ترقی، ایجاد یا معاشرے میں کسی نئی چیز کے رواج پانے سے وہاں کے تمام لوگ اسکو من وعن قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ای۔ ایم۔ روجرز کی اینویشن تھیری کے مطابق: مختلف لوگ نئے ائیڈیاز، پروڈکٹ یا تبدیلی کو مختلف اوقات میں اپنالیتے ہیں۔ معاشرے میں نئے اور بیرونی خیالات کے آنے اور براجمان ہونے میں کئی چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں جن میں ایک سوشل سسٹم بھی ہے۔ اگر پاکستانی معاشرے کے ماضی قریب اور عصرحاضر پر نظر دوڑائیں تو کئی چیزیں ایسی تھیں جنکی ممانعت زوروشور سے جاری تھی اور لوگوں کی نجات و صیانت اس میں تھی کہ ایسی حرمت و کراہت والی پروڈکٹ یا ائیڈیاز کو اپنے قریب آنے نہ دیں ورنہ نتیجہ دونوں جہانوں میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
میڈیا کا استعمال و ترویج جن پیمانے پر آج ہم دیکھ ریے ہیں کسی زمانے میں گھر میں سادہ ٹی وی کو رکھنا اور دیکھنا ان گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا تھا جن کا ازالہ ناممکن ہو۔ مجھے خوب یاد ہے کہ سکول میں ایک استاد محترم و مکرم ٹی وی او عذاب قبر کے نام سے ایک کتاب ظہر کی نماز کے بعد پڑھاتے تھے اور ہم سن سن کر توبہ پر توبہ کرنے لگتے۔ کراچی کے مفتی ابراھیم صاحب کی ٹی وی کی حرمت پر کتاب آج بھی بازار میں بکتی ہوگی جہاں مختلف عقلی و نقلی دلائل سے اسکو ممنوع بالوجہ قرار دیتے ہیں۔ یہی معاملی تصویر کے ساتھ بھی چلتا رہا۔ اگر مختلف مسالک کے فتوٰی جات کی کتابوں کو تھوڑا وقت دیا جائے تو قاری پر روزروشن کی طرح عیاں ہوجائے گا کہ صدیوں سے حرام قرار دی جانے والی تصویریں آج ہم کس دلیری کیساتھ کیمرے سے کھینچواتے اور سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ہیں۔
دس سال پہلے جس ٹی وی اور تصویر کو ہم اپنے اور دوسروں کے لئے حرام سمجھ بیٹھے تھے اب کونسی دلیل درمیاں میں نازل ہوئی کہ یہ سب چیزیں جائز بلکہ ضروری ٹھریں؟ عصر حاضر میں ہر طرف سے نعرے بلند ہونے لگے ہیں کہ میڈیا کا دور ہے اور جدید جنگیں پروپیگنڈہ سے جیتی جاتی ہیں اسلئیے میڈیا کے میدان میں مسلمانوں کا کردار مضبوط ہونا چاہیے۔ کیا دس سال پہلے بھی یہ ممکن تھا کہ مدرسے کا عالم دین ٹی وی کے کسی پروگرام کا اینکر پرسن ہوں؟ ایران اور کئے دوسرے اسلامی ممالک میں بعض علماء نے سنیما کو بھی اپنے اچھے مقاصد کی ترویج و تشہیر کے لئے لازمی قرار دیا ہے لیکن مستقبل قریب میں ٹی وی کے اینکر پرسن کی مانند سینیما کا ایکٹر بھی کوئی سفیدپوش ہوسکے گا کہ نہیں آنے والا وقت بتائےگا۔
مابعدجدیدیت کے فلسفیوں کا اس قضیے پر یقین ہے کہ کسی بھی قانون، رواج، فتوے، حکم اور اصول کی ابدیت پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ انکے مطابق، جو قانون یا رواج آج معاشرے میں نافذالعمل ہے یا معاشرہ جن احکام و اصول کو اپنے لیئے دستورالعمل سمجھتا ہے مستقبل میں ان سے انحراف اور چھٹکارہ ہی باعث فوز ہوسکتا ہے۔ قانون یا کسی عام حکم کے اندر اچھائی یا برائی موضوعی طور پر انسان کی اپنی سوچ سے ہوت ہے۔ ایک ہی چیز کے بارے میں دو انسان دو طرح کی آراء رکھتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ تمام لوگوں کے لئے ہر زمانے میں قطعی اور اٹل حکم نہیں ہوسکتا۔ ہر دور میں قانون کی نئی تشریح، احکام کی تاویل و تقئید اور لکھے ہوئے اصولوں کی تعبیروتفسیر میں اختلاف رہا ہوتا ہے۔ جس نے نتیجے میں قطعیت و ابدیت کا تصور ہی لازائل نہیں رہتا۔ معاملہ فقہی احکام اور فتاوٰی کا بھی ویسا رہا ہے۔ کتنی چیزیں تھیں جو ماضی میں حرام اور حاضر میں حلال کے زمرے میں آئیں اور مستقبل میں انکی حیثیئت کیا رہ جائے گی اس بات کو قاری پر چھوڑ جاتے ہیں۔
قانون یا رواج کو آڑ بنا کر نئے آئیڈیاز کو معاشرے کے اندر آنے سے روکنا، جدید ٹیکنالوجی کا فتووں سے مقابلہ کرنا، ایجادات کو کفرو شیطان کے آلات کہنا، ان کاموں سے مسلم دنیا کا آج تک کتنا نقصان ہوا ہے اس پر سیاسیات، عمرانیات یا بشریات کے کسی شعبے میں تحقیق کروانی چائیے تھی۔ ایک عرصے تک جدید عصری تعلیم کو مدارس میں آنے نہیں دیا۔ چھاپ خانہ کب کا ایجاد ہوا تھا لیکن مسلمانوں کے ہاں رواج نہ پاسکا جس کے سامنے ترکی کے مفتی اعظم کا فتوٰی تھا یا ہماری اپنی علم کی اشاعت سے بےحسی، عورتوں کو تعلیم سے دور رکھنا اور ماڈرن اقراء الاطفال کا قیام، یہ سب تضادات جدیدیت کا مقابلہ کرنے سے پھوٹے ہیں۔
انسانی اعضاء کی پیوندکاری، جنس کی تبدیلی، جینیات کی ساخت میں تغیر اور جدید بینکاری وہ مباحث ہیں جنکو تحریم و تحلیل کے دائرے میں لانے سے پہلے ایک بار عالمی اسلامی نظریاتی کانفرنس کے حوالے کرنے چاہیے۔
(مولانا سکران نے درس نظامی کے ساتھ فلاسفی میں ماسٹر کیا ہے اور اب ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کے طالب علم ہیں)
تبصرہ لکھیے