ہوم << سعودی عرب اور ایران میں لڑائی کیوں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ نقصان کس کا ہے؟ ناصر فاروق

سعودی عرب اور ایران میں لڑائی کیوں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ نقصان کس کا ہے؟ ناصر فاروق

فارس کے جنگجو بیڑے یمن کی سمندری موجوں میں اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ ”دور رس“ نگاہیں تہران سے کوفہ اور مدینہ تک خون کا سمندر موجزن دیکھ رہی ہیں۔ نجران اور جیزان کے ساتھ ساتھ چلتی حجاز کی حدوں میں حوثیوں کا ہجوم جمع ہو رہا ہے۔ دوسری جانب آل سعود خوفزدہ نگاہوں سے جاتے ہوئے دن دیکھ رہے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل اور تیل کی دھار چمک کھو رہی ہے۔ ریاض حکومت کا ریونیو لڑکھڑا رہا ہے۔ سعودی عوام کی سبسڈیز اچھے دنوں کی یاد بنتی جا رہی ہیں۔ خارجی مزدوروں کے غلامانہ شب و روز نامراد ہوئے جاتے ہیں، واجب الادا مزدوری تک ملنا محال ہو رہا ہے۔ نسل پرست آل سعود تلے کچھ آسودہ نہیں رہا ہے۔
صاف نظر آرہا ہے، آگ یمن میں بل کھا رہی ہے۔ خلیج عدن کے کنارے عرب و فارس تعصب سے جھلس رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جواب جتنا سادہ اتنا ہی عام فہم سے دور ہے۔ آگ اور مٹی کا ازلی تماشا ہے۔ روایت شیطان ابلیس سے چلی، اور بنی اسرائیل کي فضیلت سے عرب و عجم کی درجہ بندی پر پہنچ چکی۔ یہی ہے مسلم امہ کا اصل مسئلہ۔ یہی شیطان کا مؤثر ترین ہتھیار ہے، اسی ہتھیار سے مغرب لیس ہے۔
خبریں مسلسل خبردار کر رہی ہیں۔ ایران کے پریس ٹی وی پر فوج کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل مسعود جزائری کا بیان نقل ہوا ہے کہ ”ایران سے جنگ سعودی اتحاد کے بس کی بات نہیں، یہ اتحاد ایران کے مقابلہ میں بہت کمزور ہے۔“
فارن پالیسی جریدے نے رپورٹ کیا کہ ایران کے دوجنگی جہاز خلیج عدن پہنچ چکے، جہاں امریکہ کے جنگی بیڑے پہلے سے موجود ہیں۔ ایران کے جہاز الوند اور بوشہر جدید جنگی صلاحیتوں اور ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
رائٹرز سے خبر آئی ہے کہ روس نے s-300 میزائلوں کی طے شدہ کھیپ ایران کو مہیا کر دی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد نے غلط معلومات کی بنیاد پر یمن کے دارالحکومت صنعا میں جنازے پر بمباری کی، سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سیکڑوں زخمی ہوئے۔
ان خبروں کے علاوہ دو تجزیاتی پروپیگنڈے بھی مغربی منصوبے کی پیش رفت سمجھنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔
دی اکانومسٹ کا مضمون The West should help Saudi Arabia limit its war in Yemen، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مغرب کو جنگی مکر و فریب کی نئی ضرورت سمجھا رہا ہے۔ مضمون مغربی نقادوں کے حوالے سے کہتا ہے کہ ”وقت آگیا ہے کہ مغرب سعودی عرب سے شرمناک اتحاد ترک کر دے۔ اخلاقا اور شاید قانونا امریکہ اور برطانیہ سعودی عرب کی حرکتوں میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سعودی عرب کو جنگی جہاز اور اسلحہ فروخت کرتے ہیں، اور ہدف کو نشانہ بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔“ ( صنعا جنازے پر حملہ کے حوالے سے یہ معنی خیز بات ہے)۔ آگے چل کر مشورہ دیا گیا ہے کہ ”توازن کے لیے ضروری ہے کہ مغرب سعودی عرب کو لگام دے، یمن میں اس کی فضائی کارروائیوں سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرے، اور حتمی طور پر رکوا دے۔“
اسلامی تہذیب کے احیاء پرگہری نظر رکھنے والے پروپیگنڈسٹ امریکی مصنف ولی رضا نصر کی کتاب Shia Revival اور کچھ عرصہ پہلے کا ضمیمہ نما مضمون War for Islam مغرب کی حالیہ پالیسی کا بیانیہ واضح کر سکتا ہے۔ مضمون کے اختتام پر نصر مشرق وسطی کی صورتحال کا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے، ”مشرق وسطی کو نئے آرڈر کی ضرورت ہے۔ خطے کے زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ اب شیعہ خطے کی سیاست میں بالادست کردار چاہتے ہیں۔ ایران کو محدود رکھنے والی دیوار ڈھائی جا چکی۔ بظاہر، اس صورتحال کو امریکہ کی خاموش رضامندی حاصل ہے۔ سعودی اتحاد چاہتا ہے کہ مشرق وسطی کی صورتحال 2003ء سے پہلے کی سی ہوجائے، مگر وقت آگیا ہے، نئی حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ ایران خطے کی غالب قوت بن چکا ہے۔ اسی اعتراف پر امن کا انحصار ہے۔“
مغرب کے پالیسی سازوں کی اسٹریٹجی ایسا کھلا راز ہے، جسے چند مرحلہ وار اقدامات میں سمجھنا راکٹ سائنس نہیں۔ شیعہ سنی تفریق کے باوجود مشرق وسطی کی تاریخ ماضی قریب تک پرامن رہی ہے۔ مگرعراق پر امریکہ نے حملہ کرکے شیعہ اکثریت کا توازن سنی اقلیت کے خلاف دہشت ناک طریقوں سے بگاڑا، پھر سنی اقلیت کی محرومی و مایوسی کو کرائے کے دہشت گردوں کا شکار کر دیا۔ مشرق وسطی میں ایسی شیعہ سنی جنگ چھڑ چکی ہے، جسے روکنا بظاہر مشکل ہے۔ امريکہ اور روس کی قیادت میں مغربی دنیا دونوں کو اسلحے سے لیس کر رہی ہے۔ اقلیت ہونے کے باوجود ایران کے حق میں توازن پیدا کیا گیا ہے۔ امریکہ ایک جانب سعودی عرب کی حمایت کا ڈرامہ کر رہا ہے، اور دوسری جانب تہران حکومت کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کی خود ساختہ دوقطبی حکومتیں جاہ پرستی و نسلی فضیلت کی جنگ میں کشت و خون پر جُتی ہیں۔ عقلوں پر پردہ پڑا ہے، اور اس پردے پر جو منظر ہے، وہ ایک ایسے میدان جنگ کا ہے جہاں دو لشکر آمنے سامنے ہیں، مگر ایک لشکر میلہ سجائے دوسرے لشکر کے باہمی کشت و خون سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ باہمی خون خرابے میں لت پت لشکر مسلم امہ کا ہے، جبکہ تماشائی لشکر روس، امریکہ اور اسرائیل پر مشتمل ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ مشرق وسطی میں تمام ہی ممالک جنگی خطرات سے دہشت زدہ ہیں، سوائے اسرائیل کے۔ ریاض سے تہران اور بیروت تک جنگجوؤں کی فوج در فوج پورے خطے کو خاک و خون میں ملا رہی ہے، سوائے اسرائیل کے۔ سعودیہ کو کسی سے خطرہ ہے توایران سے۔ ایران کو کسی سے خطرہ ہے تو سعودیہ سے۔ مسلم امہ کا یہ باہمی خوف دور ہوسکتا ہے۔ آسان سا طریقہ ہے۔ عربی، فارسی، حوثی، سنی، شیعہ، اور ديگر مسلکی پہچان، نسلی فضیلت، قومی تعصب، اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر شناخت یا تفاخر ترک کر دیں۔ واحد شناخت ”مسلمان“ ہی کو باہمی فخر کا ذریعہ سمجھیں، اور تقوٰی ہی کو واحد معیار کردار ٹھہرائیں۔ باہمی قتل و غارت میں یہاں تک جو ہوا وہ امت وسط کا عظیم نقصان ہے، اگرنسلی تعصب کی یہ دست درازی حجاز میں ہوئی، تو تہران و ریاض ناقابل تلافی نقصان کے مرتکب ہو جائیں گے۔ یہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔