کسی بھی ادارے کا گارڈ بااختیار شخص ہوتا ہے جسے ادارے کی طرف سے نظم و نسق اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے تعینات کیا جاتا ہے. عموما یہ جاب غیور و غصہ ور پٹھان قوم کو سونپی جاتی ہے.
جس معاشرے میں قطار کا اصول آبزرو کیا جائے، نظم و ضبط کی پابندی عمومی شعار ہو، وہاں گارڈ کا کام محض بیرونی خطرات کی روک تھام اور صاحب لوگوں کو سلیوٹ مار کر دروازہ کھولنا باقی رہ جاتا ہے.
لیکن کل سے بار بار نظر آتی ویڈیو میں موجود عوام کا بےقاعدہ ہجوم کسی نظم کا پابند دکھائی نہیں دیتا. یہی ہجوم بلاخیز جب کلرک بادشاہ کی کھری پر کھڑکی توڑ حملے کرتا ہے تو سیکیورٹی پر مامور گارڈ کو اس عوامی بھگڈر سے حاکمانہ انداز اور عوامی لب و لہجہ میں نپٹنا پڑتا ہے. وہی لہجہ جسے عوام سمجھتی ہو. جب گارڈ کو اوپر سے سخت آرڈرز ہوں تو لامحالہ اس کا لہجہ اور کمانڈ بھی واضح اور دوٹوک ہوگی. وردی اور گولی کی طاقت بھی موجود ہے، اور ذمہ داری بھی ہے.
لہجہ سخت ہونے کے لیے چند عوامل اور بھی دیکھے جانے چاہییں. ہو سکتا ہے کہ گارڈ کے گھر میں کوئی بیمار ہو جس کی دوا کے پیسے مہیا نہ ہو رہے ہوں، بچے کی فیس ادا نہ کر پایا ہو یا بیوی سے لڑ کر نکلا ہو. الجھا سلجھا گارڈ دھکے مارتے ہجوم کو سنبھالنے میں نازیبا الفاظ استعمال کر بیٹھا ہو. ایک کم تعلیم یافتہ اور بنیادی ادب آداب سے ناواقف شخص سے آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں.
میرا ماننا ہے کہ ہر شخص کا رویہ دوسرے شخص کے اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کا آئینہ دار ہوتا ہے. خاتون اینکر ایک پڑھے لکھے طبقے کی نہایت بری نمائندگی کر رہی تھیں. ان کے لب و لہجے سے غصہ صاف جھلکتا ہے. اینکر نے ہاتھ میں پکڑا مائک اور پیچھے موجود کیمپ ٹیم کو پورے زور و شور سے استعمال کیا. ویڈیو میں خاموش گارڈ کے ساتھ رپورٹنگ کرنے والی خاتون اینکر کا لہجہ، الفاظ اور انداز نہایت نامناسب تھے. اس ناخواندہ گارڈ نے پہلوتہی کی دو تین دفعہ کوشش کی جسے خاتون اینکر کی غصیلی اور جذباتی رپورٹنگ نے ناکام بنا دیا، حتی کہ خاتون نے رخ بدل کر دور جاتی بلا کو آواز دے ڈالی.
عین ممکن ہے کہ موقع پر موجود ہجوم میں پٹھان گارڈ کے جاننے والے بھی موجود ہوں جن کے سامنے اس عزت افزائی کی کہانی نمک مرچ کے ساتھ اس کے محلے میں پہنچنے کا شافی انتظام بھی موجود رہا ہو. اس رپورٹنگ کے بعد گارڈ کو اپنی ساکھ اور نوکری ہاتھ سے جاتی نظر آئی. اشتعال دلانے والے الفاظ نے ذہنی خلفشار کو بوائلنگ پوائنٹ پر پہنچا دیا اور ”ہاتھ اٹھ گیا“
جب آپ کسی کمزور بلی کو ایک کونے میں محصور کر دیں تو جان بچانے کے لیے وہ بھی پلٹ کر حملہ کرتی ہے. یہی قانون فطرت ہے. یہ فوری اشتعال کا عین فطری رسپانس تھا جس میں پاسبان عقل چھٹی منا رہا ہوتا ہے. کیمپ ٹیم اور خاتون رپورٹر کی اچھی قسمت کہ فوری اشتعال کے باوجود تھپڑ کی طرح پٹھان گارڈ کی بندوق کا رخ ان کی سمت نہ تھا ورنہ نتیجہ اور بھی بھیانک بھی ہو سکتا تھا.
آپ کہیں گے کہ خاتون کے ساتھ ادب سے پیش آنا چاہیے، بالکل! لیکن خاتون کو بھی اپنی عزت کروانا آنا چاہیے.
اب وقت آ گیا ہے کہ بےلگام لائیو فی البدیہہ کوریج کے لیے بھی کوئی لگام (ضابطہ اخلاق) وضع کی جائے ورنہ ”جوتا ڈرونز“ کی طرح ”تھپڑ کریسی“ کی روایت بھی زور پکڑ جائے گی.
تبصرہ لکھیے