ہوم << قتل غیرت، نوازشریف اور سپرٹ آف لا - بلال ساجد

قتل غیرت، نوازشریف اور سپرٹ آف لا - بلال ساجد

بلال ساجد ولیم شیکسپئیر کے نام اور اُس کے مشہورِ زمانہ ڈرامہ ”مرچنٹ آف وینس“ سے بھلا کون واقف نہیں؟
سولہویں صدی عیسوی میں لکھے گئے اِس ڈرامے کی مرکزی کہانی کچھ یوں ہے کہ وینس شہر میں ایک تاجر خسارے میں چلا جاتا ہے اور ایک یہودی ساہوکار سے قرضہ لیتا ہے۔ یہودی ساہوکار اُس سے پرانی رقابت مٹانے کے لیے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر قرضہ مقررہ وقت پہ ادا نہ کیا گیا تو میں تمہارے جسم سے ایک پاؤنڈ (تقریباً آدھا کلو) گوشت لوں گا۔ پھر جیسا کہ فلموں اور ڈراموں میں ہوتا ہے کہ قرضہ وقت پہ واپس نہیں کیا جا سکتا، عدالت لگتی ہے اور یہودی ساہوکار طے شدہ ایک پاؤنڈ گوشت لینے کے لیے تاجر کے دل کا انتخاب کرتا ہے۔ قانونی حوالے سے اُس کا مؤقف پوری دوست ہوتا ہے کہ قرضہ لیتے وقت جسم کے کسی بھی حصے سے ایک پاؤنڈ گوشت لینے کی بات کی گئی تھی۔ اُس موقع پہ پورشیا، جو اس ڈرامے کی ہیروئن ہوتی ہے، وہ عدالت کو اس بات پہ قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اس سے تاجر کی جان چلی جائے گی اور اگرچہ عدالت قانون کے الفاظ پر عمل کر رہی ہے لیکن قانون کی روح مجروح ہو جائے گی۔ یہودی ساہوکار اپنی بات پہ مصر رہتا ہے اور بالآخر عدالت اُسے ایک پاؤنڈ گوشت لینے کی اجازت دے دیتی ہے۔ آخری وقت میں پورشیا کی طرف سے دلیل دی جاتی ہے کہ معاہدے کے مطابق یہودی تاجر صرف ایک پاؤنڈ گوشت لے سکتا ہے، وہ ضرور لے لیکن اگر اِس عمل کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی گرا تو وہ اضافی ہوگا اور اُس کا حساب ہم یہودی تاجر سے لیں گے۔ اِس کے بعد یہودی تاجر اپنے مؤقف سے دستبردار ہو جاتا ہے اور یوں کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔
یہ کہانی اپنے ڈائیلاگز اور انسانی رویوں کے حوالے سے ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے لیکن فی الوقت یہ کہانی اس لیے بیان کی گئی کہ اس سے قانون کے الفاظ Letter of Law اور قانون کی روح Spirit of Law کے ربط کو سمجھنے میں مدد ملے۔
Letter of Law اور Spirit of Law کے فرق کو سمجھنے کے لیے سب سے کلاسیک مثال بنی اسرائیل کے اُس رویے کی ہے جو انہوں نے یومِ سبت کے حوالے سے اپنایا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو ہفتے کے دن دریا سے مچھلیاں پکڑنے سے منع کر دیا۔ پھر جیسا کہ آزمائش کا اصول ہے، ہفتے کے دن مچھلیوں کی تعداد عام دنوں سے زیادہ ہوتی اور وہ پانی کے نیچے رہنے کے بجائے سطحِ آب پہ مچل مچل جاتیں۔ لالچ، حرص اور طمع چونکہ انسانی مزاج کا حصہ ہیں اور اگر مذہب اس راستے کی رکاوٹ بنے تو پھر بندہ حیلے ڈھونڈتا ہے، اور جیسا کہ حیلہ ساز علماء و مشائخ ہر دور میں مل جاتے ہیں تو بنی اسرائیل کے علماء نے بھی درمیانی راہ یہ نکالی کہ اگرچہ اللہ نے ہفتے کو دریا سے مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا ہے لیکن اگر ہم دریا کے ساتھ ایک تالاب بنا کر ہفتے والے دن دریا کے پانی کا رخ موڑ کے مچھلیوں کو تالاب میں لے آئیں اور اتوار والے دن پکڑ لیں تو ظاہر ہے ہم اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر رہے کیونکہ ہم ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے کے مرتکب نہیں ہو رہے۔ اب دیکھیں کہ لیٹر آف لاء یا قانون کے الفاظ کا پورا پورا احترام ہو رہا ہے لیکن سپرٹ آف لاء یا قانون کی روح کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں لیٹر آف لاء کو لے کر سپرٹ آف لاء کا مذاق اڑایا جانے لگے تو ایسے میں ریاست یا حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے سب سے بہترین مثال حضرتِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور سے ملتی ہے۔ آپ طلاق کے حوالے سے قرآن کا قانون پڑھیں۔ قرآن نے کہا، طلاق طہر میں دی جائے گی، مقاربت کے بغیر دی جائے، طلاق دینے سے پہلے صلح کی کوشش کرائی جائے وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح سے تین طلاق دی جانے کے بعد ہی نکاح باطل ہوگا۔ اللہ کے رسول علیہ السلام کی زندگی کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی آئے اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے دی ہے۔ اللہ کے رسول علیہ السلام نے تفصیل پوچھی اور فرمایا کے تم جاؤ، تمہاری طلاق نہیں ہوئی (یعنی صرف ایک طلاق ہوئی ہے)۔ یعنی قرآن کا حکم اور رسول اللہ علیہ السلام کا عمل یہ ہے کہ تین بار طلاق، طلاق، طلاق کہہ دینے سے صرف ایک طلاق ہی واقع ہوتی ہے، تین نہیں۔ یہی رویہ حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت اور حضرت عمر کی خلافت کے پہلے دو سال بھی جاری رہا۔ لیکن بعد میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ایسے کیسزز کی تعداد زیادہ ہوگئی جس میں لوگ طلاق دے دیتے اور بعد میں آ کر عذر کرتے۔ ایسے میں حضرت عمر فاروق نے یہ حکم جاری کیا کہ آج کہ بعد جو شخص ایک مجلس میں تین بار طلاق دے گا، ہم یعنی ریاست اُس کی طلاق نافذ کر دے گی۔ اس حوالے سے علماء کی رائے میں آج تک اختلاف چلا آ رہا ہے اور کچھ لوگ تین طلاق کو ایک طلاق گنتے ہیں اور کچھ علماء تین طلاق کو تین طلاق ہی گنتے ہیں۔
اوپر کی تین مثالوں سے ہم مندجہ ذیل نتائج برآمد کر سکتے ہیں:
1۔ انسانی معاشروں میں سپرٹ آف لاء کی اہمیت لیٹر آف لاء سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اگر سپرٹ آف لاء کو پسِ پشت ڈال دیا جائے تو انسان مختلف حیلوں اور بہانوں سے قانون میں موجود سقم یا کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔
2۔ ایسی صورت میں جبکہ سپرٹ آف لاء کو پسِ پشت ڈالنے کا رواج عام ہو جائے، ریاست کو مداخلت کا حق ہے اور وہ اللہ اور اللہ کے رسول علیہ السلام کی طے کردہ حدود کے اندر قانون سازی کر سکتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا۔
اب ان نتائج کی روشنی میں دیکھیں کہ پاکستان میں غیرت کے نام پہ قتل کرنے والے لوگ کس قانون کا سہارا لے کر جان بچاتے ہیں، اور کیا یہ عمومی رویہ سپرٹ آف لاء سے میل کھاتا ہے؟ صورتحال یوں ہے کہ سالِ گزشتہ میں 1096 مرد و زن غیرت کے نام پہ قتل ہوئے، اکثریت جن میں سے خواتین کی تھی اور قتل کرنے والے اکثر وہ رشتہ دار تھے جو ولی یا وارث کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اس طرح کہ اکثر کیسز میں مجرمین اللہ کی جانب سے دی جانے والی رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور بہن کو قتل کرنے والا بھائی اپنے باپ سے معافی لے کر نہ صرف یہ کہ قانون کی گرفت سے بچ جاتا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ چوڑے سینے کے ساتھ معاشرے میں زندہ رہتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو بھی اسی قانون کے سہارے باہر بھیجا تھا اور ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں بھی سپرٹ آف لاء اُسی طرح مجروح ہوئی تھی جس طرح غیرت کے قتل کے کیسزز میں ہوتی ہے۔
میری ناقص رائے میں یہ اللہ کے قانون کے ساتھ شغل لگانے والی بات ہے اور میں پوری ایمانداری سے یہ بات سمجھتا ہوں کہ اگر میاں نواز شریف کے بجائے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت ہوتی تو وہ اس طرح کے کیسز میں اِس رعایت کو ختم کر دیتے اور اس طرح کے قتل کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دیتے۔ (اگر آپ کو یہ بات عجیب لگے تو مزاجِ عمر رضی اللہ عنہ کو سمجھنے کی کوشش کریں)۔ ایسے میں اگر میاں نواز شریف کی حکومت نے اس قانونی رعایت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کا راستہ روکنے کی اپنی سی کوشش کی ہے تو اسے ایک مثبت پیش رفت سمجھنا چاہیے اسے اللہ کے دیے ہوئے قانون میں ترمیم سے زیادہ اللہ کے دیے ہوئے قانون کے ساتھ کھلواڑ کے پسِ منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شکریہ

Comments

Click here to post a comment