کر وہ یقین نہ کر پاتا، اور ہر گزرتے لمحے نے الیکٹرانک میڈیا کو اخباری میڈیا سے کئی کوس آگے پہنچا دیا۔ اسی خیرہ کن کامیابی نے اس شعبے کو سچ کے ترجمان سے ہٹا کر ہر بکنے والی چیز کا سوداگر بنا دیا۔ آج کا میڈیا ہاؤس جب اپنے ملازمین کو رپورٹننگ کرنے کیمرہ اور مائک سے مسلح کر کے عوام میں بھیجتا ہے تو وہ عوام کے دکھ نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ وہ ہر اس بکنے والی شئے پر اپنا کیمرہ فوکس کر رہے ہوتے ہیں جو انکی ریٹننگ کو آسمان تک پہنچا دے۔
تو ایسے حالات میں ایک رپورٹر، جس کو اپنے چینل سے "کچھ بھی کر کے" ریٹننگ لانے کی ہدایات ہوں، وہ اپنے حواس نہ کھو بیٹھے، وہ ہر وہ دامن نہ کھینچے جس سے جذبات بھڑکیں اور ہاتھ اٹھنے لگیں ، تو اور وہ کیا کرے ؟
آخری بات سوشل میڈیا کے بارے میں، کہ یہ سوشل میڈیا صرف اور صرف عوام کا ایک بڑھتا ہجوم ہے، جس کا نہ کوئی معیار ہوتا ہے، نہ کوئی منزل، یہ صرف تماشے کا شیدائی ہوتا ہے۔ چاہے وہ چائے والے پر لگے یا تھپڑ والے پر۔ سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی کلکس محض ان بھاگتے قدموں کی طرح ہوتی ہیں جو میلے میں ہر اس جانب بڑھ جاتی ہیں جہاں لوگ اپنی گردنیں لمبی کر کے کچھ دیکھ رہے ہوں۔
تبصرہ لکھیے