شرٹ کو یہ ساتواں سال تھا، سوچا اب تو نئی لے ہی لینی چاہیے. ویسے بھی کل یونیورسٹی میں پہلا دن ہے. بڑی مشکل سے ”شادی فنڈ“ سے 500 روپے نکالے اور جی کڑا کر کے بازار کی جانب روانہ ہوا. پرانی بائیک کو دور ہی پارک کیا اور پیدل ”شاہرائے حسن و مستی“ کی روشن رنگینی کی طرف ہو لیا. ابھی چند ہی قدم چلا تھا کہ سامنے سے ایک دوشیزہ سلیو لیس ٹی شرٹ اور سکن ٹائیٹ جینز میں، کھلے بالوں کو ایک جھٹکے سے سہلاتی، نمودار ہوئی. ابھی کل ہی ایک ”نیک پروین“ سپر ماڈل کی ٹویٹ پڑھی تھی کہ، ”گند تو مرد کی نظر میں ہوتا ہے. ہمیں پردے کا درس دینے والے اپنی نظریں جھکا کیوں نہیں لیتے؟“ میں نے فوراً اس ”قول زریں“ پر عمل کیا اور نظریں جھکا لیں.
پر یہ کیا؟ اب سامنے کھڑی ونڈو شاپنگ کرتی ایک بی بی کے خوبصورتی سے تازہ تازہ ”پیڈی کیور“ ہوئے، آنکھوں کو چندھیا دینے والی سرخ نیل پالش سے مزین، ہائی ہیل اور سٹریپس والے ”سٹائیلو“ جوتوں سے جھانکتےگورے پاؤں اور پازیب سے سجے برہنہ ٹخنے تھے.. میں نے فوراً ”لا حول و لا قوۃ الا باللہ“ پڑھ کے نظروں کو دائیں جانب موڑ دیا، کہ مقصد تو نظر ہٹانا ہے، نہ کہ محض جھکانا.
اب اتفاقاً اس جانب زنانہ زیر جاموں کا ایک بڑا سا سٹور تھا. ڈسپلے پر کئی ایک ذمیز پر انواع و اقسام کی ”نائیٹیز“ اور ”بکنیز“ کے علاوہ مشہور فرنگی حسیناؤں کی ”غربت“ کا دیدار کرواتے پوسٹر تھے جو ہر گزرنے والے کی توبہ تڑوا رہے تھے. میں نے صبح ہی تو مولانا طارق جمیل صاحب کا آخرت پر بیان سنا تھا لہذا میں فوراً ”استغفراللہ“ کہہ کر سڑک پار کر کے دوسری جانب چلا گیا.
ابھی رخ سیدھا کیا ہی تھا کہ سامنے سے ایک جوان کپل ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، دنیا و مافیہا سے بے خبر، ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مجھ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا. ان سے نظر ہٹائی تو آگے سے چھ سات کالج سٹوڈنٹس کا گروپ آتا دکھائی دیا. لڑکے لڑکیاں بے تکلفی اور بے پروائی سے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے، قہقہے لگاتے چلے آ رہے تھے. دور سے البتہ بالکل پتہ نہ لگتا تھا کہ لڑکا کون سا ہے اور لڑکی کون سی.
ان پہ دو حرف بھیج کر شرٹ والی دکان میں داخل ہوا تو یکدم اتنی ساری لڑکیوں کو دیکھ کر ایک دفعہ تو چونکا کہ کہیں کسی غلط دکان میں تو نہیں گھس آیا. باہر نکل کر دوبارہ تسلی کی کہ خالصتاً مردانہ کپڑوں کی ہی دکان ہے ناں. پتہ لگا کہ آگے ویلنٹائن ڈے آ رہا ہے اور سب بیبیاں اپنے ”بھائیوں“ کے لیے گفٹس خرید رہی ہیں.
اگلے روز یونیورسٹی گیا تو دماغ ہی چکرا گیا. یا الہی یہ درس گاہ ہے یا کیٹ واک کا ریمپ جہاں ایک سے ایک ماڈل، لباس سے آزادی کے انواع و اقسام کے طریقوں سے لیس نظر آ رہی تھی. اب پھر اسی مصیبت کا سامنا تھا کہ بندہ نظریں ہٹائے بھی تو کہاں جمائے. درخت کے نیچے، ستون کے پیچھے، لائیبریری کے نیچے، کیفے میں، راہداری میں، حتی کہ لیکچر تھیٹر میں بھی لڑکے لڑکیاں کسی فلم کی شوٹنگ کرتے محسوس ہوئے.
اب تک میری ”برداشت“ جواب دے چکی تھی. گھر پہنچا اور سیدھا امی کو جا کہہ دیا کہ، ”بس اماں بہت ہو گئی، اب میری شادی کر دے.“
اماں نے سر پر ایک چپت لگائی اور بولیں، ”چل ہٹ بے شرم. ابھی تیری عمر ہی کیا ہے. پہلے کچھ بن کے تو دکھا.....“
اور مجھے لگا کہ اماں بھی ساری لڑکیوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف سازش میں شریک ہے.
تبصرہ لکھیے