پاکستان میں ایک وزارت مذہبی امور ہوتی ہے... جس کا معزرت کے ساتھ بنیادی کام کسی ٹریول ایجنسی سے زیادہ کا نہیں ہے...
حج اور عمرہ کے انتظامات کے علاوہ یہ وزارت کسی قسم کے متاثر کن کام سے عاری نظر آتی ہے......
کیا امریکی مسلمان حج کرنے نہیں جاتے.. کیا بھارت سمیت دیگر غیر مسلم ممالک سے مسلمان حج اور عمرہ کرنےنہیں جاتے...؟؟؟
کیا وزارت مذہبی امور کا صرف یہ کام رہ گیا ہے...؟؟؟
اس خطے سے انگریز تو چلا گیا..مگر بدقسمتی سے اپنا طرز حکمرانی چھوڑ گیا... یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو... آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ہر حکمران نے اس فارمولہ کو اپنایا ہے.... جتنا زیادہ مسلکی ، سیاسی اور معاشرتی حوالے سے ، عوام تقسیم در تقسیم رہے گی.. اتنا زیادہ حکمرانی ہموار ہو گی.....
آپ سوشل میڈیا دیکھ لیجیے....ہر دوسرا پاکستانی مفتی ہے... ہیٹ سپیچ کا کھلم کھلا مظاہرہ تمام ہی مسالک کی جانب سے کیا جاتا ہے... مگر کوئی کاروائی کرنا والا نہیں ہے... ریاست کی سب سے بڑی ناکامی کا منہہ بولتا ثبوت.... جو جتنا زیادہ دوسرے مسلک کو تنقید کا نشانہ بنائے گا اتنا بڑا مومن تصور ہو گا...
فرقہ ورانہ اختلاف کیا آج سے ہیں...؟؟ کئی سو سالوں سے جاری ہیں...وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت اور افسوس ناک بہودگی کا اضافہ ہو گیا ہے..... کیونکہ علما کی طرف سے کسی قسم کے موثر اقدامات کی مثال نہیں ملتی.. متنازعہ و غیر مستند تاریخ نسل در نسل کاپی پیسٹ ہوتی آ رہی ہے...
آئین پاکستان کہتا ہے کہ.. جو کہ مسلمان ہونے کی بنیادی شرط بحکم اسلام بھی ہے... !
ہر وہ پاکستانی مسلمان ہے جو، اللہ اور رسول صلی علیہ وسلم پر ایمان لائے..تمام انبیا ، فرشتوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو.. ختم نبوت یعنی حضرت محمد رسول صلی علیہ پر نبوت کا خاتمہ مانتا ہو....
ادھر سوشل میڈیا پر ، یہ بھی کافر وہ بھی کافر.... اس کیا فائدہ ہو گا؟؟؟؟ یقینا صحابہ اکرام کی عزت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے... مگر مدعا یہ ہے کہ.. یہ اختلاف آج کے نہیں ہیں...
ایک طرف آپ آئین کو بھی مانتے ہیں.. دوسری طرف آئین کی خلاف ورزی بھی... دیکھیے..لوجیکل بات ہے کہ.. اگر آئین کی رو سے کوئی مسلمان ہے تو اسے کیسے خارج کر سکتے ہیں..؟؟؟؟
جب یہ تعریف شامل کی جا رہی تھی تب کیوں اعتراض نہ ہوا..؟؟
اگر دلائل مضبوط ہیں.. تو نعرہ بازی اور، عسکری تنظیموں کی آڑ لیے بغیر ، دوبارہ سے قانون کا سہارا لیا جائے.... جیسے فتنہ قادیانیت پر لیا گیا تھا...
کافر کافر میں مشغول مکتبہ کے ، علما حضرات اسمبلی کا حصہ ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں...
ایک ترمیمی قرداد پاس کی جائے کہ... مسلمان وہ ہے جو رسول پاک صلی علیہ وسلم کے تمام اصحاب پر ایمان رکھتا ہو... نیز وہ تمام فرقہ ورانہ گمراہ کن کتب، جس میں حقائق مسخ شدہ پیش کیے گئے ہوں ان تمام پر پابندی لگا دی جائے... جھگڑا ہی ختم.... ہمت کریں.. کب تک عام پاکستانی ایک دوسرے کو ہلاک اور شہید کرتے رہیں گے....
آئین پاکستان کی رو سے کسی قسم کا خلاف اسلام کام نہیں ہو سکتا ہے..
چلیں آپ چھوٹے موٹے اختلاف سائیڈ پر رکھیے.... کچھ کام کھلم کھلا سراسر اسلام سے متصادم ہیں... ریاست خاموش تماشائی ہے....
آئین کا آرٹیکل 19 کہتا ہے خلاف اسلام اور اساس پاکستان و دیگر حساس قومی ایشوز پر بولنا آزادی رائے تصور نہیں ہو گا.... عمل درآمد کدھر ہے...؟؟؟
فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور برداشت لازم ہے... لیکن وہ عقائد اور مشقیں جو سراسر اسلام سے متصادم ہیں... ان کو کنٹرول کرنا اسی ٹریول ایجنسی کا کام ہے جو ورازت مذہبی امور کے نام سے اسلام آباد میں بیٹھی ہے....
اب آپ آئین کے آرٹیکل 20 پر آئیے.....
اس آرٹیکل کے تحت ہر مذہب کو امن ایمان اور اخلاق کے دائرہ کار کے اندر رہتے ، اپنے مذہبی عقائد پر عمل درآمد کی آزادی ہو گی... تمام مذاہب اپنے ادارے قائم کر سجتے ہیں...
یہ آرٹیکل بہت عمدہ ہے..اور مذاہب کے درمیان برداشت tolerance کے لیے موثر ہے.. یہ ہی طرز ہمیں تاریخ اسلام سے بھی ملتی ہے.....
مگر مدعا یہ ہے کہ.. عیسائی، سکھ اور دیگر مذاہب کے لیے تو یہ بہترین ہے... مگر مثال کے طور پر قادیانیت کے لیے یہ غیر موثر ہے.... اسی شق میں یہ اضافہ ہونا چاہیے کہ مذہبی آزادی یقینا مکمل ہے لیکن اسلام سے متصادم قطعی نہ ہو....
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ ایس ایم آر 1718 1993کے مطابق بھی قادیانی اپنے مذہب کی اشاعت نہیں کرسکتے... جو کہ بدقسمتی سے جاری ہے...مذہب قادیانیت سرے سے ہی اسلام سے متصادم ہے...
مدعا یہ ہے کہ.. پہلے تو ہر شخص کو انفرادی سطح پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھانا ہر مسلک کے علما کا کام بھی ہے کہ.. ہمارا ایمان اختلافات پر بات کیے بغیر بھی مکمل ہے... ہمارا کام قرآن و سنت کے تابع اپنی زندگیاں گزارنا ہے.......
ہم سے ہمارے اعمال پر سوال ہو گا... جن اختلافات پر آپ لوگ کھپ رہے یں..وہ ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہیں...
ددوسرا مدعا قانون پر عمل درآمد ہونا ہے.. جب ہم کہتے ہیں کہ.. ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ اسلام سے متصادم نہیں ہے تو بالکل نہیں ہے.... مسئلہ صرف نفاد نہ ہونے کا ہے.. اسی طرح جہاں ترمیم کی ضرورت ہے وہاں موثر ترمیم سے بھی نظریں چرائی جاتی ہیں....
آرٹیکل 33 کے تحت مملکت ، افراد کے درمیان عصبیت کی حوصلہ شکنی کرے... کسی قسم کی نسلی، صوبائی ، فرقہ ورانہ، سیاسی، علاقائی عصبیت سے روکے...
آپ ذرا غور کیجیے.... ہمارے حکمرانوں کی طرز حکمرانی ہی آرٹیکل 33 کی نفی ہے... عوام کو درج بالا تمام امور میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی جاری و ساری ہے....
یقین کیجیے پاکستان کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل ممکن نہ ہو... مسئلہ صرف حکمرانوں کی نیت میں اخلاص کی بدترین کمی کا ہے... ہم عوام ان بدنیتوں پر اندھا اعتماد کیے جاتے ہیں... جو خود تو محفوظ ہیں.. مگر کتنے پاکستانی ان کو محفوظ رکھنے کا صدقہ ہوئے....
آئیں ہم سب عہد کرتے ہیں کہ.. ہم پاکستانی اپنے لیول پر عصبیت کا شکار نہ ہوں گے.... ہم اس بات پر اتفاق کریں گے.. جو ہم مشترک ہے..اور بطور مسلمان ہر اس عمل، اور بات سے اجتناب کریں گے جو اسلام سے متصادم ہے..... ہم بطور معاشرہ اس بہترین اکثریت کو پہنچیں گے جس کے بعد، ویسے ہی حکمران دینے کا وعدہ ہے.....
تبصرہ لکھیے