دلیل پر ایک سے زیادہ شادیوں یعنی تعدد ازواج پر آرٹیکل پڑھا ہے. اس بارے میں معاشرے کے عمومی اور خصوصی خیالات آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گی.
یہ خیال کہ دوسری شادی کے بارے میں خواتین کا رویہ بہت تنقیدی ہے تو بھئی یہاں معاشرتی رجحان تعریفی بنانا بھی آسان نہیں. یہاں تو پہلی شادی کے مسائل اس قدر زیادہ ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کو دیکھ کے لوگ بعض اوقات پہلی شادی کرنے سے پہلے بھی سوچ میں پڑجاتے ہیں. دوسری شادی بہرحال کوئی جرم نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس کے حق میں جس قدر مرضی اچھے سے اچھے دلائل لے آئیں، قابل عمل اور قابل قبول ایک سے پانچ فیصد ہی ہوں گے. یہ بھی زیادہ گنجائش کردی میں نے.
یہ ٹھیک ہے کہ عورت کو ایسا سوچنا چاہیے، وہ دل بڑا کرے، جیسے وہ بچوں کے معاملےمیں پیار کرتے وقت ایک کو دوسرے سے زیادہ کبھی پیار کردیتی ہے، ایسے ہی اسے شوہر کو بھی دوسری بیوی کے حوالے کرتے وقت زیادہ دکھی نہیں ہونا چاہیے. لیکن آپ اگر عورت کی نفسیات سے واقف ہوں تو شاید علم ہو کہ عورت اپنے اور شوہر، دونوں حوالوں سے اسے شرک جیسا جرم سمجھتی ہے اور اسے کسی صورت پسند نہیں کرسکتی. جی وہ اسے جرم سمجھتی ہے کہ میں شوہر کی جگہ کسی کو دوں یا پھر اس کے ساتھ کسی کو دیکھوں. مخصوص واقعات اور situations میں استثنی ہو سکتا ہے مگر عمومی رویہ یہی ہے.
آپ جن معاشروں میں تعدد ازواج کی مثال دے رہے ہیں وہاں بچپن سے ہی لڑکیاں گھر میں دیکھتی ہیں کہ ان کی ایک سگی ماں کے ساتھ ساتھ مزید دو چار مائیں بھی ہیں اور ان کا درجہ بھی کم و بیش وہی ہے جو اس کی سگی ماں کا ہے، بڑے ہونے تک ان کو اپنے اردگرد یہی نظر آتا ہے تو ذہن بن جاتا ہے کہ وہ جس کی بیوی بنے گی، صرف اکیلی وہی نہ ہوگی بلکہ اس کے ساتھ اور بیگمات کا ایک وفد بھی ہوگا، تو انھیں گویا اس چیز کی تربیت مل جاتی ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک بچے کو بچپن سے کسی بھی اچھے یا برے کی تمیز سکھائی جائے یا نہ سکھائی جائے. وہ باشعور ہونے کےساتھ اس کے لاشعور میں بھی بیٹھ جاتی ہے. ماں باپ نے اگر بچپن سے ہی کسی مخصوص شعبے کی جانب رجحان کردیا ہے تو وہ بڑا ہوکر اسے قبول کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرے گا. پاکستان یا ایشیائی ممالک جہاں پر دوسری شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں ایک نیک اور متقی عورت بھی اس کو برا سمجھتی ہے.
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ چلیے مان لیا کہ دوسری شادی کو برا نہیں سمجھتے، اور ایک عورت اپنے شوہر کی دوسری شادی پر راضی برضا ہے، مگر مخصوص معاشرتی ماحول کی وجہ سے بیٹی کی شادی کے وقت اسے لوگوں کی اس مخصوص سوچ کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ضرور اس کی ماں میں کوئی خرابی تھی جو اس لڑکی کے باپ نے دوسری شادی کر لی. اب آپ لاکھ تاویلیں دیں مگر ایسا ہوتا ہے اور یہیں ہوتا ہے. جنھوں نے بیٹیوں کا رشتہ لینے آنا ہے، وہ ضرور ایسی بات کرتے ہیں.
ویسے رواج کی میں اتنی قائل نہیں لیکن جیسے ہم کھانا بنانے کے لیے ایشیائی طور طریقوں کے عادی ہوجاتے ہیں اور وہی آلو گوشت انگریز یا عرب ناپسند کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں ان کے اس ”اسلامی“ رواج کو برداشت کرنا ناپسند ہوتا ہے.
قرآن پاک میں اس بارے میں واضح اصول بتا دیا گیا ہے کہ اگر تم آپس میں انصاف کر سکو تو، لیکن ہمارے یہاں مرد آیت کے صرف اس حصے تک جاتے ہیں، جہاں تک دوسری شادی کی اجازت دی گئی ہے. ازراہ مذاق کہیے یا سنجیدگی سے، کم ہی مرد ہوں گے جو انصاف تک بات سمجھتے ہوں گے. وہ انصاف تک سوچتے ہی نہیں اور پہلی بیوی کو ایک سٹیشن پہ بیٹھی مسافر سمجھ کر گاڑی آنے کی اطلاع دے دیتے ہیں لو بھئی گاڑی آگئی.
ہمارے سماج میں پہلی بیوی بچوں کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے اٹھانا ہی بہت دل گردے کاکام ہے. آپ سماج کو دیکھیں کس کس طریقے سے یہ مرد و زن زندگی کا پہیہ گھسیٹ رہے ہیں. ان کے پاس تیل کے کنویں نہیں ہیں جن کی بدولت ان کے پاس دولت کی فراوانی ہو اور اس کے ساتھ ازواج و بچوں کی بھی، اور نہ ان کے پاس کھجوروں کے جھنڈ ہیں. ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ بھلے ایک سے زیادہ شادی کی اجازت اللہ تعالٰی نے دی ہے مگر اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ شرائط بھی رکھی ہیں. اگر ان شرائط کو سمجھنے والے میاں بیوی راضی ہوں تو کیا کرے گا قاضی. بسم اللہ کیجیے.
ورنہ آپ اپنی پہلی بیوی سے تجدید محبت کیجیے اور اسے ہی دوسری اور چاہیں تو تیسری سمجھ لیجیے. یقین مانیے اس سے اللہ تعالٰی بھی خوش ہوںگے اور بیوی بھی،گھر بھی سکون کا گہوارہ بنے گا اور پڑوسی بھی آپ کو گھر سے باہر نکلنے وقت گھوریاں نہیں ڈالیں گے.
تبصرہ لکھیے