ہوم << تصوف بمقابلہ تصوف - صفتین خان

تصوف بمقابلہ تصوف - صفتین خان

صفتین خان روحانیت کا نظام المعروف تصوف آج کل مقبول عام موضوع۔ حامی اور مخالف دونوں اپنے تیر ہدف کی طرف پھینکنے میں پرجوشں۔ کوئی اس کو دین کی حقیقت تزکیہ و احسان سے تعبیر کر رہا ہے تو کوئی اس کو متوازی دین قرار دینے پر مصر۔ سمجھ کر بھی نہ سمجھنے کا مظہر۔
اگر اختلاف اصولی ہو تو جزو میں بحث کا کوئی فائدہ نہیں وتا۔ اپروچ ہی دو رویہ ہو تو راستے کبھی نہیں ملتے۔ حاملین تصوف ٹھہرے شخصیات کی پوجا کرنے والے چاہے لاکھ اس سے انکار کریں کیوں کہ تصوف میں اس کے بغیر داخل ہی نہیں ہوا جا سکتا۔ جبکہ مخالفین ماخذ اور اصولوں کو برتر ماننے والے۔ عقیدت ہی اس کا پہلا پڑاؤ ہے۔ بڑے بڑے نام اس سے وابستہ تو پھر کیسے ان کے علمی و عملی تواتر کو غلط مان لیں۔ حالانکہ فلسفہ میں تواتر کی نہیں اصول کی اہمیت ہوتی ہے۔ عقیدہ اکثریت سے نہیں ماخذ سے لیا جاتا ہے۔ مخالفین فلسفہ تصوف کے ناقد جبکہ متصوفین حکمت عملی میں غیر اسلامی آمیزش سے برات کا اظہار کر کے اس کو عین اسلامی منوانے پر بضد۔ ایک اصول پر ناقد دوسرا جزئیات کو نمایاں کرنے والا۔ صوفیا اسی لیے فلسفہ سے زیادہ شغل رکھنے والے مسلم علمی تاریخ میں۔ حامیان تصوف کی یہ مجبوری بھی کیوں کہ وہ اصول کی جنگ نہیں جیت سکتے۔ اسی لیے تصوف کو بچانے کے لیے پہلے تزکیہ و احسان کو اس کی اصل قرار دے کر پہلو بچانے کی کوشش۔ جب علم کلام کی طرف توجہ دلائی جائے تو آخری حربہ ان تمام عقائد سے دوری کا اعلان ہوتا ہے جو جڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تصور شیخ ، توحید ، کرامات اور علم کلام سے لاتعلقی۔ مگر ان افکار کےحامل بڑے بڑے ناموں پر تنقید کرنے سے پھر بھی گریزاں کیوں کہ پر جلتے ہیں اس مقام سے آگے۔
تزکیہ و احسان کے حصول سے کس کو انکار؟ خشوع و خضوع کا کون مخالف؟ مگر بات محض اتنی سی نہیں۔ ایک پورا فلسفہ اور عملی نظام مرتب کیا گیا ایک خاص منزل کو سامنے رکھ کر۔ عبادات میں اجتہاد مباح صحیح مگر اس کا نصب العین حرام ہو تو جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے۔ منزل بظاہر تصور تزکیہ و احسان کی تعبیر مگر حقیقت میں ایک اور ہی دنیا کا راستہ۔ ایک ایسی دنیا جہاں کی روداد مخفی۔ جس کا الہام معصوم۔ جس کا عمل حد سے متجاوز۔ جہاں کی ترجیحات دین کی ترجیحات سے ماورا۔ اور دین کسی چیز کا نام نہیں مگر درست فہم ترجیحات سے منسوب ہے۔ یہ بگڑ جائے تو دین صرف چند رسومات کا ظاہری مجموعہ رہ جاتا ہے۔ اسی توازن کو درست کرنے نبی مبعوث ہوئے۔ عقیدہ میں ترجیح درست نہ ہو تو شرک جنم لیتا ہے۔ عمل میں بدعت جنم لیتی ہے۔ اسی لیے خالق نے قرآن و سنت میں عقیدہ و عمل کو تواتر کے ذریعے محفوظ کر دیا تاکہ انسانیت عقیدہ و عمل کی گمراہی سے بچ جائے۔ تصوف اگر عقیدہ و عمل میں اس توازن کو کھو دے تو عین گمراہی اور اگر پا جائے تو عین مطلوب۔
بعض لوگ اس کشمکش کو مزاجوں کے تنوع سے منسوب کر رہے ہیں مگر یہ محض مزاجوں کی تفریق نہیں جو تصوف کے حامی و مخالف دو گروہ بن گئے بلکہ اس توازن کو برقرار رکھنے کی جنگ ہے جس پر دین کی عمارت کھڑی ہے۔ اس کا فلسفہ و علم کلام مبنی ہے۔ اس کا عمل تواتر قائم ہے۔ تزکیہ کا تصور اتنا اہم ہے کہ ہر شخص کو اپنے مزاج کے مطابق خدا کے آخری کلام میں اس سے متعلق روشنی ملنی چاہیے۔ اس کے نطام میں ہر مزاج کے شخص کو کشش محسوس ہونی چاہیے اپنی افتاد طبع کے مطابق۔ اسی لیے اسلام ہر قسم کے مزاج کو تزکیہ مین اکاموڈیٹ کرتا ہے اور ایسا کرنا ہی اس کے الہامی ہونے کی دلیل ہے۔ کوئی ایسا نظام جو تمام مزاجوں کو تزکیے کے لیے اپنی طرف نہ کھینچے خدائی نظام ہو ہی نہیں سکتا۔ درجات میں فرق ہو سکتا ہے مگر شامل ہونے سے کراہت ممکن نہیں۔
کچھ لوگ اس کو لفظ اور معنی کے فلسفیانہ مباحث کے تناظر میں بیان کر رہے ہیں۔ Epistemology کی اصصلاحات میں۔ لفظ کے وجود کو ذاتی روحانی تجربہ بیان کرنے سے عاجز قرار دے کر۔ مگر یہ دلیل محض اس نظام کو سہارا دینے کا فلسفیانہ کمزور انداز ہے۔ جدید دور میں الہیات اور تصورات کو مزید مشکوک بنانے کی ایک اور وجہ و کوشش۔ جب نبی اپنا تجربہ الفاظ میں بیان کر سکتا ہے تو ولی کیوں نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو خدا کے پورے علم کلام کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ پھر عقیدہ کی ساری بحث فضول۔ حقیقت یہ ہے کہ صوفی جانتا ہے وہ کیا بیان کر رہا ہے اور کیوں۔ اگر ایک فیصد بھی اس کو اس پر شک ہوتا تو وہ اتنے یقین سے یہ سب بیان نہ کرتا۔
سو وقت آگیا ہے کہ زمانہ موجود میں اس نظام کی اہمیت و افادیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کی جائے۔ اس کے علم کلام و فلسفہ کو چھوڑ کر خدا کے آخری کلام کی روشنی میں دوبارہ سے بیان کیا جائے۔ اس کی عملیات میں انتہا پسندی کو دوسری دنیوی مصروفیات کو سمجھتے ھوئے توازن کے دائرہ میں لایا جائے۔ شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کو منہا کر کے اس کو معاشرے میں فروغ دیا جائے۔ اس کی باگ ڈور کشف سے لیکر علم کے ہاتھ میں دی جائے۔ ذکر کو فکر اور عمل سے مربوط کیا جائے۔ تصوف کو تصوف سے شکست دے دی جائے۔