چائے والے ایک پشتون کی تصویر زیر بحث ہے اور اب میڈیا میں اس کی نیلی آنکھوں پر غزلیں کہی جا رہی ہیں۔ ہردفعہ جب اس کی وجاہت اور خوبصورتی پر کوئی مصرعہ اٹھاتا ہے، میرے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے اور ایک آواز لہو رلا دیتی ہے: ’ زماں کونترے زماں کونترے‘۔
یہ اسلام آباد کا ڈی چوک تھا۔ ڈرون حملوں کے متاثرین نے یہاں ایک کیمپ لگا رکھا تھا۔ میں اس کیمپ سے اپنا ٹاک شو ریکارڈ کرنے وہاں پہنچا تو ایک گاڑی سے محمد علی درانی نکلے اور اظہارِ یک جہتی کے لیے ان بچوں کے بوسے لینے لگ گئے جن کے جسمانی اعضاء ڈرون حملوں میں ضائع ہو چکے تھے۔ میں نے ایک بچے سے، جس کی دونوں ٹانگیں اور ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی، پوچھا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں نے وزیرستان کے عبدالکریم سے کہا کہ اس بچے کو بتاؤ کہ یہ مولوی صاحب پرویز مشرف کے وزیر تھے۔ درانی صاحب کی التجائیہ نظروں کے باوجود عبدالکریم نے پشتو میں بچے کو ساری صورت حال بتا دی۔ اس بچے نے جو جوب دیا وہ سن کر ہم سکتے کے عالم میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بچے نے کہا:
”میں انہیں کسی اسلامی جماعت کا رہنما سمجھ رہا تھا، یہ مشرف کے وزیر نکلے، لیکن کوئی بات نہیں، یہاں یہ ہمارے مہمان ہیں۔“
میں نے بہت سے لوگوں سے پختونوں کی مہمان نوازی کا سن رکھا تھا لیکن یہ اتنے زیادہ اعلی ظرف کے حامل ہوں گے، اس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آپ ذرا تصور کر کے دیکھیے ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ، جس کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی ہوں، ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہو، اتنی اعلی قدروں کا مظاہرہ کرے۔ میں کتنی ہی دیر حیرت سے اسے تکتا رہا۔
درانی چلے گئے تو میں نے ریکارڈنگ شروع کر دی۔ ریکارڈنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی بچی مسلسل بولے چلے جا رہی تھی۔ وہ عبد الکریم کی قمیض پکڑ کر کھینچتی اور کہتی ”ذماں کونترے ذماں کونترے“۔ میں نے کیمپ کے مہتمم اور مترجم عبدالکریم سے پوچھا یہ بچی کیا کہنا چاہ رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک ڈرون حملے میں اس کے مکان کا ایک حصہ جزوی طور پر تباہ ہو گیا ہے۔اس حصے میں انہوں نے کبوتر رکھے ہوئے تھے وہ سب مر گئے۔اس لئے یہ مجھے کہہ رہی ہے کہ آپ کو بتاﺅں کہ اس کے کبوتر بھی مار دیے گئے۔’زماں کونترے زماں کونترے‘( میرے کبوتر، میرے کبوتر)۔ میں نے اس معصوم سی بیٹی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اسے اردا نہیں آتی تھی اور میں پشتو نہیں جانتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں بول رہی تھیں اور میں آنکھوں کے سارے شکوے سمجھ رہا تھا۔ مجھے عباس تابش یاد آ گئے؛
”اس کو کیا حق ہے یہاں بارود کی بارش کرے
اس کو کیا حق ہے مرے رنگلے کبوتر مار دے“
پروگرام تو ختم ہو گیا لیکن ایک عرصہ اس بچی کی آواز میرے کانوں میں گونجتی رہی”زماں کونترے ، زماں کونترے“۔
مجھے صرف اتنا کہنا ہے ، اس بچی کی معصوم آنکھیں بھی بہت نیلی تھیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں، جس بچے کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں، اس کی آنکھ میں جھیلوں کے عکس تھے، پشتونوں کے خوبصورت بچے اور کسی پری دیس سے اتری دیومالائی کشش والی کتنی ہی معصوم بیٹیاں ڈرون حملوں میں مار دی گئیں۔ کیا کوئی جانتا ہے ان میں سے کتنی آنکھیں جھیلوں جیسی گہری اور آسمان جیسی نیلگوں تھیں، کتنی پلکوں میں قوس قزح کے رنگ تھے، کتنے معصوم اس حال میں مار دیے گئے کہ ان کے ہونٹوں سے ماں کے دودھ کی خوشبو بھی، ابھی جدا نہیں ہوئی تھی۔
نیلی آنکھوں کے بچاریو! کبھی اس قتل گاہ میں بند ہونے والی معصوم آنکھوں کو بھی دیکھنا، وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں۔
تبصرہ لکھیے