حال ہی میں چیچنیا کے دار الحکومت گروزنی میں صوفی اسلام سے تعلق رکھنے والے علماء کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی ہے کہ جس کا موضوع یہ تھا کہ ”اہل سنت والجماعت کون ہیں؟“ اس کانفرنس کے اعلامیہ میں یہ بیان جاری کیا گیا کہ جو سلفی اہل علم صفات متشابہات کا لغوی معنی جاری کرتے ہیں، وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج ہیں کہ وہ مجسمہ ہیں یعنی اللہ عزوجل کی تجسیم کے قائل ہیں۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے اس بارے زاویہ نظر کے نام سے ایک کالم مرتب کیا ہے جو کہ روزنامہ دنیا اور دلیل میں شائع ہوا ہے۔ اورہمارے پیش نظر اس وقت یہی کالم ہے۔
ہماری نظر میں کانفرنس کا اگر تو اصل مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام میں پائی جانے والی تکفیری سوچ اور اس کے حاملین کو اہل سنت و الجماعت سے خارج قرار دیا جائے، تو اس حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور یہ نکتہ تمام مکاتب فکر کے اتحاد و اتفاق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اور مفتی صاحب نے یہ اچھا لکھا ہے کہ داعش اور تکفیری، سلفی نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سلفیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
اسی طرح بریلویوں میں بھی ان کے بعض بڑے تکفیری ہیں تو ان کے بارے کبار بریلوی علماء یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بریلویت کی طرف منسوب ہیں لیکن اصلا بریلوی نہیں ہیں کہ بریلویت تو دراصل غیر تکفیری سوچ ہے کہ جس کے امام پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ ہیں۔ تو اس طرح بریلویت کو بھی انتہا پسندی کے جراثیم سے پاک کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سلفیوں نے تکفیریوں سے لاتعلقی کا اعلان کر کے یہ کام کیا ہے۔
لیکن اس کانفرنس کے اعلامیے میں اور پھر مفتی صاحب کے کالم میں جس طرح سے معاصر سلفیہ اور اہل الحدیث کو اہل سنت والجماعت سے خارج کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو واضح رہے کہ اہل الحدیث میں سے بہت سے علماء اہل سنت والجماعت میں سے بریلویوں اور دیوبندیوں کو خارج قرار دے کر یہی کام بہت احسن انداز میں ان سے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو اسلام اور اہل سنت کے دائرے کے اندر باہر کرنے سے امت میں کوئی اتحاد کی راہ ہموار نہیں ہونے لگی بلکہ فکری انتشار اور تعصب بڑھے گا۔
وسائل اور اسباب ان کے پاس بھی ہیں کہ جنہیں آپ اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دے رہے ہیں، عالمی کانفرنسیں وہ بھی منعقد کروا سکتے ہیں، علماء اور جماعتیں بھی ان کے پاس ہیں اور جب وہ منظم انداز میں حکومتی سطح پر ایسی کانفرنسیں کروائیں گے کہ جن میں صوفیوں کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیں گے تو آپ لازما ان پر تنقید کریں گے۔ تو تنقید آپ کا حق بنتا ہے اور یہی حق دوسرے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ پس یا تو آپ اسے ایک مکالمہ مان لیں کہ آپ نے کالم لکھ کر اس پر ایک مکالمے کا آغاز کیا ہے کہ ”اہل سنت والجماعت کون ہیں؟“ تاکہ ہر دو طرف سے لوگ لکھیں اور پھر خود ہی قارئین طے کر لیں گے کہ کون ہیں؟ لیکن اگر آپ کا مقصد مکالمہ کے بجائے امت میں اتحاد کی راہ ہموار کرنا ہے، تو پھر اہل سنت والجماعت میں سے ایک معروف مکتب فکر کو نکال دینا، اتحاد کے بجائے اتنشار کی طرف کا سفر ہے۔
اب جہاں تک علمی بات کا تعلق ہے تو سلفیہ کا جو موقف ہے، وہی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور ائمہ اربعہ کا ہے البتہ چوتھی صدی ہجری میں جا کر امام ماتریدی رحمہ اللہ نے ان مسائل میں اپنے سلف کے مؤقف سے اختلاف کیا اور حنفیہ نے عقیدے میں ان کے موقف کو اختیار کر لیا اور ماتریدی کہلائے۔ صفات متشابہات میں سلف صالحین اور ائمہ اربعہ کا مؤقف تفویض نہیں بلکہ معلوم المعنی اور متشابہ الکیفیہ ہے جیسا کہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صفات متشابہات میں تیسرا مسلک ”معلوم المعنی، متشابہ الکیفیہ اور حق ان میں مسلک ِثالث ہے اور یہی مذہب صحابہ وتابعین و ائمہ مجتہدین ومحدثین وفقہا واُصولیین محققین ہے۔“ ہم اس بارے مفصل گفتگو اپنے ایک مستقل مضمون ”کیا ائمہ اربعہ صفات الہیہ میں مفوضہ ہیں؟“ میں کر چکے ہیں جو کہ ماہنامہ محدث میں شائع ہوا ہے اور اس کا لنک یہاں دیا جا رہا ہے۔
اب تجسیم کے طعن کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک متشابہ الکیفیہ کی قید ہے تو تجسیم لازم نہیں آتی کہ متشابہ الکیفیہ لفظ کے معنی ہی کا دوسرا پہلو ہے۔ متشابہ الکیفیہ سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقت من وجہ نامعلوم ہےجبکہ معلوم المعنی سے معلوم ہوا کہ حقیقت من وجہ معلوم ہے۔ پس سلفیہ حقیقت کے من جمیع الوجوہ ادراک کے قائل نہیں ہیں بلکہ من وجہ ادراک کے قائل ہیں۔آپ معلوم المعنی سے زیادہ متشابہ الکیفیہ کے پہلو پر زیادہ غور کریں تو سلفیہ کے موقف پر صحیح طور پہنچ جائیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک ”قدم“ کا حقیقی معنی ثابت ہے اور یہی اس کا مرادی معنی ہے۔ ”قدم“ اپنے حقیقی معنی میں نص ہے کہ تفویض اس لیے نہیں ہو سکتی کہ الزامی جواب یہ ہے کہ ”قدم“ سے کم از کم ”ید“ مراد نہیں ہے یعنی ایک دوسری ہی صفت۔ تو کچھ تو تحدید ہو گئی، جب کچھ تحدید ہو گئی تو تفویض نہ رہی۔ پس ”قدم“ اپنے حقیقی معنی میں ”ما سيق الكلام لاجلہ“ کے مقصود میں ہے لیکن متشابہ الکیفیہ کی قید کے ساتھ۔ اور اس پر مزید سوال یا غور وفکر یا وضاحت کرنے کے بدعت ہونے کے فتوی کے ساتھ۔
تیسری بات یہ ہے کہ الزامی جواب میں سلفیہ یہ کہتے ہیں کہ اشاعرہ ماتریدیہ کے سات یا آٹھ صفات مان لینے سے اگرتجسیم لازم نہیں آتی تو ہمارے جمیع صفات کے مان لینے سے تجسیم کیوں لازم آتی ہے؟ کیا صفت کلام کے لیے منہ اور جبڑوں کے ہونے کا سوال پیدا نہیں کیا جا سکتا یا صفت ارادہ کے لیے دل کے ہونے کا سوال پیدا نہیں کیا جا سکتا یا صفت سماعت اور بصارت کے لیے کان اور آنکھیں ہونے کے سوالات پیدا نہیں ہو سکتے؟ اگرچہ ان سوالات کے جواب دینے میں خاص طور صفت کلام میں اشاعرہ ماتریدیہ بہت دور نکل گئے کہ کلام کو کلام نفسی بنا دیا اور قرآن مجید کو کلام الہی کی بجائے عبارت کلام بنا ڈالا حالانکہ قرآن مجید نے کہا کہ صفت کلام وہ ہے کہ جسے کلیم اللہ علیہ السلام نے سنا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم نے مکالمہ بھی کیا۔
یہ صرف صفات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جمیع امور غیبیہ کا ہے۔ جنت کا لفظ جو قرآن مجید نے استعمال کیا ہے، اس کا معنی معلوم ہے لیکن اس کا کوئی مصداق کامل ہمارے علم میں نہیں ہے۔ یعنی جنت کا معنی باغ ہے لیکن اس کی کیفیت متشابہ ہے۔ پس اگر کوئی یہ کہے کہ جنت سے مراد اسکول ہے یا ہسپتال ہے تو یہ تاویل کا طریقہ ہے اور اس کے جاری کرنے والوں کو متاولہ کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جنت کا معنی معلوم نہیں ہے تو یہ تفویض کا طریقہ ہے اور اسے اختیار کرنے والوں کو مفوضہ کہتے ہیں۔ اور کوئی اگر یہ کہے کہ جنت کا معنی معلوم ہے لیکن کیفیت متشابہ ہے کہ اس کا کوئی مصداق ہماری اس دنیا میں نہیں ہے تو یہ سلفی اسلوب ہے اور اسے ماننے والوں کو سلفیہ کہتے ہیں۔
اور اگر تاویل کر بھی لی جائے تو مجاز مراد لینے کی صورت میں لفظ سے حقیقت زائل نہیں ہوتی، کیونکہ لفظ تو حقیقی معنی کا ظرف ہے۔ اگر حقیقت زائل ہو جائے تو لفظ قائم نہ رہے گا بلکہ ختم ہو جائے گا کیونکہ لفظ سے حقیقت کو زائل کر کے اس کے مجاز کا کوئی تصور ممکن نہیں ہے کہ مجاز تو حقیقت کی وجہ سے قائم ہے۔ اس کے علاوہ بھی جوابات ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ہم انہیں نقل نہیں کر رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے