آج ساڑھے گیارہ بجے دن میں مارکیٹ میں سودا سلف لینے کے لیے ایک دکان پر کھڑا تھا تو پی پی پی کے نغمے کی مخصوص دھن سنائی دی۔ آواز کی سمت نظر دوڑائی تو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی آتی دکھائی دی۔ موٹر سائیکلوں، کاروں، سوزوکیوں اور ٹرکوں میں سوار ریلی کے شرکا کا میں نے جائزہ لیا۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میں PPP کے جلسوں اور ریلیوں میں سندھی بھائی زیادہ شرکت کرتے ہیں جن کی اکثریت گوٹھوں کے رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ میری نظر ایک سوزوکی پر سوار کھڑے ایک باریش چہرے پر رک گئی۔ یہ کوئی معمولی باریش چہرہ، خط یا چھوٹی داڑھی والا face نہیں تھا۔ مکمل باریش یعنی داڑھی کو قینچی نہ لگانے والا سلفی چہرہ تھا۔ یہاں میرا مقصد سلفی یا داڑھی والوں پر تنقید نہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ چاہے بندہ سلفی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو یا اہل تشیع، اس کے سامنے جب دین کے غلبے اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے، اور اس کے لیے صالح و دیانت دار قیادت کو ووٹ دینے کو کہا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا کیا کام سیاست میں۔ یہ کیا حکومت چلائیں گے؟ مجموعی طور پر عوام کی اکثریت کی یہی سوچ ہے چاہے مذہبی کیوں نہ ہوں۔ دیندار طبقہ پنج وقتہ نماز کا پابند ہے۔ اپنے مسلک کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے مگر جب انتخابات کا معرکہ ہوتا ہے تو اس معاملے میں دین بھول جاتا ہے۔ووٹ ان کو دیتا ہے جو لادین، کرپٹ، بھتہ خور اور دہشت گرد ہیں۔ یہی سوچ اور رویہ ایسے فرد کو بھی صدارت اور گورنر کے منصب تک پہنچا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے جو کرپشن اور دہشت گردی کے حوالے سے مشہور ہوتا ہے۔
ریلی کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب تک یہ سوچ اور رویے برقرار ہیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟
تبصرہ لکھیے